رادھے ماں: سرخ لپ سٹک اور مہنگے کپڑوں کی شوقین ’معجزوں کی ماں‘ جن کے امیر پیروکار کتوں اور بندروں کی آوازیں نکالتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 19, 2025

BBCرادھے ماں کو صبح صبح اٹھنا، سادہ کپڑے پہننا یا طویل خطاب دینا پسند نہیں، وہ خود کو ’معجزوں کی ماں‘ کہتی ہیں

وہ معجزے کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں اور ان کے پیروکار انھیں بھگوان مانتے ہیں۔ رادھے ماں ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جو انڈیا میں ’دیوتا‘ کے متنازع اور بڑھتے رجحان میں شامل ہیں اور بڑی تعداد میں ان کے پیروکار ہیں۔ بی بی سی نے یقین اور خوف کی اس دنیا سے پردہ اٹھانے کے لیے ان تک رسائی حاصل کی۔

لوئی ویتون اور گوچی کے بیگ اٹھائے، سونے اور ہیرے کے زیورات پہنے روایتی لباس میں ملبوس خواتین رادھے ماں کے ساتھ آدھی رات کے اجتماع میں شرکت کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔

بہت سی دیگر ایسی شخصیات کے برعکس رادھے ماں کو صبح صبح اٹھنا، سادہ کپڑے پہننا یا طویل خطاب دینا پسند نہیں، وہ خود کو ’معجزوں کی ماں‘ کہتی ہیں۔

رادھے ماں نے مجھے بتایا کہ ’سچ تو یہ ہے کہ وہ معجزے ہوتے ہیں جن کی قدر کی جاتی ہے۔ ورنہ کوئی بھی رقم عطیہ نہیں کرتا۔ ان (خواتین) کے ساتھ معجزے ہوتے ہیں، ان کا کام ہو جاتا ہے اور پھر یہ رقم عطیہ کرتی ہیں۔‘

اس بارے میں بہت سی کہانیاں موجود ہیں کہ کیسے رادھے ماں نے بے اولاد جوڑوں کو بچوں کی نعمت سے نوازا، ان خواتین کی مدد کی جو صرف بیٹیوں کو جنم دیتی تھیں اور پھر ان کے بیٹے پیدا ہوئے، بیماروں کو شفا دی اور ڈوبتے ہوئے کاروبار منافع بخش بنا ڈالے۔

لیکن کرشماتی طاقتوں کے یہ دعوے صرف رادھے ماں سے ہی منسوب نہیں۔ انڈیا میں کئی نام نہاد دیوتا ہیں اور کوئی بھی گنتی نہیں کر رہا کہ ان کی تعداد ہر سال بڑھ ہی رہی ہے۔ ان میں سے کچھ پر غلط کاموں، کرپشن اور حتیٰ کہ جنسی حملوں کے الزامات بھی ہیں۔

رادھے ماں پر بھی الزام لگا تھا کہ انھوں نے کالے جادو کی مدد سے جہیز کی رقم جمع کرنے میں مدد کی، جو انڈیا میں غیر قانونی ہے لیکن پولیس کی تفتیش کے بعد یہ کیس ختم ہو گیا۔

ان الزامات کے باوجود ہزاروں عقیدت مند اب بھی اپنے دیوی اور دیوتاؤں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ پچھلے سال ایسے ہی ایک اجتماعمیں بھگدڑ کے نتیجے میں 120 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

BBCرادھے ماں کے پیروکار امیر کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں

انڈیا میں توہم پرستی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم (ABANS) کے سربراہ پروفیسر شیام مانو کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر انڈین شہری ایسے خاندانوں میں پرورش پاتے ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ کرشماتی طاقتیں عبادت اور مراقبے سے حاصل کی جا سکتی ہیں اور جن کے پاس یہ طاقتیں ہوتی ہیں وہ معجزے بھی کر سکتے ہیں۔‘

’ایسے شخص کو دیوتا سمجھا جاتا ہے۔‘

عام طور پر تاثر یہ ہے کہ ایسے خیالات سے زیادہ تر غریب یا ان پڑھ افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن رادھے ماں کے پیروکار امیر کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔

میں آکسفرڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ کرنے والے پشپندر بھاٹیہ سے ملی جو ایک ایجوکیشن کنسلٹنسی چلاتے ہیں۔ وہ رادھے ماں کے اجتماع میں شامل ہونے کے لیے ایک قطار میں کھڑے تھے۔

پشپندر نے مجھے بتایا کہ انھوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ’جسمانی شکل میں ایک اعلیٰ ہستی‘ کے پیروکار بنیں گے۔

وہ کہنے لگے کہ ابتدائی طور پر ان کے ذہن میں یہ سوال تھے: ’کیا بھگوان واقعی انسانوں کی شکل میں آتا ہے؟ کیا یہ سچ ہے؟ کیا رادھے ماں واقعی آپ کو ایسے نواز سکتی ہیں کہ آپ کی زندگی بدل جائے؟ یہ معجزے آخر کیسے ہوتے ہیں؟‘

پشپندر کی رادھے ماں سے ملاقات ان کے خاندان میں ہونے والے ایک سانحے کے بعد ہوئی۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پشپندر اس وقت کمزور محسوس کر رہے تھے لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ رادھے ماں کو واقعی ان کی فکر ہے۔

’مجھے لگتا ہے کہ پہلے درشن میں ہی، رادھے ماں کی شخصیت نے مجھے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ میرے خیال میں جب آپ انسانی شکل کو دیکھیں گے کہ وہ کون ہیں تو آپ کا فوری رابطہ قائم ہو جائے گا۔‘

زمین کو زندگی بخشنے والے ’سورج دیوتا‘ سے جڑے افسانے اور اُن کی حقیقتانڈیا کا دیہات جہاں لوگ ڈائنوسار کے انڈوں کو دیوتا سمجھ کر پوجا کرتے رہےدنیا کا سب سے بڑا زیر زمین ’انسانیت کا مندر‘ جس کی تعمیر 15 برس تک رازداری میں جاری رہیانڈیا کی مسحور کن دیومالائی رسم جس میں رقاص خود کو جلتے ہوئے کوئلوں میں جھونک دیتے ہیںBBCپشپندر کی رادھے ماں سے ملاقات ان کے خاندان میں ہونے والے ایک سانحے کے بعد ہوئیسرخ اور سنہرے رنگ کے کمرے میں اجتماع

لوگ رادھے ماں کے درشن کا شدت سے انتظار کرتے ہیں اور دہلی کے ایک گھر میں، میں بھی اس درشن کا حصہ بنی۔

ان کے عقیدت مندوں میں مشہور کاروباری شخصیات اور ایک انتہائی سینیئر پولیس افسر کی فیملی بھی شامل تھی جو خاص رادھے ماں کے درشن کے لیے آئے تھے۔

میں وہاں اپنی رپورٹ کے لیے بحیثیت صحافی موجود تھی لیکن مجھے کہا گیا کہ میں پہلے رادھے ماں کا آشیرواد لوں۔

پھر مجھے بتایا گیا کہ کیسے دعا مانگنی ہے اور خبردار بھی کیا گیا کہ اگر میں نے صحیح طرح سے دعا نہ مانگی تو میرے خاندان پر کوئی مصیبت آ سکتی ہے۔

رادھے ماں کے پسندیدہ رنگوں (سرخ اور سنہری) والے کمرے میں ان کی آنکھیں جیسے ہر چیز کا حکم دے رہی تھیں۔

ایک لمحے میں خوش تو دوسرے ہی لمحے میں غصہ۔۔۔ ان کا غصہ بظاہر ان کی ایک پیروکار میں منتقل ہو گیا اور اس کی حالت غیر ہو گئی۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی اور وہ عورت فرش پر گر گئی۔

لیکن کچھ ہی لمحے بعد رادھے ماں کے پیروکاروں نے اس خاتون کے لیے معافی کی درخواست کی تو بالی وڈ کا ایک معروف گانا چلایا گیا اور انھوں نے ناچنا شروع کر دیا۔ یہ ایک اشارہ تھا کہ رادھے ماں نے حکم دے دیا ہے۔ عقیدت مندوں کی قطار پھر سے چلنے لگی۔

BBCرادھے ماں کے پسندیدہ رنگوں والے کمرے میں ان کی آنکھیں جیسے حکم دے رہی تھیںرادھے ماں ’انسان کے روپ میں دیوی‘

رادھے ماں کا تعلق انڈیا کی شمالی ریاست پنجاب سے ہے۔ ان کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں ہوئی اور ان کا نام سکھویندر کور رکھا گیا۔

رادھے ماں کا دعویٰ ہے کہ ایک گرو کی جانب سے ایک منتر دیے جانے کے بعد انھوں نے کرشماتی طاقتیں حاصل کیں۔

رادھے ماں کی بہن رجیندر کور کہتی ہیں کہ ’جیسے بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ پائلٹ بنیں گے یا پھر ڈاکٹر، رادھے ماں جی ہمیشہ یہ سوال کیا کرتی تھیں کہ وہ کون ہیں؟ تو ہمارے والد انھیں ایک گرو کے پاس لے گئے، جنھوں نے بتایا کہ یہ انسان کے روپ میں دیوی ہیں۔‘

رجیندر کور، رادھے ماں کے نام پر بنے ایک مندر کا انتظام سنبھالتی ہیں، جسے رادھے ماں کے شوہر موہن سنگھ نے بیرون ملک کام کرنے کے بعد اپنی جمع پونجی سے بنایا تھا۔

رجیندر نے بتایا کہ ’ہم رادھے ماں کو ڈیڈی کہتے ہیں۔ وہ ہماری ماں اور باپ دونوں ہیں۔‘

رادھے ماں جب 20 برس کی تھیں اور ان کے شوہر بیرون ملک کام کیا کرتے تھے تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنی بہن کے پاس چھوڑا اور عقیدت مندوں کے گھروں میں رہنا شروع کر دیا۔ یہ عقیدت مند زیادہ تر کاروباری شخصیات تھیں۔

وہ ایک شہر سے دوسرے شہر جاتی رہیں یہاں تک کہ وہ انڈیا کے صنعتی شہر ممبئی پہنچ گئیں۔ یہاں انھوں نے ایک بزنس مین کے گھر میں دس برس سے زیادہ کا عرصہ گزارا اور پھر اپنے خاندان کی جانب واپس لوٹ گئیں۔

وہ عقیدت مند، جن کے گھروں پر رادھے ماں نے برسوں گزارے، دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہی وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

وہ ایک ایسی عجیب سی دنیا میں رہتی ہیں، جہاں روحانیت، دنیاوی املاک اور رشتوں کے جال ساتھ ساتھ موجود رہتے ہے۔

رادھے ماں اب ایک بڑے بنگلے میں رہتی ہیں جو ان کے دونوں بیٹوں نے بنوایا۔ ان کے بیٹے کامیاب کاروباری شخصیات ہیں، جن کی کاروباری خاندانوں میں شادیاں ہوئیں۔

لیکن رادھے ماں کی اپنی منزل گھر کے باقی حصے سے الگ ہے، وہ یہاں سے صرف اپنے پیروکاروں کے لیے اجتماع میں شرکت کرنے یا کسی دوسرے شہر میں اپنے درشن کے لیے نکلتی ہیں۔

BBCرجیندر کور، رادھے ماں کے نام پر بنے ایک مندر کا انتظام سنبھالتی ہیں

رادھے ماں کی بہو میگھا سنگھ کہتی ہیں کہ ’پہلی بات یہ کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتیں۔ ہم ان کی پناہ میں خوش ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ہمیں فیملی کی طرح نہیں بلکہ عقیدت مندوں کے طور پر دیکھتی ہیں۔‘

رادھے ماں کو ملنے والے عطیات کی دیکھ بھال ان کا خاندان اور ان کے کچھ انتہائی قریبی عقیدت مند کرتے ہیں۔

میگھا کہتی ہیں کہ ’یہ عطیات اس سوسائٹی کو دیے جاتے ہیں جو ان کے عقیدت مند چلاتے ہیں۔ پھر ضرورت مند لوگوں کی درخواست پر فیصلہ کر کے یہ پیسے اور تحائف ان میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ رادھے ماں کو ان مادی چیزوں میں دلچسپی نہیں۔‘

تاہم رادھے ماں کو کپڑوں اور زیورات کا شوق ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اچھے کپڑے پہننے اور سرخ لپ سٹک کا شوق ہے، جیسے ہر شادی شدہ خاتون کو ہونا چاہیے۔ ویسے مجھے میک اپ کا شوق نہیں‘ لیکن اس کے باوجود وہ بہت زیادہ میک اپ کرتی ہیں۔

میگھا سنگھ کہتی ہیں کہ ’آپ ہمیشہ اپنی پسندیدہ شخصیت کے لیے بہترین کپڑے لائیں گے تو پھر دیوی کے لیے کیوں نہیں۔ ہمارے پاس ان کا ہونا اور ان کی خدمت کرنا برکت کی بات ہے۔‘

سنہ 2020 میں رادھے ماں اپنا ٹریڈ مارک سرخ رنگ کا گاؤن پہنے اور ہاتھ میں سنہری چھڑی پکڑے ریئلٹی ٹی وی شو بگ برادر کے انڈین ورژن کے شرکا کو آشیرواد دینے کے لیے پہنچیں۔

ان کا موجودہ حلیہ اس سادہ سی جوان عورت سے بہت مختلف ہے، جو میں نے ان تصاویر میں دیکھا جو مجھے میرے دورہ پنجاب کے دوران عقیدت مندوں نے دکھائی تھیں۔

ایک عقیدت مند سنتوش کماری نے اپنے گھر کے مندر میں رادھے ماں کی تصاویر لگائی ہوئی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کا یقین اس وقت مضبوط ہوا، جب ان کے شوہر دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہسپتال میں تھے اور پھر وہ صحت یاب ہو گئے۔

سنتوش کماری نے مجھے بتایا کہ ’ان (رادھے ماں) کے منہ سے خون آیا۔ انھوں نے سندور کی طرح وہ خون مجھے لگایا اور کہا کہ کچھ برا نہیں ہوگا اور تمہارا شوہر ٹھیک ہو جائے گا۔‘

مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ بہت سے عقیدت مندوں نے رادھے ماں کی زبان خون آلود ہونے کی بات کی، جس کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ ایسا کرشماتی طاقتوں کے نتیجے میں ہوتا ہے۔

سنتوش کماری ان 500 خواتین (زیادہ تر بیوہ) میں سے ایک ہیں، جنھیں شری رادھے ماں سوسائٹی سے ماہانہ ایک یا دو ہزار روپے پینشن ملتی ہے۔

اس پینشن سے مستفید ہونے والے دیگر افراد نے بھی بہت احتیاط سے معجزات کی کہانیاں سنائیں۔

BBCکچھ عقیدت مندوں نے اپنے گھروں میں رادھے ماں کی تصاویر بھی لگا رکھی ہیںخوف

ایک عقیدت مند سرجیت کور کہتی ہیں کہ ’ہم رادھے ماں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس سے ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر میں ان کے لیے دیا نہیں جلاؤں گی تو کچھ برا ہو گا۔ میں بیمار پو جاؤں گی۔‘

رادھے ماں کی کرشماتی طاقتوں پر یقین رکھنے والی سرجیت کور ہر روز ان کے نام کا دیا جلاتی ہیں۔

پروفیسر مانو اس عمل کو ایک عقیدت مند کے اپنے دیوتا کے آشیرواد سے محروم ہونے کے خوف سے منسوب کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ پیشگوئیاں صحیح ثابت ہوں گی اور دیوتا کو اس کا کریڈٹ دیا جائے گا لیکن جو پیشگوئیاں درست ثابت نہیں ہوتیں ان کا الزام دیوتا پر نہیں لگایا جاتا۔ عیقدت مند اس کا الزام اپنے آپ، اپنے یقین، عبادت کی کمی یا یہاں تک کے بدقمستی پر لگاتے ہیں۔‘

رادھے ماں کے عوامی اجتماعات پر مجھے بہت کم لوگ ہی ایسے ملے جو ان کی کرشماتی طاقتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

ایک شخص نے کہا کہ یہ سب ’فرضی کہانیاں‘ ہیں۔ ایک شخص نے رادھے ماں کے میک اپ اور شاہانہ کپڑوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیزیں کسی کو دیوی نہیں بنا دیتیں اور کہا کہ انھوں نے کبھی کوئی معجزہ ہوتے نہیں دیکھا۔

لیکن پھر بھی یہ لوگ رادھے ماں کے اجتماعات میں آتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ تفریح ہے اور ریئلٹی ٹی وی شو پر رادھے ماں کو دیکھنے کے بعد وہ انھیں حقیقی زندگی میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

اپنی تحقیق کے دوران میں رادھے ماں کے کچھ سابق پیروکاروں سے بھی ملی جن کے مطابق ان کی پیشگوئیاں درست ثابت نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان لوگوں نے الزام عائد کیا کہ ان پیشگوئیوں سے انھیں نقصان پہنچا۔

یہ لوگ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

ان سب چیزوں نے رادھے ماں کے عقیدت مندوں اور ان کے یقین کے بارے میں میرے تجسس کو بڑھا دیا۔

BBCرادھے ماں ایک بڑے بنگلے میں رہتی ہیں جو ان کے دونوں بیٹوں نے بنوایاتوہم پرستی یا یقین

ایک شام مجھے یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی جب رادھے ماں نے اپنے قریبی عقیدت مندوں کو جانوروں کی آوازیں نکالنے کا کہا اور انھوں نے اس حکم کی تعمیل کی۔

رادھے ماں نے انھیں کتوں اور بندروں جیسی حرکتیں کرنے کا کہا اور عقیدت مند بھونکنے اور چیخنے لگے۔

میں نے کبھی پہلے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔

میں نے رادھے ماں کی بہو سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بالکل حیران نہیں ہوئیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ رادھے ماں 30 برس سے زیادہ اپنے کمرے تک محدود رہی ہیں۔

’تو ان کے پاس تفریح کا صرف ایک یہ ہی ذریعہ ہے۔ ہم کوئی لطیفہ سنا کر یا اس طرح کی حرکتیں کر کے انھیں صرف ہنسانا چاہتے ہیں۔‘

اس سے مجھے وہ وارننگ یاد آئی، جو مجھے بار بار دی گئی تھی کہ عقیدت مندوں کو مکمل یقین کرنا ہو گا۔

جیسے جب میں نے پشپندر سنگھ سے پوچھا کہ رادھے ماں اپنے پیروکاروں سے کیا پوچھتی ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ ’کچھ نہیں۔ وہ بس یہ کہتی ہیں کہ آپ جب میرے پاس آئیں تو پورے یقین کے ساتھ آئیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اس سوچ کے ساتھ آتے ہیں تو، معجزے ہوتے ہیں اور اگر آپ انھیں آزمانے جاتے ہیں تو پھر آپ عقیدت مندوں کا حصہ نہیں۔‘

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کا عقیدہ انسانی فہم و فراست سے بڑھ کر ہے۔

پروفیسر مانو کہتے ہیں کہ بغیر سوال کیے ایسی عقیدت ہی توہم پرستی کی بیناد رکھتی ہے۔ ’ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اپنے گرو پر پختہ یقین رکھ کر ہی حکمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو کوئی اس پر شک کرے گا یا اسے آزمانے کی کوشش کرے گا وہ نعمتوں سے محروم ہو جائے گا۔‘

توہم پرستی یا یقین، رادھے ماں کا ماننا ہے کہ ان کے پیروکار ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں اگر کوئی انھیں دھوکہ باز کہتا ہے۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بھگوان مجھے دیکھ رہا ہے اور میرا خیال رکھ رہا ہے۔‘

انڈیا کا دیہات جہاں لوگ ڈائنوسار کے انڈوں کو دیوتا سمجھ کر پوجا کرتے رہےدنیا کا سب سے بڑا زیر زمین ’انسانیت کا مندر‘ جس کی تعمیر 15 برس تک رازداری میں جاری رہیانڈیا کی مسحور کن دیومالائی رسم جس میں رقاص خود کو جلتے ہوئے کوئلوں میں جھونک دیتے ہیںانڈین نوجوان دنیاوی سرگرمیاں کیوں ترک کر رہے ہیں؟وہ مذہبی عقیدت مند جو ’روزہ‘ رکھ کر موت کو گلے لگاتے ہیں ہیروں کے تاجر کی بیٹی جس نے اربوں کے کاروبار کی ملکیت ٹھکرا کر راہبہ بننے کا فیصلہ کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More