’صرف سگریٹ نوشی پر شرمندہ‘ پیر پگارا ششم جنھیں انگریزوں نے بغاوت کے الزام میں پھانسی دے کر تدفین کا مقام خفیہ رکھا

بی بی سی اردو  |  Mar 20, 2025

20 مارچ 1943 کی علی الصبح، کال کوٹھڑی کا آہنی دروازہ کُھلنے پر حیدر آباد جیل کا سناٹا ٹوٹا۔ کسی گھبراہٹ کے بغیر ’انتہائی سکون اور وقار‘ کے ساتھ اس کوٹھڑی سے نکل کر ایک 33 سالہ قیدیپھانسی گھاٹ کی جانب بڑھا۔

یہ کوئی عام قیدی نہیں تھے بلکہ سندھ کے حُروں کے رہنما صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی، المعروف پیر پگارا تھے جن کی ایک آواز پر آزادی کے متوالے لبیک کہتے تھے۔

پھانسی کے تختے پر قدم رکھتے ہوئے اُن سے منسوب آخری الفاظ یہ تھے ’میں صرف ایک گناہ پر شرمندہ ہوں، اور وہ ہے حد سے زیادہ سگریٹ نوشی۔‘

برطانوی سندھ کے گورنر سر ہیو ڈاؤ نے بعد میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لنلتھگو کو لکھا کہ ’یہ حیرت انگیز تھا کہ اپنی موت کے لمحے میں بھی پیر نہایت وقار اور سکون سے کھڑے رہے۔‘

اور پھر ٹھیک آٹھ بجے جلاد کے ہاتھوں کی جنبش کے ساتھ، ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔

اگلے روز سہ پہر کو جاری ہونے والے سرکاری اعلان نامے کے مطابقپیر پگارا کا جرم ’بادشاہ کے خلاف جنگ کی سازش اور اس میں مدد فراہم کرنا‘ تھا۔

مگر صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی کا ’جرم‘ تھا کیا اور انھیں کن الزامات کے تحت پھانسی دی گئی تھی، یہ جاننے سے قبل اُن کی شخصیت اور خاندان کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

پگارا کے معانی کیا ہیں؟

الطاف احمد خان مجاہد کی تحقیقسے پتا چلتا ہے کہ محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ آئے سید علی مکی کی نسل سے تعلق رکھنے والے سید محمد راشد کی وفات پر خاندانی تبرکات تقسیم ہوئے۔ ایک بیٹے سید صبغت اللہ شاہ اول کو وہ دستار وراثت میں ملی جس کی نسبت پیغمبر اسلام سے کی جاتی ہے اور دوسرے بیٹے محمد یٰسین شاہ کو ملا عَلَم (یعنی پرچم یا جھنڈا)۔

خاندانی تبرکات میں ملنے والی دستار (یعنی پگ) کی وجہ سے صبغت اللہ شاہ اول، پہلے پیر پگارا یعنی پگ والے پیر کہلائے۔ پاگارو، پگاڑو اور پگاڑا اسی لقب کی مختلف شکلیں ہیں اور سب ہی رائج ہیں۔ اُن کا صوفی سلسلہ قادریہ راشدیہ ہے۔

دوسرے بیٹے جنھیں عَلَم ملا تھا انھیں جھنڈے وارو (یعنی جھنڈے والے) کہا گیا۔ یہ نقشبندیہ راشدیہ سلسلے سے ہیں۔

انگریزوں کے خلاف مزاحمت

یہ دوسرے پیر پگارا (علی گوہر شاہ اول) کا دور تھا جب سنہ 1843 میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا۔

نفیسہ شاہ اور حسن مجتبیٰ کی تحقیق ہے کہ پیر پگارا کے پیروکار خیرپور اور بہاولپور سے لے کر جیسلمیر، کچ، بھُوج، گجرات اور رحیم یار خان و تھرپارکر کے ریگستانوں تک کے علاقے میں ہیں۔

پگارا مریدین اپنی منظم برادری کو ’جمعیت‘ کہتے ہیں اور اس جمعیت کے انتظامی اُمور خُلفا کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق ’پگارا کے مرید دو طرح کے ہیں: سالم اور فرقی۔ سالم عام لوگ ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے درگاہ کی زیارت کرتے ہیں، پیر کی پیروی کرتے ہیں اور اُن کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ جبکہ فرقی پکے اور جاں نثار مرید ہوتے ہیں اور ان ہی میں سے 19ویں صدی کے وسط میں ایک انقلابی گروہ ’حُر‘ وجود میں آیا۔‘

تاریخ دان ذوالفقار علی کلہوڑو کے مطابق تیسرے پیر پگارا، حزب اللہ شاہ راشدی نے سنہ 1880 میں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی جس کے بعد حُر تحریک ایک مضبوط قوت بن گئی، خاص طور پر چوتھے پیر پگارا (علی گوہر شاہ ثانی)، پانچویں پیر پگارا (شاہ مردان شاہ اول) اور چھٹے پیر پگارا (صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی) کی قیادت میں۔

جے سی کری، کری پیپرز میں لکھتے ہیں کہ حُروں کی کارروائیوں کے باعث سنہ 1890 تک سندھ کا پورا دیہی علاقہ دہشت زدہ ہو چکا تھا اور زمیندار بغیر مسلح محافظوں کے باہر نکلنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔

’گرفتار ی کی کوشش کرنے والے پولیس اہلکاروں، زمینداروں اور اُن افراد کو قتل کرنا شروع کر دیا گیا جو پولیس کی مدد کرتے تھے۔‘

جے سی کری کے مطابق حُر رہنما بچو بادشاہ اور پیرُو وزیر نے پولیس اور مقامی اشرافیہ کی کُھلم کُھلا مخالفت کی اور پوری حُر برادری پر گہرا اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔

سنہ 1895 تک حُر تحریک کو زبردست قوت مل چکی تھی، پولیس مایوسی کا شکار ہو چکی تھی اوربرطانوی حکومت کے وفادار زمیندار خوفزدہ ہو چکے تھے۔

پاکستان کے سیاہ فام شہری: شیدی برادری کی تاریخی داستانغلام شاہ کلہوڑو: ’سندھ کے شاہجہاں‘ کہے جانے والے حکمران جو ’مچھلی والے بابا‘ بن گئےبنبھور: قدیم شہر ’دیبل‘ اور سرزمین پاکستان کی پہلی مسجد کے آثارکراچی میں جولائی 1972 کے لسانی فسادات: اردو، سندھی اور سندھ، زبان کے تنازع کی تاریخ

آفتاب نبی اپنی کتاب ’پولیسنگ انسرجینسی: حرز آف سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اپریل 1896 میں پیرُو وزیر نے حکام کو ایک چیلنج آمیز پیغام بھیجا کہ وہ ’ماکھی ڈھنڈ‘ نامی جنگل میں موجود ہیں۔‘

’اس مقام کو فوج اور پولیس نے گھیر لیا اور لڑائی میں پیرُو وزیر اور اُن کے دو ساتھی مارے گئے۔ پولیس نے 22 میل تک مزاحمت کاروں کا تعاقب کیا جس کے نتیجے میں دو حر قتل کر دیے گئے جبکہ تیسرے کو گرفتار کر کے عدالتی سماعت کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ اس واقعے سے حُر تحریک کو شدید نقصان پہنچا۔‘

دوسری جانب بچو بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے۔

تاہم، ایڈورڈ کاکس کی کتاب ’پولیس اینڈ کرائم ان انڈیا‘ کے مطابق انھیں اور ان کے 150 ساتھیوں کو سانگھڑ کے قریب پھانسی کے بعد ’عوامی سڑک کے نیچے دفن کر دیا گیا تاکہ ان کے حامی وہاں کوئی مزار یا درگاہ نہ بنا سکیں، جو کہ باقی ماندہ حُروں کے لیے ایک مرکز بن سکتی تھی۔‘

آفتاب نبی سرکاری دستاویزات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بہت سے افراد کو گرفتار کیا گیا اور سزا کے طور پر پولیس کو حر دیہات میں تعینات کیا گیا اور تعیناتی کے اخراجات گاؤں والوں سے وصول کیے گئے۔

’حیدرآباد ضلع کے مکینوں پر ایک موقع پر ڈھائی لاکھ روپے کا زبردست جرمانہ عائد کیا گیا، جو اس وقت کے حساب سے ایک خطیر رقم تھی۔ اس کے علاوہ ایک حر زمیندار کو اپنی اراضی کے محصول کے برابر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔‘

’حُر رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئیں، اُن کے حامیوں کی فہرستیں تیار کی گئیں، اسلحہ رکھنے کے لائسنس اور آرمز ایکٹ سے دی گئی چھوٹ واپس لے لی گئی اور ان کی زمینیں ضبط کر لی گئیں۔ اعلان کیا گیا کہ جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا، نہری پانی کی فراہمی معطل رہے گی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’آخرکار ماکھی ڈھنڈ کو حروں کے تمام ٹھکانوں سے پاک کر دیا گیا۔ وہاں پر سزا کے طور پر پولیس چوکی قائم کی گئی اور تین انفنٹری کمپنیاں اور ایک کیولری سکواڈرن تعینات کر دی گئی۔‘

’اسی طرح حُر برادری کو کمزور کرنے کے لیے دیگر علاقوں سے غیر حُر، بگٹی اور مریقبائل کو لا کر یہاں بسایا گیا۔ وفادار افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں تلواریں، پگڑیاں اور زمینیں دی گئیں۔‘

مجرم قبیلہ

اس کے بعد بھی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور بلآخر سنہ 1900 میں برطانوی سرکار کی جانب سے حُر برادری کو ’مجرم قبیلہ‘ قرار دے دیا گیا۔

آفتاب نبی لکھتے ہیں کہ حروں کے اہم دیہاتوں کو سرکاری سطح پر ’مجرموں کی بستیاں‘ قرار دیا گیا اور یہاں بسنے والوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دی گئیں اور ان کی نگرانی کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی۔

رہائشیوں سے روزانہ دو بار حاضری لی جاتی تھی تاکہ ’بُرے کردار‘ کے حامل افراد حُر برادری سے رابطہ نہ کر سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ حُر افراد کو مخصوص بستیوں میں زبردستی منتقل کر دیا گیا جہاں سے وہ پاس کے بغیر باہر آ جا نہیں سکتے تھے۔ اس ایکٹ کو لاگو کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تقریباً پانچ ہزار بالغ حُر افراد کو براہِ راست حکومتی نگرانی میں لایا جائے۔

’دی انڈین جیلز‘ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ’سب سے زیادہ خطرناک حُر باغیوں کو بمبئی (ممبئی) پریذیڈنسی کے وِساپور سپیشل سیٹلمنٹ میں بھیج دیا گیا۔‘

’یہ بستی محکمۂ جیل کے زیر انتظام تھی اور اس کا سنہ 1911 کے بمبئی ایکٹ کے تحت بنائی گئی دوسری عام بستوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

سورھیا بادشاہ

تھوڑے بہت سکون کے عرصے کے بعد سنہ 1921 میں 12 سالہ پیر صبغت اللہ پیر پگارا بنے۔

آفتاب نبی لکھتے ہیں کہ اُن کے اور برطانوی حکام کے تعلقات جلد ہی خراب ہو گئے اور سنہ 1930 میں 21 سالہ پیر صبغت اللہ کو غیر قانونی ہتھیار رکھنے، اغوا، اور قتل کے الزامات کے تحت آٹھ سال قید کی سُنا دی گئی۔ ان کے وکیل بانی پاکستان محمد علی جناح تھے جنھوں نے سزا کی سختی پر شدید تنقید کی۔

وہ پہلے مقدمے میں ان کے وکیل تھے جس میں پگارا کو قید کی سزا ہوئی تھی۔ آفتاب نبی کے مطابق جناح نے کہا تھا کہ اگر انصاف کی یہ صورت حال ہے تو سندھ رہنے کے قابل جگہ نہیں۔

پیر صبغت اللہ کو بنگال کی جیلوں میںرکھا گیا جہاں وہ قوم پرست عناصر سے متاثر ہوئے۔

سنہ 1934 میں رہا ہونے کے بعد پیر پگارا صبغت اللہ نے اپنی فوج بنائی اور پولیس کے بجائے مقامی عدالتوں کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ہدایت دے دی۔

الطاف مجاہد کے مطابق پیر پگارا حُر جنگجوؤں کو انٹرویو کے بعد ’غازی‘ کا لقب دیتے جن کے لیے تمباکو نوشی اور ولایتی کپڑے پہننے کی ممانعت تھی۔ حُر جنگجوؤں سے حلف لینے کے بعد زندگی ہی میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی جاتی کیونکہ موت یا سرفروشی کی تمنا لازم تھی۔

الطاف مجاہد کے مطابق حُر تحریککے دوران سینکڑوں حُروں کو قید و بند اور پھانسی کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ۔

’انھیں جنگلی کانٹوں کی باڑھ میں بنے کھلے قید خانوں میں اس طرح بند رکھا گیا کہ اہل خانہ اندر پہرہ میں رہتے اور یہ دن بھر شہر دیہات میں مشقت کرکے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے اور رات کو ان کیمپوں میں واپس آتے، کہیں فرار بھی نہ ہو سکتے تھے کہ بیوی بچے، ماں اور بہنیں اندر یرغمال تھیں۔‘

آفتاب نبی لکھتے ہیں کہ پیرپگارا نے حکومت سے کریمنل ٹرائبز ایکٹ کے خاتمے اورحُر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ’ابتدا میں حُروں نے پرامن احتجاج کیا لیکن بعد میں برطانوی راج کے خلافپیرپگارا کی تقاریر زیادہ جارحانہ ہو گئیں۔‘

’پیر پگارا نے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا، جسے وہ جہاد قرار دیتے تھے۔ حُروں نے سرکاری ملازمین اور مخبروں کو نشانہ بنایا۔‘

’سنہ 1942 میں انھوں نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور ایک ٹرین کو پٹری سے اُتارنے کی کوشش کی۔ حُر کارروائیوں میں درجنوں لوگ مارے گئے، سرکاری عمارتیں تباہ ہوئیں اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچا۔‘

خواتین کی بھرپور شرکت

حُر تحریک میں خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔

الطاف مجاہد لکھتے ہیں کہ خواتین مردوں کی طرح انگریزوں کے سر کا درد بن چکی تھیں۔ سائیں عمر چنڈ کی تصنیف میں ایسی ہی ایک خاتون مائی رانی ٹھکر کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو مختلف بھیس بدل کر گوریلا جنگ لڑنے والے حُروں کو ہتھیار پہنچایا کرتی تھیں۔

ﷲ بچایو راہو کڑو کے مضمون اور عثمان راہو کڑو کی تصنیف ’سونے جیسی خواتین‘ میں ایسی لاتعداد خواتین کا ذکر ہے۔

برصغیر کا پہلا انتظامی مارشل لا

الطاف مجاہد لکھتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں پہلا انتظامی مارشل لا سندھ کے علاقے سانگھڑ میں حُر تحریک کچلنے کے لیے لگایا گیا جس کی منظوری سندھ اسمبلی کے خفیہ اجلاس میں سندھ کے وڈیروں نے دی تھی اور حُر ایکٹ کے نفاذ کے بعد حُروں کو قیدوبند کے عمل سے گزرنا پڑا تھا۔

آفتاب نبی کے مطابق برطانوی حکومت نے سخت جوابی کارروائی کی۔ ’سخت گیر قوانین متعارف کروائے گئے اور حُروں کی مدد کرنے پر سخت سزائیں دی گئیں۔ سینکڑوں حُروں کو گرفتار کیا گیا، ان کے دیہات نذرِ آتش کر دیے گئے اور فضائی بمباری سے ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔ عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور جیلوں میں سخت سزائیں دی گئیں۔‘

برطانوی حکومت نے ’حُر ایکٹ‘ پاس کیا جس کے تحت حروں کو پناہ، کھانا یا پانی دینا جرم قرار دیا گیا۔

پیر صبغت اللہ شاہ کی گرفتاری اور مقدمہ

آفتاب نبی لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت پیر پگاراکو ہر حال میں پکڑنا اور سزائے موت دینا چاہتی تھی چنانچہ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

مارشل لا ریگولیشن 52 متعارف کروایا گیا تاکہ مقدمہ ماضی کے جرائم پر بھی لاگو کیا جا سکے۔

’انھیں 29 جنوری 1943 کو مقدمے کی اطلاع دی گئی اور وکیل کرنے کا وقت نہیں دیا گیا۔ ان کے بینک اکاؤنٹ اور جائیداد ضبط کر لی گئی۔ ان کے خاندان کی خواتین کے زیورات تک ضبط کر لیے گئے تاکہ انھیں معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے۔‘

’عدالتی قواعد تبدیل کر دیے گئے اور وکیل دفاع کو وہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں جن تک انھیں قانونی حق حاصل تھا۔ پیر پگارا کو صرف وہی سوالات پوچھنے کی اجازت تھی جو حکام نے منظور کیے ہوں۔ عدالتی کارروائی کے دوران پیر پگارا اور استغاثہ کے گواہوں کے درمیان ایک پردہ لٹکا دیا گیا۔‘

آفتاب نبی کے مطابق ’دفاع کے گواہوں پر تشدد کیا گیا جبکہ استغاثہ کے گواہ یا تو سرکاری ملازمین تھے یا پھرپیرپگارا کے مخالفین۔‘

مقدمہ شروع ہونے کے 26 دن بعد انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ جیل میں ایک برطانوی افسر نے انھیں دیکھا اور بعدازاں لکھا کہ دورانِ قید پیر پگارا انھیں ’پنجرے میں قید شیر کی مانند لگے، مضبوط، بے خوف، مگر ایک طوفان کو اپنے اندر دبائے ہوئے۔‘

آفتاب نبی لکھتے ہیں کہ 18 مارچ کی شام ایک برطانوی افسر ینگ نے پیرپگارا سے ان کی کوٹھری میں ملاقات کی اور انھیں اطلاع دی کہ ان کی سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی گئی ہیں۔

تدفین کہاں ہوئی؟

آفتاب نبی لکھتے ہیں کہ پیر پگارا نے حکام سے اپنی تدفین کے مقام کے بارے میں دریافت کیا اور خواہش ظاہر کی کہ انھیں درگاہ میں پیر خاندان کے مقبرے میں دفن کیا جائے۔

لیکن حکام کی جانب سے پیر پگارا کی تدفین کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔

’چند اعلیٰ حکام کے علاوہ کسی کو بھی لاش کے انجام یا قبر کی جگہ کے بارے میں علم نہیں تھا۔ انڈین سول سروس کے افسر سورلے نے اپنی یادداشتوں میں ذکر کیا کہ پیر پگارا کو کراچی اور حب کے قریب ’چرنا‘ جزیرے پر دفن کیا گیا، لیکن بعدازاں یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی۔

سالہا سال تک یہ عام عقیدہ رہا کہ پیر صاحب کی لاش سمندر میں پھینک دی گئی۔ آخرکار اُن کی تدفین کا مقام ’آستولا‘ جزیرہ پتا چلا جو ریاست قلات کے حدود میں تھا۔

تدفین کے اس مقام کی حقیقت وائسرائے کے خفیہ ٹیلی گرامز اور لیفٹیننٹ جنرل مولس ورتھ کی کتاب ’کرفیو آن اولمپکس‘ میں موجود شواہد سے تصدیق شدہ ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل مولس ورتھتب جنرل ہیڈکوارٹر میں شمال مغربی کمانڈ کی نگرانی کر رہے تھے اور اُن کے زیرِ نگرانی علاقے میں سندھ بھی شامل تھا۔

لیکن حسن مجتبیٰ لکھتے ہیں کہ ’حُر سمجھتے ہیں کہ ان کے سورھیا بادشاہ (بہادر بادشاہ) پھانسی پانے کے بعد آسمان میں غائب ہو گئے تھے۔‘

’آٹھ بیٹیاں جوان ہیں لیکن اُن کا نکاح نہیں کر سکتے کیونکہ ہاتھ بند ہے‘’کتے کی قبر‘: سندھ کا قومی ورثہ جہاں پہاڑ آسمان سے باتیں کرتا ہےدس رمضان: یوم باب الاسلام اور محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے نقطۂ آغاز کی کہانیاڈیرو لال: سندھ کے وہ بزرگ جنھیں مسلمان اور ہندو دونوں اپنا ’مرشد‘ مانتے ہیںمحمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟بنبھور: قدیم شہر ’دیبل‘ اور سرزمین پاکستان کی پہلی مسجد کے آثار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More