جمعرات کی رات اسلام آباد ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی پرواز اتری تو اس میں عام مسافروں کے ساتھ تقریباً 70 پاکستانی ایسے بھی تھے جو شکست و شرمندگی کے احساس کے ساتھ واپس لوٹے تھے۔
ان میں سے کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے، کچھ کے چہروں پر شدید تھکن اور بے بسی نمایاں تھی، اور کچھ ایسے تھے جو کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ جب یہ تمام افراد پی آئی اے کی پرواز میں سوار ہوئے تو کئی عام مسافروں کے لیے یہ ایک عجیب منظر تھا۔
میاں عتیق، جو کاروباری دورے پر ملائیشیا گئے تھے، کہتے ہیں: ’جہاز میں جب میں نے ان میں سے کچھ لوگوں سے بات کی تو ہر کہانی ایک دوسرے سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ کوئی قرض لے کر گیا تھا، کسی کو ایجنٹوں نے دھوکہ دیا تھا، کسی کو اپنے ہی ہم وطنوں کی حرکتوں کی سزا ملی تھی۔‘
یہ سب وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی خواب کے ساتھ ملائیشیا گئے تھے۔ ان کو امید تھی کہ وہ وہاں جا کر کمائیں گے، اپنے گھر والوں کو اچھی زندگی دیں گے، لیکن حقیقت اس امید سے کہیں زیادہ تلخ نکلی۔
کچھ لوگوں کے ویزے ختم ہو گئے اور وہ واپس نہ آ سکے، کچھ روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طور پر کام کرتے رہے، کچھ کو ایجنٹوں نے دھوکہ دیا، اور کچھ ایسے بھی تھے جو خود تو قانون پر چل رہے تھے، لیکن دوسرے پاکستانیوں کی حرکتوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو گئے۔
رحمت علی کا تعلق خیبرپختونخوا کے ایک گاؤں سے ہے۔ وہ دو سال پہلے سیاحتی ویزے پر ملائیشیا پہنچے، لیکن کام کی تلاش میں نکل پڑے۔ ایک ورکشاپ میں مزدوری مل گئی، مگر یہ غیر قانونی تھا۔ کئی ماہ تک وہ چھپ کر کام کرتے رہے، مگر ایک دن پولیس نے چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر لیا۔
’میں جانتا تھا کہ میں غلط کر رہا ہوں، مگر میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ واپس آتا تو گھر والے کیا کہتے؟ میں نے سب کچھ بیچ کر یہ سفر کیا تھا، مگر اب دیکھو، خالی ہاتھ آ رہا ہوں۔‘
پانچ سال میں 18 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ملائیشیا سے ڈی پورٹ کیا گیا۔ فوٹو: اے ایس ایف
حسن زیدی کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ چکوال کے رہائشی ہیں اور دو سال پہلے ایک ہوٹل میں قانونی طور پر ملازمت کے لیے گئے تھے۔ ان کا ورک ویزا تھا، سب دستاویزات مکمل تھیں، اور وہ ہر سال اپنے ویزے کی تجدید بھی کرواتے تھے۔ مگر جب کچھ پاکستانیوں کو بھیک مانگنے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو ملائیشین حکام نے کئی پاکستانیوں کو بغیر کسی تحقیق کے حراست میں لے لیا اور حسن بھی ان میں شامل تھے۔
’میں نے اپنی فائل بھی دکھائی کہ میرے کاغذات درست ہیں مگر وہ کہنے لگے کہ پاکستانی زیادہ مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ میں صرف اس لیے نشانہ بنا کیونکہ میرے ملک کے کچھ لوگ وہاں غیر قانونی کام کر رہے تھے۔‘
ڈی پورٹ ہونے والوں نے بتایا کہ ملائیشیا میں رہنے والے غیر قانونی پاکستانی اکثر پولیس کے خوف میں جیتے ہیں۔ کئی لوگ وہاں سالوں سے موجود ہیں، کام کر رہے ہیں، لیکن جب اچانک کریک ڈاؤن شروع ہوتا ہے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
گرفتار ہونے والوں کو کوالالمپور ایئرپورٹ کے حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے، جہاں حالات بدترین ہوتے ہیں۔ ایک ہی کمرے میں درجنوں افراد کو ٹھونس دیا جاتا ہے، کھانے پینے کی سہولت معمولی اور ہر وقت یہ خوف کہ اگلا لمحہ کیا لے کر آئے گا۔ پھر ایک دن، ان کے ہاتھ میں واپسی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔
جب جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترا تو عام مسافروں کو تو عزت کے ساتھ اتار دیا گیا لیکن ان بے دخل ہونے والوں کو جہاز میں ہی بٹھائے رکھا۔ ایف آئی اے کے حکام ان کے کاغذات کی چھان بین کرنے لگے۔ بعض کو مزید تفتیش کے لیے روکا گیا، جبکہ کچھ کو صرف اس وقت جانے دیا گیا جب ان کے ٹکٹ کے پیسے ادا کر دیے گئے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ بیشتر لوگ سیر و تفریح کے ویزا پر جاتے ہیں اور پھر وہاں پر غیر قانونی طور پر کام کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب تو وہاں بھیک مانگنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جس کی بنیاد پر بہت سے پاکستانی ڈی پورٹ ہو کر آ رہے ہیں۔
ملائیشیا نے قانونی طور پر رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ڈی پورٹ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
حکام کے مطابق ایسے لوگوں کو ٹریول ایجنٹ جب یہاں سے روانہ کرتے ہیں تو ان کے پاس ریٹرن ٹکٹ موجود ہوتا ہے۔ لیکن وہاں پہنچنے کے فوراً بعد ٹریول ایجنٹ ان کا ریٹرن ٹکٹ ریفنڈ کروا لیتے ہیں۔ اس لیے وہ چاہ کر بھی وطن واپس نہیں آ سکتے۔
جب وہ اسلام آباد پہنچتے ہیں تو پی آئی اے ان کو اس وقت تک بٹھائے رکھتی ہے جب تک ان کو ٹکٹ کے پیسے نہیں ملتے۔ دوسری جانب ایف ائی اے بھی پوچھ گچھ کا عمل مکمل کرتی ہے تاکہ اگر ان میں سے کوئی کسی انسانی سمگلنگ کے مافیا کا شکار ہوا ہے تو اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔
خیال رہے کہ پچھلے چند سالوں میں ہزاروں پاکستانی ملائیشیا سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ 2014 سے 2019 کے درمیان 18,000 سے زائد پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ 2025 کے آغاز میں 16 پاکستانی واپس بھیجے گئے اور گزشتہ ماہ مزید دو افراد کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کر دیا گیا۔