’میری ماں میرے گہری رنگت والے بچوں سے کم جبکہ میری بہن کے گورے بچوں سے زیادہ پیار کرتی تھیں‘

بی بی سی اردو  |  Mar 24, 2025

BBCاپنے خاندان کے دباؤ میں آکر 32 برس کی خاتون نے اپنے چھ بچوں پر رنگ گورا کرنے والی کریمیں استعمال کی ہیں۔

شمالی نائجیریا میں ایک ماں اپنے دو برس کے بچے کا ہاتھ تھامے بظاہر پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کے اس بچے کے چہرے اور ٹانگوں کی جلد جل کر خراب ہو گئی ہے۔

اپنے خاندان کے دباؤ میں آکر 32 برس کی اس خاتون نے اپنے چھ بچوں پر رنگ گورا کرنے والی کریمیں استعمال کی ہیں۔

انھیں اپنے اس فیصلے پر اب سخت ندامت ہے۔

فاطمہ، فرضی نام، کا کہنا ہے کہ اب ان کی ایک بیٹی اپنی جلی ہوئی جلد کو چھپانے کے لیے جب بھی باہر نکلتی ہیں تو اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتی ہیں۔

دوسری بیٹی کی اب جلد پہلے سے زیادہ سیاہ ہو گئی ہے۔ ان کی آنکھوں کے اردگرد اب ایک گول سا پیلا دائرہ بن گیا ہے۔ جبکہ ان کی تیسری بیٹی کے ہونٹوں اور گھٹنوں پر سفید نشانات ہیں۔

ان کے ننھے بچے کی جلد پر ابھی بھی رسنے والے زخم ہیں اور اس کی جلد کو ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگ رہا ہے۔

فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’میری بہن کے بچوں کا رنگ قدرے گورا ہے جبکہ میرے بچے گہری رنگت والے ہیں۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ میری ماں رنگت کی وجہ سے میرے بچوں پر میری بہن کے بچوں کو ترجیح دیتی ہیں اور اس سے میرے جذبات مجروح ہوتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہی کانو شہر کی ایک سپر مارکیٹ سے رنگ گورا کرنے والی کریم خریدیں۔

BBCفاطمہ کا کہنا ہے کہ 'میری بہن کے بچوں کا رنگ قدرے سانولا ہے جبکہ میرے بچے گہری رنگت والے ہیں۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ میری ماں رنگت کی وجہ سے میرے بچوں پر میری بہن کے بچوں کو ترجیح دیتی ہیں اور اس سے میرے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔'

پہلے پہل تو یہ لگا کہ یہ کارگر نسخہ ہے۔ بچوں کی نانی اب فاطمہ کے بچوں کی طرف بھی گرمجوشی دکھانا شروع ہو گئیں، جن کی عمریں دو سے لے کر 16 برس تھیں۔

مگر تھوڑے عرصے بعد فاطمہ کے بچوں کی جلد جلنا شروع ہو گئی اور اس سے زخم بن گئے۔

جلد کو نکھارنے یا رنگ ہلکا کرنے والی کریم جو افریقہ میں بلیچنگ کے نام سے جانیجاتی ہیں کو دنیا کے مختلف علاقوں میں رنگت گورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق افریقہ کے کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں نائجیریا میں خواتین سب سے زیادہ رنگت گوری کرنے والی کریم استمال کرتی ہیں۔ یہاں 77 فیصد خواتین باقاعدگی سے یہ استعمال کرتی ہیں۔

کانگو میں خواتین کی 66 فیصد، سینیگال میں 50 فیصد اور گھانا میں 39 فیصد تعداد ان کریموں کا استعمال کرتی ہے۔

کریموں میں کورٹیکوسٹیرائڈز(سٹیرائیڈ ہارمونل) یا ہائڈروکینون دواشامل ہو سکتی ہے، جس کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

اور بہت سے ممالک میں یہ صرف ڈاکٹر کے مشورے پر ہی دیے جاتے ہیں۔

ان کریموں میں کچھ ایسے اجزا بھی کبھی کبھی استعمال ہوتے ہیں جن میں زہریلی دھات، پارا اور کوجک ایسڈ شامل ہیں۔

یہ اجزا جلد کی سوزش، مہاسے اور رنگت خراب ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس سے سوزش کی بیماری اور گردوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس سے جلد پتلی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں زخم بھرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور اس سے انفیکشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

’رنگ گورا کرنے والی کریم کے باعث والد مجھے پہچان ہی نہیں سکے‘تین ہفتے میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ اور 15 لاکھ روپے جرمانہ: ’شار رخ کا اشتہار دیکھ کر یہ کریم خریدنے پر مجبور ہوا‘گوری رنگت کا جنون: ’مائیں آ کر کہتی ہیں کہ بیٹی کا رشتہ آ رہا ہے، بس جلدی سے اس کا رنگ گورا کر دیں‘'میرے بچے کو گورا بنا دو'

یہ صورتحال اتنی خراب ہے کہ نائجیریا کی نیشنل ایجنسی فار فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے سنہ 2023 میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔

فاطمہ کی طرح یہ بہت سے خواتین میں اس طرح کی کریم کا استعمال بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔

بہت سے لوگ ہلکی جلد کو خوبصورتی یا دولت سے جوڑتے ہیں۔

دارالحکومت ابوجا میں ایک ڈرمیٹولوجی سپا کی مالک زینب بشیر یاؤ بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کی کریم کے استعمال سے خواتین اپنے بچوں کو اس امتیازی سلوک سے بچاتی ہیں جن کا انھیں معاشرے میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بچے کی پیدائش سے ہی اس طرح کی کریم کا استعمال شروع کر دیتی ہیں۔

ان کے اندازے کے مطابق جن خواتین سے وہ ملی ہے ان میں سے 80 فیصد نے اپنے بچوں کو بلیچ کیا ہے، یا ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ خواتین نے تو خود پر بھی ان کریموں کا استعمال کیا یعنی بچوں کی طرح اپنے آپ کو بھی ’بلیچ‘ کیا ہے۔

ہاتھ کی انگلیوں سے ہی انداز ہو جاتا ہے کہ آیا نائیجیریا میں کوئی جلد کو سفید کرنے والی مصنوعات استعمال کر رہا ہے یا نہیں۔

لوگوں کے ہاتھوں یا پیروں کے دوسرے حصے ہلکے ہو جاتے ہیں، لیکن ان کی ہاتھ کی انگلیاں سیاہ رہتی ہیں۔

تاہم تمباکو نوشی کرنے والوں اور منشیات استعمال کرنے والوں کے ہاتھوں پر بھی بعض اوقات دھوئیں کی وجہ سے سیاہ دھبے پڑ جاتے ہیں۔ لہذا جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے والوں کو بعض دفعہ غلطی سے اس گروپ کا حصہ تصور کر لیا جاتا ہے۔

BBCتمباکو نوشی کرنے والوں اور منشیات استعمال کرنے والوں کے ہاتھوں پر بھی بعض اوقات دھوئیں کی وجہ سے سیاہ دھبے پڑ جاتے ہیں۔ لہذا جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے والوں کو بعض دفعہ غلطی سے اس گروپ کا حصہ تصور کر لیا جاتا ہے۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ یہی ان کی دو بیٹیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ فاطمہ کی ایک بیٹی کی عمر 16 سال جبکہ دوسری کی عمر 14 سال ہے۔

’انھیں معاشرے میں تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ ان کی طرف انگلیاں اٹھاتے اور انھیں منشیات کا عادی کہتے، اس سے ان پر گہرا اثر پڑا ہے۔‘

ان دونوں کے رشتوں کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں کیونکہ مرد کسی ایسی خاتون سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے جن کے بارے میں انھیں شبہ ہو کہ وہ منشیات استعمال کرتی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کانو میں ایک مشہور مارکیٹ گئیں جہاں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جلد کی رنگت گورا کرنے والی کریمیں بناتے ہیں۔

اس مارکیٹ میں ایسی لاتعداد دکانیں ہیں جو اس طرح کی کریمیں فروخت کرتی ہیں۔

پہلے سے تیار شدہ کریمیں ان دکانوں کی شیلفوں پر رکھی ہوتی ہیں۔ تاہم اگر گاہک چاہے تو خود خام مال کا انتخاب کر کے اپنے سامنے کریم تیار کروا سکتے ہیں۔

ہم نے وہاں کئی ایسی بلیچ کریم دیکھیں جن پر لکھا تھا کہ یہ چھوٹے بچوں کے استعمال کے لیے ہے۔

کئی دکانداروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کریموں میں کوجک ایسڈ اور ہائیڈروکوئین جیسے ممنوعہ اجزا کے علاوہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈینٹ گلوٹاتھائیون بھی شامل ہے جو دانے اور دیگر مضر اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔

ہمیں وہاں نو عمر لڑکیاں بلیچنگ کریمیں خریدتی نظر آئیں۔ ان میں سے کئی لڑکیاں یہ کریمیں بڑی تعداد میں خرید کر آگے بھی فروخت کرتی ہیں۔

BBCزیادہ تر لوگ اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کریموں میں موجود اجزا کی محفوظ مقدار کیا ہونی چاہیے

ایک خاتون جن کے ہاتھوں کی رنگت خراب ہو چکی تھیں وہ بضد تھیں کہ بیچنے والا کریم میں جلد سفید کرنے والا مواد شامل کرے۔ یہ کریم اس خاتون کے بچوں کے لیے تیار کی جا رہی تھی حالانکہ یہ صرف بڑوں کے لیے منظور شدہ تھی اور بچوں پر اس کا استعمال کرنا غیر قانونی تھا۔

انھوں نے پراعتماد لہجے میں کہا ’میرے ہاتھ وں کی رنگت چاہے خراب ہو چکی ہے لیکن میں یہاں اپنے بچوں کے لیے کریم خریدنے آئی ہوں تاکہ ان کی رنگت صاف اور گوری ہو۔ میرا ماننا ہے کہ میرے ہاتھ صرف اس لیے خراب ہوئے کیونکہ میں نے غلط کریم استعمال کی تھی۔ میرے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘

ایک دکاندار نے بتایا کہ ان کے زیادہ تر گاہک ایسی کریمیں خرید رہے تھے تاکہ ان کے بچوں کی جلد ’چمکتی اور روشن‘ دکھے۔

زیادہ تر لوگ اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کریموں میں موجود اجزا کی محفوظ مقدار کیا ہونی چاہیے۔

ایک بیچنے والے نے انکشاف کیا کہ اگر کوئی گاہک گوری رنگت چاہے تو وہ کریم میں ’بہت زیادہ کوجک‘ شامل کرتے ہیں جو تجویز کردہ مقدار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اور اگر کسی کو رنگت میں ہلکی سی تبدیلی کی خواہش ہو تو اس صورت میں وہ مقدار کم کر دیتے ہیں۔

BBCقانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے لیے بعض اوقات ان اجزا کی شناخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے

نائیجیریا میں ان کریموں میں کوجک ایسڈ کی محض ایک فیصد مقدار استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن ہم نے دکانداروں کو خواتین کو اس کے انجیکشن لگاتے بھی دیکھا۔

نائفڈیک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لیونارڈ اوموکپریولا کا کہنا ہے کہ عوام کو ان خطرات سے آگاہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مارکیٹوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور نائیجیریا کی سرحدوں پر سکن لائٹننگ کے اجزا کو ضبط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ یہ ملک میں داخل نہ ہو سکیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے لیے بعض اوقات ان اجزا کی شناخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

’یہ اجزا اکثر بغیر لیبل والے کنٹینروں میں سمگل کیے جاتے ہیں، اس لیے جب تک انھیں لیبارٹری میں جانچ کے لیے نہ بھیجا جائے، یہ جاننا ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں کیا موجود ہے۔‘

فاطمہ کہتی ہیں کہ ان کے کیے گئے فیصلے کا پچھتاوا ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا، خاص طور پر اگر ان کے بچوں کے زخم کبھی مندمل نہ ہوئے۔

’جب میں نے اپنی ماں کو بتایا کہ میں نے کیا کیا ہے تو ان کا ردِعمل میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ جب انھیں اس کریم کے نقصانات اور میرے بچوں کو لاحق بدنامی کا احساس ہوا، تو وہ افسردہ ہوگئیں کہ ان بچوں کو یہ سب کچھ سہنا پڑے گا۔۔۔ انھوں نے معذرت بھی کی۔‘

اب فاطمہ پُرعزم ہیں کہ وہ دوسرے والدین کو ایسی غلطی دہرانے سے روکیں گی۔

’چاہے میں نے ان کا استعمال چھوڑ دیا ہو مگر سائیڈ ایفیکٹس اب بھی باقی ہیں۔ میں دوسرے والدین سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے انجام سے سبق سیکھیں۔‘

You may also be interested in:گوری رنگت کا جنون: ’مائیں آ کر کہتی ہیں کہ بیٹی کا رشتہ آ رہا ہے، بس جلدی سے اس کا رنگ گورا کر دیں‘تین ہفتے میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ اور 15 لاکھ روپے جرمانہ: ’شار رخ کا اشتہار دیکھ کر یہ کریم خریدنے پر مجبور ہوا‘’رنگ گورا کرنے والی کریم کے باعث والد مجھے پہچان ہی نہیں سکے‘ابٹن اور ریٹینول جیسے جِلد نکھارنے کے مشورے اور ٹوٹکے کیا سچ مُچ اثر کرتے ہیں؟'میرے بچے کو گورا بنا دو'’سیاہ رنگت سے چھٹکارا پانے کے لیے نہاتے ہوئے اپنی جلد کو رگڑتی تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More