لاہور میں ایک سال میں ڈیڑھ لاکھ جرائم پیشہ افراد کا اضافہ کیسے ہوا؟

اردو نیوز  |  Mar 25, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وقت کے ساتھ پولیس کا نظام بھی جدت اختیار کر رہا ہے اور اب جرائم پیشہ افراد کا باضابطہ ریکارڈ اسی وقت مرتب ہونا شروع ہو جاتا ہے جب کسی بھی تھانے میں ایک ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔

اور پھر جب اس ایف آر میں نامزد یا بے نامی ملزمان تک پولیس پہنچتی ہے تو اس کے بعد ان کے فنگر پرنٹس اور دیگر ڈیٹا کا ریکارڈ سسٹم کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں ایف آئی آرز کی رجسٹریشن کے عمل میں تیزی کے باعث پولیس ریکارڈ میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اردو نیوز کو دستیاب سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پنجاب بھر میں اس وقت رجسٹرڈ جرائم پیشہ افراد کی تعداد 19 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایسے رجسٹرڈ جرائم پیشہ افراد کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں پنجاب کے کل جرائم پیشہ افراد میں سے 30 فیصد صرف لاہور میں ہیں۔

سرکاری اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک برس میں لاہور میں پنجاب کے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ جرائم پیشہ افراد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

لاہور میں جن جرائم میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ان میں چوری، ڈکیتی، راہزنی، قتل اور گاڑیوں کی چوری جیسے واقعات شامل ہیں۔ دوسری طرف پولیس کا دعویٰ ہے کہ جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم خود سرکاری ریکارڈ اس کے برعکس ہے۔

پولیس کے سابق آئی جی خالد خواجہ اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جرائم پیشہ افراد میں اضافے کو صرف ایک عدسے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جیسے آبادی بڑھ رہی ہے ویسے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہونا ایک بنیادی بات ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ڈیجیٹل ریکارڈ کی وجہ سے بھی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں اور اب ہر کسی کا ڈیٹا ایک ہی جگہ پر اکھٹا ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ریکارڈ صرف کاغذی فائلوں پر بنتے تھے اور فیکس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے جاتے تھے اب یہ سارا کام پلک جھپکنے میں ہو جاتا ہے۔‘

سابق آئی جی کا کہنا تھا کہ ’اب تو ادھر ایف آئی آر ہوتی ہے اور ملزم گرفتار ہوتا ہے یا نامزد ہوتا ہے تو اسی وقت ریکارڈ مرتب ہو جاتا ہے۔ اور صرف شناختی کارڈ سے دیکھا جا سکتا ہے کس پر کس علاقے میں کیا مقدمہ ہے۔ اگر ہم ویسے پچھلے کچھ برسوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیں تو صورتحال غیرمعمولی نہیں۔‘

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں رجسٹرڈ جرائم پیشہ افراد کی تعداد 19 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ فائل فوٹو: پنجاب پولیس

پنجاب کے پرایسکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے نظام میں بہت بہتری آئی ہے، اس میں ایک بہت لمبا عرصہ لگا ہے۔ عدالتوں نے فیصلے دیے اور نظام کو اَپ گریڈ کیا گیا اب شاذ ونادر ہی ایسی خبر ملتی ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ بلکہ پہلے مقدمہ درج ہوتا ہے پھر واقعے کی خبر لوگوں کو ملتی ہے۔ جس سے اوورآل ریکارڈ بننے میں تیزی آئی ہے۔‘

فرہاد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ویسے بھی معاشی صورت حال، سیاسی معاملے اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے عوامل نے بھی پولیس کا کام بڑھایا ہے اور ان معاملات کی وجہ سے جرائم کی نوعیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پہلے صرف چوری ڈکیتی قتل یا فراڈ ہوتے تھے اب تو ہنی ٹریپ سے لے کر سوشل میڈیا پر دشمنیوں اور  کئی واقعات میں کرپٹو فراڈ نے جرائم کی نوعیت بدل دی ہے۔‘

خیال رہے کہ پولیس اسی صورت میں ملزمان کا فنگر پرنٹ ریکارڈ مرتب کرتی ہے اگر ابتدائی تفتیش میں ملزم گناہ گار ثابت ہو جائے۔ یہ اعداد وشمار ان افراد سے متعلق ہیں جن کے بارے میں پولیس یہ سمجھتی ہیں کہ انہوں نے جرائم کیے ہیں اور وہ دوبارہ بھی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More