انڈیا میں محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ اس مرتبہ ملک میں معمول سے زیادہ گرمی پڑے گی اور ہِیٹ ویووز کی وجہ سے معمول کا کاروبار اور کاروبارِ زندگی دونوں کو گرم موسم کی وجہ سے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔انڈیا میں شدید گرمی پڑنا اچھنبے کی بات نہیں ہے لیکن کئی برس پر محیط سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہِیٹ ویووز کے دورانیے میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ بار بار وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور ان کی شدت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔انڈیا میں گرمیوں کا موسم اپریل سے جون تک رہتا ہے اور جب گرمی انتہا پر پہنچے تو درجۂ حرارت 45 سنٹی گریڈ کو چُھو جاتا ہے۔پیر کو انڈیا کے محکمۂ موسمیات نے ایک پیش گوئی میں بتایا کہ اس برس گرمیوں میں ملک کے بیشتر حصوں میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت معمول سے بڑھ جائے گا۔’ہِیٹ ویووز بھی زیادہ ہوں گی اور طویل دورانیے میں ان کا درجۂ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ممکن ہے مشرقی انڈیا میں اس بار ہیٹ ویووز کا دورانیہ دس دنوں پر بھی محیط ہو۔ گرمی کی وجہ سے انسان شدید سٹریس کا شکار بھی ہوں گے۔‘اپریل اور جون کے درمیان انڈیا میں عام طور سے چار سے سات ہیٹ ویووز آتی ہیں۔ شِیر خوار، ضعیف العمر افراد، پہلے سے امراض میں مبتلا لوگ اور کھلی جگہوں پر کام کرنے والے کارکن ان ہیٹ ویووز سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔گرمی سے پیدا ہونے والے سٹریس کے نتیجے میں جو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ان میں سر چکرانے اور سرد میں درد کی شکایت سے لے کر جسم کے اہم اعضا کا کام چھوڑ دینا حتٰی کہ موت بھی شامل ہے۔شہر میں رہنے والے جو کنکریٹ سے بنی عمارتوں کے بیچوں بیچ رہائش پذیر ہوتے ہیں یا حرارت کو جذب کرنے والے مواد سے بنی سطح کے آس پاس بھی گرمیوں میں خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طویل دورانیے تک گرمی سے بجلی کے نظام اور مواصلاتی انفراسٹرکچر پر دبا ؤ بڑھ جاتا ہے۔انڈیا کے محکمۂ موسمیات کے مطابق گرمی کے ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ ’اس میں کولنگ سینٹرز تک لوگوں کی رسائی، گرمی یا ہیٹ ویو کے بارے میں پیشگی اطلاع اور شہروں میں متاثر ہونے والے علاقوں میں حدت کے اثر کو کم کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل درآمد شامل ہیں۔‘گزشتہ برس انڈیا میں طویل ترین ہیٹ ویو آئی تھی اور درجۂ حرارت 45 سنٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔عالمیِ ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ہر برس گرمی سے کم از کم پانچ لاکھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں لیکن ادارے کے خیال میں ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے شاید تیس گنا زیادہ ہو۔