BBCجرمنی نے اپنی فوج میں سرمایہ کاری بڑھانے کے حق میں ووٹ دیا ہے
ایک میزائل لانچر چھوڑنے جانے پر ماحول میں بھورے رنگ کی دھول پھیلنے لگتی ہے۔ چند لمحوں پر ایک سپاہی کی آواز آتی ہے جو پانچ سے الٹی گنتی گن رہا ہے اور اس کے ’فائر‘ چلانے پر راکٹ فضا میں نظر آتا ہے۔
ایسی فوجی مشقوں کی آوازیں اتنی معمول بن چکی ہے کہ منسٹر کے قریب واقع چھوٹے سے شہر کے لوگ اب ان پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔
لیکن یہاں کے باسیوں کی زندگی میں مزید شور شرابہ آنے والا ہے۔
جرمنی کی فوج بوندس ویئر کو حال ہی میں دفاعی اخراجات پر سخت قرض کے قوانین سے استثنیٰ حاصل کرنے کے بعد بڑی سرمایہ کاری میں اضافے کی اجازت دی گئی ہے۔
ملک کے اعلیٰ ترین جنرل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مالی معاونت فوری طور پر ضروری ہے کیونکہ انھیں یقین ہے کہ روسی جارحیت صرف یوکرین تک محدود نہیں رہے گی۔
جنرل کارسٹن بروئر نے کہا ’ہمیں روس سے خطرہ ہے۔ ہم پوتن سے خطرہ ہے۔ جو بھی ضروری اقدامات ہیں، وہ کرنا ہوں گے تاکہ اس جارحیت کو روکا جا سکے۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ نیٹو کو اگلے چار سالوں میں کسی بھی ممکنہ حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
دفاعی سربراہ نے کہا ’یہ اس بات پر منحصر نہیں کہ ہمیں کتنا وقت لگے گا، بلکہ اس بات پر ہے کہ پوتن ہمیں تیاری کے لیے کتنا وقت دیتے ہیں۔ اور جتنا جلد ہم تیاری کریں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘
’یہ خیال کہ جرمنوں کو تنازعات سے دور رہنا چاہیے، اب بھی بہت سے لوگوں کے ڈی این اے میں رچا بسا ہے‘
روس کے یوکرین پر حملے نے جرمنی میں اکثریت کی سوچ کو تبدیل کیا ہے۔
کئی دہائیوں تک جرمنی کے شہریوں کو فوجی طاقت کے خلاف تربیت دی گئی اور یہاں کے باشندے ماضی میں یورپ میں جرمنی کے جارحیت کرنے والے ملک کے طور پر کردار کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
ارکُس زیینر جو جرمن مارشل فنڈ برلن میں ہیں، کہتے ہیں کہ ’ہم نے دو عالمی جنگیں شروع کیں۔ حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کو 80 سال ہو چکے ہیں لیکن یہ خیال کہ جرمنوں کو تنازعات سے دور رہنا چاہیے، اب بھی بہت سے لوگوں کے ڈی این اے میں رچا بسا ہے۔‘
Getty Imagesپھر فروری 2022 میں چانسلر اولاف شولز نے ملکی ترجیحات میں ایک اہم تبدیلی کا اعلان کیا، یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
اب بھی کچھ لوگ ہر اُس چیز سے محتاط رہتے ہیں جس میں فوجی طاقت کا شائبہ ہو اور فوج کو مسلسل کم فنڈز ملتے رہے ہیں۔
’چند شہری دوسروں کو خبردار کرتے ہیں: ’کیا ہم واقعی صحیح راستے پر ہیں؟ کیا ہماری خطرے کی شناخت درست ہے؟‘
روس کے حوالے سے جرمنی کا ایک خاص نقطہ نظر رہا ہے۔
جس وقت پولینڈ اور بالٹک ریاستوں جیسے ممالک ماسکو کے قریب جانے سے احتیاط برتتے تھے اور اپنے دفاعی اخراجات بڑھا رہے تھے، برلن میں سابق چانسلر اینجیلا مرکل نے کاروبار کرنے کو ترجیح دی۔
روسی حملے کا خطرہ جس نے ناروے جیسے پُرامن ملک کو بھی خفیہ فوجی بنکرز بحال کرنے پر مجبور کر دیا ہےڈیاگو گارسیا: وہ ’غیر قانونی خفیہ فوجی اڈہ‘ جسے امریکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے’راکٹ سٹی‘: سُرنگوں میں بنے ایران کے خفیہ میزائل اڈوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں
جرمنی نے یہ سوچا کہ وہ جمہوری عمل جاری رکھے۔ لیکن روس نے ان سے پیسہ لیا اور پھر بھی یوکرین پر حملہ کر دیا۔
پھر فروری 2022 میں چانسلر اولاف شولز نے ملکی ترجیحات میں ایک اہم تبدیلی کا اعلان کیا، یہ ایک نیا موڑ، نئے دور کا آغاز تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے ملک کی فوجی طاقت کو بڑھانے اور ’پوتن جیسے جنگجوؤں‘ کو قابو میں رکھنے کے لیے 100 ارب یورو کی ایک بڑی رقم مختص کی۔ لیکن جنرل بروئر کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں تھا۔
انھوں نے کہا ’ہم نے تھوڑی بہت کمی پوری کی، لیکن صورتحال بہت خراب ہے۔‘
BBCجنرل بروئر روس میں اسلحہ اور ساز و سامان پر بھاری خرچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو یوکرین کی فرنٹ لائن کے ساتھ ساتھ ذخیرہ کرنے کے لیے بھی ہے۔
جنرل بروئر روس میں اسلحہ اور ساز و سامان پر بھاری خرچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو یوکرین کی فرنٹ لائن کے ساتھ ساتھ ذخیرہ کرنے کے لیے بھی ہے۔
وہ روس کی ہائبرڈ جنگ پر بھی بات کرتے ہیں جس میں سائبر حملوں سے لے کر تخریب کاری اور جرمنی کے فوجی مقامات کے اوپر نامعلوم ڈرونز کی موجودگی شامل ہے۔
اس سب میں ولادیمیر پوتن کی جارحانہ زبان بھی شامل کریں تو جنرل بروئر کو مستقبل خطرناک نظر آتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مغربی دنیا کے برعکس، روس صرف جنگ یا امن کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے: پہلے ہائبرڈ جنگ، پھر اس میں اضافہ اور پھر واپسی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم واقعی ایک خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جرمنی کو فوراً کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔
بوندس ویئر (جرمن فوج) کے پاس ’سب کچھ بہت کم مقدار میں ہے‘
فورسز کی صلاحتیوں کے بارے میں دفاعی سربراہ کی رائے پارلیمنٹ کی حالیہ رپورٹ سے میل کھاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بوندس ویئر (جرمن فوج) کے پاس ’سب کچھ بہت کم مقدار میں ہے۔‘
رپورٹ کی مصنفہ فوجی کمشنر ایوا ہوگل نے اسلحہ سے لے کر سپاہیوں اور بیرکوں کی خراب حالت تک، سنگین خامیوں اور قلت کا انکشاف کیا۔ انھوں نے صرف مرمت کے کام کے لیے بجٹ کا تخمینہ تقریباً 67 ارب یورو لگایا۔
جنرل بروئر نے کہا کہ فوج کو بغیر کسی حد کے قرض لینے کی اجازت دینے سے فوج کو مستحکم فنڈنگ تک رسائی ملے گی تاکہ ان خامیوں اور قلت کو دور کیا جا سکے۔
یہ تاریخی اقدام شولز کے ممکنہ جانشین فریڈرک مرز نے اٹھایا ہے اور یہ جس تیزی سے کیا گیا اس پر کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے۔ انھوں نے یہ تجویز پارلیمنٹ میں انتخابات کے فوری بعد پیش کی۔
نئی پارلیمنٹ میں کچھ بائیں بازو کے لوگ فوجی طاقت کے مخالف ہیں اور چند دائیں بازو کے لوگ روس کے حامی ہیں۔۔۔ شاید انھیں یہ تجویز اتنی پسند نہ آتی۔
لیکن 2022 میں جرمنی نے جو ’موڑ‘ لیا تھا، رواں برس اس میں شدت دیکھی گئی۔
Getty Imagesایک حالیہ یوگوو پول میں یہ ظاہر ہوا کہ 79 فیصد جرمنوں کا خیال ہے کہ ولادیمیر پوتن یورپ کے امن اور سلامتی کے لیے کافی خطرناک ہیں۔ 74 فیصد لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بھی یہی رائے ظاہر کی ہے۔
ایک حالیہ یوگوو پول میں یہ ظاہر ہوا کہ 79 فیصد جرمنوں کا خیال ہے کہ ولادیمیر پوتن یورپ کے امن اور سلامتی کے لیے کافی خطرناک ہیں۔ 74 فیصد لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بھی یہی رائے ظاہر کی ہے۔
یہ سروے اس وقت کیا گیا جب میونخ میں ایک تقریر کے دوران ان کے نائب صدر جے ڈی وینس نے یورپ اور اس کی اقدار پر سخت تنقید کی۔
مارکُس زیینر کہتے ہیں ’یہ ایک صاف اشارہ تھا کہ امریکہ میں کچھ بدل چکا ہے۔‘
’ہمیں یہ نہیں معلوم کہ امریکہ کہاں جا رہا ہے لیکن ہمیں اب یہ یقین نہیں رہا کہ جب ہماری سلامتی کی بات آئے تو ہم امریکی تحفظ پر مکمل بھروسہ کر سکتے ہیں۔ وہ اعتماد اب ختم ہو چکا ہے۔‘
جرمنی نے تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے
جرمن شہریوں میں فوجی طاقت کے حوالے سے پائی جانے والی روایتی احتیاط اب تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
18 سالہ شارلٹ کریف کہتی ہیں کہ ان کے امن پسند خیالات اب بدل چکے ہیں۔
’ہمیں بہت عرصے تک یہ لگتا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں جو مظالم ہم نے کیے ان کا مداوا اس بات سے ہو گا کہ ایسا کبھی دوبارہ نہ ہو۔۔۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہمیں فوجی طاقت کم کرنی چاہیے۔‘
وہ کہتی ہیں ’لیکن اب ہم ایسی صورتحال میں ہیں جہاں ہمیں اپنی اقدار، جمہوریت اور آزادی کے لیے لڑنا پڑے گا۔ ہمیں بدلنا ہو گا۔‘
لوڈوِگ سٹائن کہتے ہیں ’بہت سے جرمن ابھی بھی فوج کے لیے زیادہ فنڈنگ کو لے کر تھوڑا عجیب محسوس کرتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
BBCشارلٹ اور لڈوِگ جرمنی میں دفاعی اخراجات بڑھانے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں
صوفی ایک نوجوان ماں ہیں، وہ کہتی ہیں کہ دفاعی شعبے میں پیسہ لگانا اب ضروری ہو گیا۔
لیکن جرمنی کو ٹینکوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کی بھی ضرورت ہے اور وہ اپنے بیٹے کو فوج میں بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں۔
کیا آپ جنگ کے لیے تیار ہیں؟
بوندس ویئر (جرمن فوج) کا صرف ایک مستقل ڈراپ ان سینٹر ہے جو برلن کے فریڈرک سٹریٹ سٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی یونٹ ہے۔ یہ ایک فارمیسی اور جوتوں کی دکان کے درمیان واقع ہے۔
کھڑکیوں میں کیموفلاج والے ڈمی اور ’کول اینڈ سپائسی‘ جیسے نعرے لکھے گئے ہیں تاکہ مردوں اور عورتوں کو فوج میں شامل ہونے کے لیے راغب کیا جا سکے لیکن یہاں روزانہ صرف چند لوگ ہی آتے ہیں۔
جرمنی پہلے ہی فوجیوں کی تعداد میں 20 ہزار افراد کے اضافے کا ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے جس سے فوج کی تعداد بڑھ کر دو لاکھ تین ہزار ہو جاتی۔ اس کے علاوہ فوجیوں کی اوسط عمر کو 34 سال سے کم کرنے کا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا ہے۔
لیکن جنرل بروئر کی خواہشیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جرمنی کو نیٹو کے مشرقی محاذ اور اپنے دفاع کے لیے مزید ایک لاکھ فوجیوں کی ضرورت ہے، اس سے فوج کی کل تعداد چار لاکھ 60 ہزار تک پہنچ جائے گی جس میں ریزرو بھی شامل ہیں۔
وہ ضرور دیتے ہیں کہ فوجی سروس بہت ضروری ہے۔
BBCجرمنی پہلے ہی فوجیوں کی تعداد میں 20 ہزار افراد کے اضافے کا ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے
جنرل کا کہنا ہے ’آپ یہ ایک لاکھ فوجی بغیر کسی بھرتی کے ماڈل کے حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘
’ہمیں ابھی یہ فیصلہ نہیں کرنا کہ کون سا ماڈل ہمیں فوجی دے گا۔ میرے لیے صرف یہ ضروری ہے کہ ہمیں فوجی مل جائیں۔‘
یہ بحث ابھی تو صرف شروع ہوئی ہے۔
جرمنی نے جو موڑ لیا تھا، جنرل بروئر اسے تیز کرنے کی کوششوں میں خود کو سب سے آگے دکھا رہے ہیں۔
اپنے دوستانہ اور پرکشش انداز میں وہ علاقائی میٹنگز میں شرکت کرتے ہیں اور شرکا سے سوال کرتے ہیں: ’کیا آپ جنگ کے لیے تیار ہیں؟‘
ایک دن ایک خاتون نے الزام عائد کیا کہ وہ انھیں ڈرا رہے ہیں۔
وہ اپنے جواب کو یاد کرتے ہیں ’میں نے کہا کہ یہ میں نہیں بلکہ وہ دوسرا شخص ہے جو آپ کو ڈرا رہا ہے۔‘
وہ ولادیمیر پوتن کی بات کر رہے تھے۔
جنرل کہتے ہیں کہ روس کے خطرے اور امریکہ کی الگ تھلگ پالیسی کے ساتھ یہ دونوں مسئلے اب جرمنی کے لیے بہت اہم ہو چکے ہیں اور انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’اب ہم سب کو سمجھ آ گئی ہے کہ ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہو گا۔‘
روسی حملے کا خطرہ جس نے ناروے جیسے پُرامن ملک کو بھی خفیہ فوجی بنکرز بحال کرنے پر مجبور کر دیا ہے’راکٹ سٹی‘: سُرنگوں میں بنے ایران کے خفیہ میزائل اڈوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیںڈیاگو گارسیا: وہ ’غیر قانونی خفیہ فوجی اڈہ‘ جسے امریکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہےجوہری دھماکوں کا پتا چلانے والے سینسرز کا نیٹ ورک جو غیر متوقع سائنسی دریافت کا باعث بناقطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دی