Reuters / Getty Imagesصدر ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط میں مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی اور چند ماہ کے اندر معاہدے کا مطالبہ بھی کیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت جلدی میں ہیں۔
عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد چند ماہ کے دوران ہی انھوں نے غزہ اور یوکرین میں قیامِ امن کی کوششیں کی اور ناکام رہے۔ وہ یمن پر بمباری کر چکے ہیں، ایک عالمی تجارتی جنگ چھیڑ بیٹھے ہیں اوراب ان کی توجہ کا مرکز ایران ہے۔
یہ ہمیشہ صدر کی ترجیحات کی فہرست میں رہا ہے۔ ٹرمپ کے لیے، ایران ان کی پہلی مدتِ صدارت سے ہی ایک نامکمل کام ہے۔
مسئلہ وہی ہے جو اس وقت تھا: کیا چیز ہے جو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روک سکتی ہے؟
ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش رکھتا ہے لیکن دیگر ممالک کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کم از کم جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو ایک ایسی خواہشہے جس سے مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑ یا یہاں تک کہ مکمل جنگ شروع ہو سکتی ہے۔
2015 میں ایران نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے ساتھ ایک معاہدے پر اتفاق کیا۔ اسے ’جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن‘ کہا گیا۔
اس کی شقوں کے تحت، ایران کو اپنے جوہری عزائم محدود کرنے ہیں اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ملک میں داخلے اور معائنے کی اجازت دینی تھی جس کے عوض اس پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جانی تھیں۔
لیکن ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس سے ایران کی ملیشیاز جیسے حماس اور حزب اللہ کو مالی مدد ملی اور دہشت گردی بڑھی۔ معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔
اس کے ردعمل میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ پابندیوں کو نظرانداز کیا اور زیادہ سے زیادہ یورینیئم جوہری ایندھن افزودہ کیا۔
تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جلد ہی جوہری وار ہیڈ بنانے کے لیے درکار یورینیم موجود ہو سکتا ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اگر ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیئم کے ذخیرے کو اگلی سطح تک افزودہ کیا گیا تو وہ تقریباً چھ بم بنا سکتا ہے۔
صدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی اپنی سابقہ پالیسی کو بحال کر دیا۔
چار فروری کو انھوں نے ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں امریکی وزارت خزانہ کو ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے اور موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک، خاص طور پر ایرانی تیل خریدنے والے ممالک کو سزا دینے کا حکم دیا گیا۔
Getty Imagesایران میں اصفہان سمیت متعدد مقامات پر جوہری تنصیبات ہیں
اب وائٹ ہاؤس اس معاشی دباؤ کے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤ ڈالنے کی امید بھی کر رہا ہے۔ گذشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا جس میں مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی اور چند ماہ کے اندر معاہدے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
اب انھوں نے رواں ہفتے کے آخر میں عمان میں امریکی اور ایرانی حکام کے درمیان براہ راست بات چیت پر اتفاق کیا ہے۔
ایران کے لیے امریکی دھمکی واضح ہے: معاہدے پر متفق ہوں یا فوجی کارروائی کا سامنا کریں۔
ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ اگر ایران کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ ایران کو بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
’راکٹ سٹی‘: سُرنگوں میں بنے ایران کے خفیہ میزائل اڈوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیںایران ایٹم بم بنانے کے کتنا قریب ہے؟تو ایران کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟
تہران میں کچھ پالیسی ساز ایسے معاہدے پر اتفاق کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں جس سے پابندیاں ہٹائی جا سکیں۔
بڑھتی ہوئی افراط زر اور قدر کھوتی ہوئی کرنسی کے ساتھ ایران کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے۔
لیکن اس طرح کے کسی بھی معاہدے میں ایسا سمجھوتہ شامل ہوسکتا ہے جسے کچھ قبول کرنا سخت گیر عناصر کے لیے مشکل ہو۔
ایران کو حالیہ مہینوں میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی ’پراکسی ملیشیاز‘ اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران کمزور ہو چکی ہیں اور اس کے علاقائی اتحادی شام کے صدر بشار الاسد اقتدار کھو چکے ہیں۔
اس صورتحال میں تہران میں کچھ عناصر یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ شاید جوہری ’ڈیٹرنٹ‘ تیار کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
امریکہ اور ایران فی الوقت دو کناروں پر دکھائی دیتے ہیں اور ان کے مذاکراتی موقف واضح نہیں۔
لیکن امریکہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے، جس میں مزید یورینیئم کی افزودگی کا مکمل خاتمہ شامل ہو اور ساتھ ہی ساتھ وہ چاہتا ہے کہ ایران لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔
ایران کے لیے یہ شرائط قبول کرنا ناممکن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
Getty Imagesاسرائیل طویل عرصے سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے فوجی آپشنز پر غور کر رہا ہے لیکن اس کا بڑا حصہ زیرِزمین بنکروں میں ہے
کسی بھی جوہری افزودگی پر مکمل پابندی، یہاں تک کہ پرامن مقاصد کے لیے بھی، طویل عرصے سے ایران کے لیے ایک حتمی سرخ لکیر کے طور پر دیکھی جاتی رہی ہے۔
ایرانیوں کی تکنیکی مہارت بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس کے سائنسدان دس سال پہلے کے مقابلے میں جوہری ہتھیار بنانے کے بارے میں اب کہیں زیادہ جانتے ہیں۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس نے واضح کیا ہے کہ وہ ایرانی جوہری صلاحیت کے مکمل خاتمے کو ہی قبول کرے گا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ ’اس سے اتفاق کریں گے جیسا لیبیا میں کیا گیا تھا۔‘
یہ لیبیا کے آنجہانی رہنما معمر قذافی کے 2003 میں پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں اپنے پورے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے فیصلے کا حوالہ ہے لیکن ایران کا اس نظیر پر عمل کرنے کا امکان نہیں۔
مذاکرات ناکام ہوئے تو کیا ہو گا؟
اسرائیل طویل عرصے سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے فوجی آپشنز پر غور کر رہا ہے لیکن اس کا بڑا حصہ زیرِزمین بنکروں میں ہے۔
عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ایران پر بمباری کرنے کے لیے صرف امریکی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی، اسے جوہری تنصیبات کی تباہی کی ضمانت کے لیے ایرانی سرزمین پر امریکی فوج کی موجودگی کی بھی ضرورت ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی کارروائی خطرناک ہو گی اور اس کی کامیابی کی کسی بھی طرح ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ٹرمپ نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ مزید ’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگیں‘ شروع نہیں کریں گے اور ایک ہمہ گیر علاقائی تنازعہ جس کا ایک کردار ایران ہو، ایسی ہی ایک جنگ بن سکتا ہے۔
اس لیے فی الحال امریکی صدر سفارتی حل کی تلاش میں ہیں جسے اسرائیل کو بھی اپنی خواہش کے برعکس قبول کرنا پڑے گا۔
صدر ٹرمپ فریقین کو کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے دو ماہ کا وقت دے رہے ہیں لیکن اگر معاہدہ نہیں ہوتا تو وہ طاقت کے استعمال کا حق محفوظ رکھ رہے ہیں جس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر شاید بھول رہے ہیں کہ مذاکرات کاروں کو سنہ 2015 کے جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن پر اتفاق کرنے میں دو برس لگے تھے اور یہ کہ جلد بازی کی سفارت کاری ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی۔
’معنی خیز سفارت کاری نہ ہوئی تو ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں گے یا اس پر حملہ‘ٹرمپ کے ’خط‘ کے بعد چین، روس اور ایران کا ’چابہار کے قریب‘ مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کس جانب اشارہ ہےپابندیوں میں سختی مگر لہجہ نرم: صدر ٹرمپ ایران سے چاہتے کیا ہیں؟ایران کا میزائل سسٹم کتنا مؤثر ہے اور اس کی افواج کتنی طاقتور ہیں؟ٹرمپ کی دھمکی اور ’خفیہ فوجی اڈے‘ پر بمبار طیاروں کی آمد: کیا ایران ڈیاگو گارسیا جزیرے پر حملہ کر سکتا ہے؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟