ایران کا جوہری پروگرام کیا ہے اور امریکہ کیا چاہتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 12, 2025

امریکہ اور ایران کئی سال بعد سنیچر کو پہلی بار براہ راست مذاکرات کریں گے۔ اس کا مقصد ایران کے متنازع جوہری منصوبے پر نئے معاہدے پر اتفاق کرنا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے بیچ سابقہ معاہدے کو 2018 میں ختم کر دیا تھا اور اس پر اقتصادی پابندیاں بحال کر دی تھیں۔

ٹرمپ نے بات چیت میں ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی بھی ہے۔

ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت کیوں نہیں؟

ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سویلین مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اس کا اصرار ہے کہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا تاہم کئی ممالک اور جوہری شعبے پر نظر رکھنے والے عالمی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) اس سے مطمئن نہیں۔

ایران کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات نے اس وقت جنم لیا جب 2002 میں وہاں خفیہ جوہری تنصیبات کی دریافت ہوئی۔

اس سے جوہری نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس معاہدے پر ایران اور قریب تمام دیگر ممالک نے دستخط کیے ہوئے ہیں۔

این پی ٹی کے ذریعے ممالک جوہری ٹیکنالوجی کو غیر عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جیسے ادویات، زراعت اور توانائی۔ مگر یہ جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔

BBCایران کا جوہری پروگرام کتنا جدید ہے؟

امریکہ نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ جے سی پی او اے ختم کر دیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے اقتصادی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کئی دیگر خلاف ورزیاں کیں۔

اس نے یورینیئم کی افزودگی کے لیے ہزاروں جدید سنٹریفیوجز (یورینیئم کو خالص بنانے والی مشینیں) نصب کی ہیں۔ جے سی پی او اے میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 90 فیصد تک خالص یورینیئم درکار ہوتا ہے۔ جے سی پی او اے کے تحت ایران صرف 300 کلو گرام یورینیئم اور وہ بھی 3.67 فیصد خالص حالت میں جمع کر سکتا تھا۔ یہ سویلین جوہری توانائی اور تحقیق کے لیے کافی ہے مگر اس کے ایٹمی بم تیار نہیں کیے جاسکتے۔

’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے منصوبے سے متعلق لیک ہونے والی امریکی خفیہ دستاویزات میں کیا کہا گیا ہے؟فوج کے اعلیٰ عہدیداران کا گروپ چیٹ لیک: ایک ’سنگین کوتاہی‘ جس نے امریکہ میں تہلکہ مچا دیاغزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟

لیکن آئی اے ای اے کے مطابق مارچ 2025 تک ایران کے پاس 275 کلو گرام یورینیئم تھا جو اس نے 60 فیصد تک خالص کر لیا ہے۔ تھیوری کے اعتبار سے اگر ایران یورینیئم کی مزید افزودگی کرتا ہے تو یہ چھ ہتھیار تیار کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

امریکی حکام کا خیال ہے کہ ایران اس یورینیئم سے ایک ہفتے میں ایک ایٹمی بم کے لیے ہتھیاروں کی سطح کا مواد تیار کر سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں ایک سال سے 18 ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چھ ماہ یا اس سے کم عرصے میں ایک ’خام‘ ڈیوائس تیار کی جا سکتی ہے۔

ٹرمپ نے سابقہ جوہری معاہدہ کیوں ختم کیا؟

اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین نے ایران پر 2010 سے وسیع پیمانے پر اقتصادی پابندیاں کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ شکوک و شہبات ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام ایٹمی بم بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

پابندیوں کی وجہ سے ایران عالمی منڈیوں میں اپنا تیل فروخت نہ کر سکا اور اس کے بیرون ملک 100 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔ معیشت کساد بازاری کا شکار ہوگئی اور اس کی کرنسی کو ریکارڈ تنزلی کا سامنا کرنا پڑا جس سے مہنگائی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، چین، فرانس، روس، جرمنی اور برطانیہ) نے کئی سال مذاکرات کے بعد جے سی پی او اے پر اتفاق کیا۔

اس سے نہ صرف ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا بلکہ آئی اے ای اے کو ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی ملی تاکہ مشتبہ مقامات کا جائزہ لیا جاسکے۔ بدلے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں ہٹا دی گئیں۔

جے سی پی او اے کو 15 سال تک قائم رہنا تھا جس کے بعد دیگر سختیوں کی میعاد ختم ہو جاتی۔

Getty Images

2018 میں صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے جے سی پی او اے ختم کر دیا۔ انھوں نے اسے’'بُرا معاہدہ‘ قرار دیا کیونکہ یہ مستقل نہیں تھا اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بات نہیں کرتا تھا۔

ٹرمپ نے دوبارہ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تاکہ نئے معاہدے پر مذاکرات کے لیے ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالا جائے۔

ٹرمپ کے فیصلے کے پیچھے خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کا اثر و رسوخ تھا جو اس ڈیل کے خلاف تھے۔ ان میں مرکزی اتحادی اسرائیل تھا۔

اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ ایران اب بھی خفیہ جوہری پروگرام چلا رہا ہے اور اس نے متنبہ کیا تھا کہ ایران پابندیاں ختم ہونے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے فوجی سرگرمیاں مضبوط کرے گا۔

امریکہ اور اسرائیل اب کیا چاہتے ہیں؟

ایران کے ساتھ مذاکرات سے متعلق ٹرمپ کے اعلان نے اسرائیل کو حیران کیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ جے سی پی او اے سے ایک ’بہتر‘ معاہدہ کریں گے۔ تاہم اب تک ایران نے معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنے کو مسترد کیا ہے۔

ٹرمپ پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر ایران نے نیا معاہدہ نہیں کیا تو ’بمباری ہو گی۔‘

ان کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے کہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے جوہری پروگرام کو ’مکمل طور پر ختم‘ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: ’یہ افزودگی ہے، یہی ہتھیار بنانا ہے، اور یہی اس کا سٹریٹجک میزائل پروگرام ہے۔‘

اگرچہ ٹرمپ نے کہا کہ ’براہ راست مذاکرات ہوں گے‘ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ عمان میں ہونے والے مذاکرات بالواسطہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن ٹرمپ کو پہلے اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ کوئی ’فوجی آپشن‘ نہیں ہو سکتا۔

ٹرمپ کے اعلان کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ واحد قابل قبول ڈیل میں شامل ہو گا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے پر رضامند ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب تھا: ’ہم امریکی نگرانی میں اندر جاتے ہیں، تنصیبات اور تمام ساز و سامان کو اڑا دیتے ہیں۔‘

اسرائیل کا سب سے بڑا خوف یہ ہوگا کہ ٹرمپ ایران کے مکمل ہتھیار ڈالنے کے بعد کوئی ایسا سمجھوتہ قبول کر لیں گے جسے وہ سفارتی جیت کے طور پر پیش کریں۔

اسرائیل این پی ٹی کا حصہ دار نہیں اور خیال ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جس کی یہ تصدیق یا تردید نہیں کرتا۔ اس کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران، جو اسرائیل کے وجود کے حق کو قبول نہیں کرتا، اس کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

کیا امریکہ اور اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتے ہیں؟

امریکہ اور اسرائیل دونوں کے پاس ایران کے جوہری ڈھانچے پر بمباری کرنے کی فوجی صلاحیتیں ہیں لیکن اس طرح کی کارروائی پیچیدہ اور خطرناک ہوگی جس کے غیر یقینی نتائج برآمد ہوں گے۔

کلیدی جوہری مقامات کو زمین کے اندر گہرائی میں دفن کیا جاتا ہے، یعنی صرف سب سے زیادہ طاقتور بنکر کو تباہ کرنے والے بم ہی ان تک پہنچ سکتے ہیں۔ امریکہ کے پاس یہ بم موجود ہیں مگر اسرائیل کے پاس یہ ہیں یا نہیں، اس بارے میں لاعلمی پائی جاتی ہے۔

ایران تقریباً یقینی طور پر اپنا دفاع کرے گا۔ اس میں خطے میں امریکی اثاثوں پر حملہ کرنا اور اسرائیل پر میزائل داغنا شامل ہے۔

اس قسم کے آپریشن کے لیے امریکہ کو خلیج میں اپنے اڈوں کے ساتھ ساتھ طیارہ بردار بحری جہاز بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔

لیکن قطر جیسے ممالک، جو امریکہ کے سب سے بڑے ایئربیس کی میزبانی کرتا ہے، جوابی کارروائی کے خوف سے شاید ایران پر حملہ کرنے میں مدد کرنے پر راضی نہ ہوں۔

’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے منصوبے سے متعلق لیک ہونے والی امریکی خفیہ دستاویزات میں کیا کہا گیا ہے؟فوج کے اعلیٰ عہدیداران کا گروپ چیٹ لیک: ایک ’سنگین کوتاہی‘ جس نے امریکہ میں تہلکہ مچا دیاچین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟غزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More