Getty Imagesعراق میں شہر موصل میں واقع مسجد حضرت یونس
اسلام کی مقدس کتاب قرآن میں حضرت یُونُس کا ذکر چھ سورتوں، سورة ’النساء‘، ’اَلاَنعام‘، ’یونُس‘، ’الصافات‘، ’الانبیا‘ اور ’القلم‘ میں آیا ہے، پہلی چار سورتوں میں ’یونس‘ کے نام کے ساتھ اور آخری دو سورتوں، الانبیا اور القلم، میں انھیں ’ذوالنون‘ اور ’صاحب الحوت‘ (یعنی مچھلی والا) کہہ کر پکارا گیا ہے۔
حضرت یونس سے متعلق ایسے ہی تذکرے مسیحیوں کی مقدس کتاب ’بائبل‘ اور بعض صحیفوں میں ’یوناہ‘ کے نام کے ساتھ کیے گئے ہیں۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں میں حضرت یونس اور انھیں نِگلنے والی مچھلی کا واقعہ کس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اِن کتابوں میں بہت سی جگہوں پر یہ واقعہ ایک ہی طرح بیان کیا گیا ہے تاہم بعض تفصیلات تھوڑی مختلف ہیں۔
قرآن کے مفسرین حضرت یونس کا زمانہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بتاتے ہیں۔
اگرچہ حضرت یونس تھے تو اسرائیلی نبی، لیکن انھیں اشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اس قوم کو، قرآن میں، ’قومِ یونس‘ کہا گیا ہے۔ اس قوم کا مرکز ایک لاکھ سے زائد آبادی والا ’نینوی‘ یا ’نینوا‘ نامی شہر تھا جس کے کھنڈرات دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر آباد موصل شہر کے سامنے موجود ہیں۔
اسی علاقے میں حضرت یونس کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے۔
Getty Imagesعراق میں مقام یونس کے کھنڈرات
حضرت یونس اہلِ نینویٰ یا نینوا کو ایک عرصہ تک توحید کی دعوت دیتے رہے مگر مقدس صحیفوں کے مطابق ان کی قوم نے ’اعلانِ حق پر کان نہ دھرا‘۔ تب حضرتیونس اپنیقوم سے خفا ہو کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔
بستی سے نکلنے کے بعد چلتے چلتے وہ ساحلِ سمندر پر پہنچے جہاں سے وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔
قرآن میں ہے کہ (دورانِ سفر ایک بڑی مچھلی حملہ آور ہوئی جس سے بچنے کے لیے کشتی میں سوار لوگوں) نے آپس میں قرعہ ڈالا تو وہ (حضرت یونس) کے نام نکلا، پس انھیں سمندر میں پھینکا گیا (تاکہ مچھلی انھیں کھا لے اور باقی کشتیسوار بچ جائیں) اور مچھلی نے اُن کو نِگل لیا جبکہ وہ خودکو ملامت کر رہے تھے۔
صحیفۂ یونس یا بائبل میں کتاب یوناہ اور قرآن کی تصریحات و اشارات کی بنا پر ’تدبر قرآن‘ میں مزید تفیصل سے لکھا ہے کہ ’کشتی کچھ منزل طے کرنے کے بعد طوفان میں گِھر گئی۔ جب طوفان کسی طرح ٹلتا نظر نہیں آیا تو ملاحوں نے اُس زمانے کے عام وہم کے مطابق یہ خیال کیا کہ ہو نہ ہو اِس کشتی میں اپنے آقا سے بھاگا ہوا کوئی غلام سوار ہو گیا ہے، جب تک اُسے پکڑ کر سمندر کے حوالے نہ کیا جائے گا، اِس طوفان سے نجات نہیں مل سکتی۔‘
’بالآخر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کشتی میں مفرور غلام کون ہے، قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ ڈالنے کی خدمت، جیسا کہ سورۂ صافات میں اشارہ ہے، حضرت یونس ہی کے سپرد ہوئی۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہو گی کہ تمام اہل کشتی میں لوگوں کو سب سے زیادہ ثقہ (معتبر) آدمی وہی نظر آئے ہوں گے۔ بہرحال قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ حضرت یونس کے نام کا نکلا جس کے نتیجے میں وہ کشتی سے سمندر میں لڑھکا دیے گئے۔ سمندر میں اُن کو کسی بڑی مچھلی، غالباً وہیل نے نگل لیا۔'
حضرت خضر: پراسراریت میں لپٹی شخصیت جن کا قرآن اور مذہبی روایات میں درج قصہ ظاہر اور حقیقت میں فرق بتاتا ہےاصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟طوفان، کشتی اور کوہ جودی: حضرت نوح کا قصہ جو اسلام سمیت تین مذاہب میں بیان کیا گیااسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟
قرآن میں ہے کہ 'لیکن پھر اندھیروں (یعنی مچھلی کے پیٹ اور پاتال کی گہرائیوں کے اندھیروں میں) میں پکار اٹھا کہ (پروردگار) تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی قصور وار ہوں۔'
اِس دعا کا ذکر صحیفۂ یونس میں بھی ہوا ہے اور وہاں بھی ایسی ہی ایک مفصل دعا نقل کی گئی ہے۔
قرآن میں ہے کہ ’تب اُس کی دعا ہم نے قبول کر لی اور اُس کو غم سے نجات دی۔ ایمان والوں کو ہم اِسی طرح نجات دیتے ہیں۔‘
Getty Imagesعراق کا وہ مقام جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت یونس دفن ہیں۔ سنہ 1920 میں لی گئی تصویر
تدبر قرآن میں لکھا ہے کہ ’(قرآن کی رو سے) اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول فرمائی اور مچھلی نے اُن کو ساحل کی ریت پر اُگل دیا۔‘
’وہاں اللہ تعالیٰ نے اُن کے نڈھال جسم کو گرمی اور دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لیے کدو یا اِسی قسم کی کوئی بیل اُگا رکھی تھی جس کے نیچے اُن کو پناہ ملی۔‘
’جب جسم میں کچھ جان آئی تو اُن کو پھر اہل نینوا کے پاس دعوت کے لیے جانے کی ہدایت ہوئی۔‘
مسیحی روایت میں یوناہ (حضرت یونس ) کا قصہ ’عہد نامہقدیم‘ میں توراتی قصے کے مطابق ہی بیان ہوتا ہے، لیکن عہد نامہ جدید میں حضرت عیسیٰ نے اس قصے کو اپنی مثال کے طور پر پیش کیا۔
حضرت عیسیٰ نے کہاکہ ’جس طرح یوناہ تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا، اسی طرح ’ابنِ آدم‘ تین دن اور تین رات زمین کے اندر رہے گا، یعنی حضرت عیسیٰ اپنی موت اور قیامت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔‘
صحیفۂ یونس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیل جس کے سائے نے حضرت یونس کو امان دی گئی تھی، کسی سبب سے دفعتاً سوکھ گئی۔ حضرت یونس کو اِس یادگار بیل کے یوں خشک ہو جانے کا احساس ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس پر اُن کو توجہ دلائی کہ ’ایک حقیر بیل، جس کے لگانے اور پروان چڑھانے پر تم نے کوئی محنت نہیں کی، سوکھ جانے پر تم یوں ملول ہوئے تو غور کرو کہ میں اُس عظیم نینوا کو کس طرح اپنے عذاب کے حوالے کر سکتا ہوں، جس کو میں نے پیدا کیا، جس کی پرورش کی اور جس کو پروان چڑھایا ہے؟‘
’جاؤ، اُن کو پھر دعوت دو، شاید وہ نیکی کی راہ اختیار کریں اور میری رحمت کے مستحق ٹھہریں۔‘
اِس ہدایت کے مطابق حضرت یونس پھر اہل نینوا کے پاس ( عذاب سے) ڈرانے کے لیے گئے اور اُن کی اِس دوبارہ دعوت کا یہ اثر ہوا کہ بادشاہ سے لے کر نینوا کے عام باشندے تک سب کانپ اٹھے، سب خدا پر ایمان لائے، بادشاہ نے شاہی لباس اتار کر ٹاٹ کا پیرہن پہن لیا اور باشندوں کے نام فرمان جاری کیا کہ ہر کوئی اپنی بری راہ سے باز آ جائے، روزہ رکھے، خدا کے حضور زاری کرے اور توبہ کا سر جھکائے۔
قرآن کی سورہ یونس میں ہے ’جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان پر سے وہ رسوا کن عذاب ٹال دیا جو انھیں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دی۔‘
طوفان، کشتی اور کوہ جودی: حضرت نوح کا قصہ جو اسلام سمیت تین مذاہب میں بیان کیا گیاحضرت خضر: پراسراریت میں لپٹی شخصیت جن کا قرآن اور مذہبی روایات میں درج قصہ ظاہر اور حقیقت میں فرق بتاتا ہےاصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟یاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟