چِپس کی جنگ اور ٹرمپ کی حکمت عملی: امریکہ جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایشیا کا مقابلہ کر پائے گا؟

بی بی سی اردو  |  Apr 18, 2025

BBC

’امریکہ نے گذشتہ برسوں کے دوران چِپ مینوفیکچرنگکے حوالے سے غلطی کی جس سے چین اور دیگر ایشیائی مراکز کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے۔‘

جینا ریمنڈو، جو اس وقت امریکی وزیر تجارت تھیں، نے 2021 میں میرے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ بات کہی تھی۔

چار سال بعد بھی امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی بالادستی کی دوڑ میں ’چِپس‘ میدان جنگ بنی ہوئی ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب ایک انتہائی پیچیدہ اور نازک مینوفیکچرنگ کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں جسے مکمل کرنے میں دیگر خطوں کو کئی دہائیاں لگ گئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت کو آزاد کرے گی اور ملازمتیں پیدا کرے گی، لیکن کچھ بڑی کمپنیاں طویل عرصے سے اپنے امریکی کارخانوں میں ہنرمند کارکنوں کی کمی اور ناقص معیار کی مصنوعات سے نبرد آزما ہیں۔

ٹرمپ مختلف کیا کریں گے؟ اور یہ دیکھتے ہوئے کہ تائیوان اور ایشیا کے دیگر حصوں میں اعلی درجے کی چپس بنانے کے لیے خفیہ طریقہ موجود ہے، کیا امریکہ کے لیے بھی انھیں بڑے پیمانے پر تیار کرنا ممکن ہے؟

Getty Imagesمائیکروچپس: خفیہ طریقہ

سیمی کنڈکٹر واشنگ مشینوں سے لے کر آئی فونز اور فوجی جیٹ طیاروں سے لے کر برقی گاڑیوں تک ہر چیز بنانے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

’چپس‘ کے نام سے مشہور سلیکون کے یہ چھوٹے آلے امریکہ میں ایجاد ہوئے تھے لیکن آج ایشیا میں جدید ترین چپس غیر معمولی پیمانے پر تیار کی جا رہی ہیں۔

انھیں بنانا مہنگا اور تکنیکی طور پر پیچیدہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک آئی فون میں وہ چپس ہو سکتی ہیں جو امریکہ میں ڈیزائن کی گئی تھیں، تائیوان، جاپان یا جنوبی کوریا میں تیار کی گئیں، جس میں نایاب معدنیات کا خام مال استعمال کیا جاتا ہے جو زیادہ تر چین سے حاصل ہوتا ہے۔

اس کے بعد انھیں پیکیجنگ کے لیے ویتنام بھیجا جاسکتا ہے پھر امریکہ بھیجنے سے پہلے اسمبلی اور جانچ کے لیے چین بھیجا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مربوط نظام ہے جو دہائیوں میں تیار ہوا ہے۔

ٹرمپ نے چپ انڈسٹری کی تعریف کی ہے لیکن محصولات کی دھمکی بھی دی ہے۔ انھوں نے تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (ٹی ایس ایم سی) سے کہا ہے کہ اگر اس نے امریکہ میں فیکٹریاں نہیں بنائیں تو اسے 100 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

اس طرح کے پیچیدہ نظام اور شدید مسابقت کے ساتھ، انھیں زیادہ طویل مدتی اخراجات اور سرمایہ کاری کی طلب کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوگی۔

چین، تائیوان، جاپان اور جنوبی کوریا نے چپس تیار کرنے والی نجی کمپنیوں کو جو نمایاں سبسڈی دی ہے وہ ان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

امریکی چپس اینڈ سائنس ایکٹ کے پیچھے بڑی حد تک یہی سوچ تھی، جو 2022 میں صدر جو بائیڈن کے دور میں قانون بن گیا تھا۔ یہ ملکی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے گرانٹ، ٹیکس کریڈٹ اور سبسڈی مختص کر کے چپس کی تیاری کو دوبارہ فروغ دینے اور سپلائی چین کو متنوع بنانے کی کوشش تھی۔

ٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟چین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟ٹرمپ کا ’یوم آزادی‘ اور پاکستان سمیت 100 ممالک پر نئے ٹیرف کا اعلان جسے ’عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل‘ قرار دیا گیاروایت شکن ڈونلڈ ٹرمپ 2025 کو تاریخی سال بنانے کی راہ پر کیسے گامزن ہیں؟

دنیا کی سب سے بڑی چپ بنانے والی کمپنی ٹی ایس ایم سی اور دنیا کی سب سے بڑی سمارٹ فون بنانے والی کمپنی سام سنگ جیسی کچھ کمپنیاں اس قانون سے سب سے زیادہ مستفید ہوئی ہیں۔

ٹی ایس ایم سی کو ایریزونا میں پلانٹس کے لیے 6.6ارب ڈالر کی گرانٹ اور قرضے ملے جبکہ سام سنگ کو ٹیلر، ٹیکساس میں ایک تنصیب کے لیے ایک اندازے کے مطابق 6 ارب ڈالر مل رہے ہیں۔

ٹی ایس ایم سی نے ٹرمپ کے ساتھ مل کر امریکہ میں مزید 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جس کے علاوہ تین پلانٹس کے لیے 65 ارب ڈالر کا وعدہ کیا گیا ہے۔

چپ کی پیداوار میں تنوع ٹی ایس ایم سی کے لیے بھی کار آمد ہے ایسے میں جب چین نے بار بار تائیوان جزیرے کا کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔

لیکن ٹی ایس ایم سی اور سام سنگ دونوں کو اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں بڑھتی ہوئی لاگت، ہنرمند مزدوروں کی بھرتی میں دشواری، تعمیراتی تاخیر اور مقامی یونینوں کی مزاحمت شامل ہیں۔

مارکیٹ انٹیلی جنس فرم کاؤنٹر پوائنٹ کے ریسرچ ڈائریکٹر مارک آئنسٹائن کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف ایک فیکٹری نہیں ہے جہاں آپ باکس بناتے ہیں۔ چپس بنانے والی فیکٹریوں میں ہائی ٹیک جراثیم سے پاک ماحول کی تعمیر میں برسوں لگ جاتے ہیں۔‘

امریکی سرمایہ کاری کے باوجود ٹی ایس ایم سی نے کہا ہے کہ اس کی زیادہ تر مینوفیکچرنگ تائیوان میں رہے گی خاص طور پر اس کی جدید ترین کمپیوٹر چپس۔

Getty Imagesکیا چین نے تائیوان کی طاقت چرانے کی کوشش کی؟

آج ایریزونا میں ٹی ایس ایم سی کے پلانٹ اعلی معیار کی چپس تیار کرتے ہیں۔

لیکن ’چپ وار: دی فائٹ فار دی ورلڈز موسٹ کریٹیکل ٹیکنالوجی‘ کے مصنف کرس ملر کا کہنا ہے کہ ’تائیوان میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے پیچھے ایک نسل ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سوال اس بات پر منحصر ہے کہ امریکہ بمقابلہ تائیوان میں کتنی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اس وقت تائیوان کے پاس کہیں زیادہ صلاحیت ہے۔‘

حقیقت یہ ہے کہ تائیوان کو اس صلاحیت کو بڑھانے میں کئی دہائیاں لگ گئیں اور چین کی جانب سے اس صنعت میں تائیوان کی طاقت کو چوری کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرنے کے خطرے کے باوجود، یہ پھل پھول رہی ہے۔

ٹی ایس ایم سی ’فاؤنڈری ماڈل‘ کا بانی تھا جہاں چپ بنانے والوں نے امریکی ڈیزائن لیے اور دیگر کمپنیوں کے لیے چپس تیار کیں۔

ایپل، کوالکوم اور انٹیل جیسے سلیکون ویلی سٹارٹ اپس کی بدولت ٹی ایس ایم سی بہترین انجینئرز، انتہائی ہنر مند مزدوروں اور معلومات کے باعث امریکی اور جاپانی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا۔

مارکیٹ انٹیلی جنس فرم کاؤنٹر پوائنٹ کے ریسرچ ڈائریکٹر مارک آئنسٹائن کا کہنا ہے کہ ’کیا امریکہ چپس بنا سکتا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے؟ یقناً لیکن کیا وہ چپس کو نینو میٹر تک لے جائیں گے؟ شاید نہیں۔‘

اس کی ایک وجہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی ہے جو ممکنہ طور پر چین اور انڈیا سے ہنرمند افراد کی آمد کو محدود کر سکتی ہے۔

آئنسٹائن نے امریکہ کے ایچ ون بی ون ویزا پروگرام کے لیے مسک کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں تک کہ ایلون مسک کو بھی ٹیسلا کے انجینئرز کے ساتھ امیگریشن کا مسئلہ درپیش ہے۔ یہ ایک رکاوٹ ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے، جب تک کہ وہ امیگریشن کے بارے میں اپنا موقف مکمل طور پر تبدیل نہیں کرتے۔ آپ جادو سے پی ایچ ڈی نہیں لا سکتے۔‘

Getty Imagesٹی ایس ایم سی نے امریکہ میں چپ کی تیاری میں سرمایہ کاری کی ہےعالمی سطح پر اثرات

اس کے باوجود ٹرمپ نے سیمی کنڈکٹر سیکٹر میں قومی سلامتی کی تجارتی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے محصولات میں دوگنا اضافہ کیا ہے۔

آئنسٹائن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک رکاوٹ ہے، بہت بڑی رکاوٹ۔‘

’مثال کے طور پر جاپان اپنی معاشی بحالی کی بنیاد سیمی کنڈکٹر پر رکھ رہا تھا اور ٹیرف اس کاروباری منصوبے میں شامل نہیں تھے۔‘

ملر کے مطابق، صنعت پر طویل مدتی اثرات کے تحت دنیا کی کئی اہم معیشتوں جیسے چین، یورپ اور امریکہ میں ملک کے اندر ہی مینوفیکچرنگ پر توجہ مرکوز کیے جانے کا امکان ہے۔

کچھ کمپنیاں نئی مارکیٹوں کی تلاش کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے یورپ اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں بشمول تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائیشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں ایکسپورٹ کنٹرول اور ٹیرف کے سامنے پھیل گئی، حالانکہ ترقی پذیر ممالک میں مارجن بہت کم ہے۔

آئنسٹائن کا کہنا ہے کہ ’چین بالآخر جیتنا چاہتا ہے۔ اسے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں جدت اور سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ دیکھیں کہ اس نے ڈیپ سیک کے ساتھ کیا کیا۔‘

’اگر وہ بہتر چپس بناتے ہیں، تو ہر کوئی ان کے پاس جائے گا۔ لاگت کا اثر ایک ایسی چیز ہے جو وہ اب کر سکتے ہیں، اور یہ الٹرا ہائی ٹیک فیبریکیشن ہے۔‘

اس دوران نئے مینوفیکچرنگ مراکز ابھر سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں انڈیا کے چپ سپلائی چین میں ضم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر قریب ہے، لیبر سستی ہے اور تعلیم اچھی ہے۔

انڈیا نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ چپ مینوفیکچرنگ کے لیے تیار ہے، لیکن اسے فیکٹریوں کے لیے زمین کے حصول اور پانی سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ چپ کی پیداوار کو اعلی معیار کے پانی اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

Getty Imagesچپس پر سودے بازی

چِپ کمپنیاں مکمل طور پر ٹیرف کے رحم و کرم پر نہیں ہیں۔

مائیکروسافٹ، ایپل اور سسکو جیسی بڑی امریکی کمپنیوں کی جانب سے چپس کی طلب اور انحصار ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ چپ سیکٹر پر عائد کسی بھی ٹیکس کو واپس لے لیں۔

کچھ اندرونی ذرائع کا خیال ہے کہ ایپل کے سی ای او ٹم کک کی شدید لابنگ نے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک ٹیرف سے استثنیٰ حاصل کیا اور ٹرمپ نے مبینہ طور پر لابنگ کے نتیجے میں این ویڈیا کی چین کو فروخت کی جانے والی چپس پر عائد پابندی اٹھا لی۔

پیر کے روز اوول آفس میں ایپل کی مصنوعات کے بارے میں خصوصی طور پر پوچھے جانے پر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں بہت لچکدار شخص ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’شاید چیزیں سامنے آئیں گی، میں نے ٹم کک سے بات کی، میں نے حال ہی میں ٹم کک کی مدد کی۔‘

آئنسٹائن کا خیال ہے کہ ’ٹرمپ انتظامیہ وہی کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس نے ٹک ٹاک کے مالک کے ساتھ کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کو اس وقت تک امریکہ میں کام نہیں کرنے دوں گا جب تک کہ آپ اوریکل یا کسی اور امریکی کمپنی کو حصص نہیں دیں گے۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ وہ یہاں کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹی ایس ایم سی کہیں نہیں جائے گا چلو انھیں انٹیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور کریں۔‘

لیکن ایشیا سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم کے بلیو پرنٹ میں ایک قابل قدر سبق ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے طور پر چپ کی صنعت کو نہیں چلا سکتا اور اگر آپ جدید سیمی کنڈکٹر کو مؤثر طریقے سے اور بڑے پیمانے پر بنانا چاہتے ہیں تو اس میں وقت لگے گا۔

ٹرمپ تحفظ پسندی اور تنہائی کے ذریعے چپ انڈسٹری بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ جس چیز نے پورے ایشیا میں چپ انڈسٹری کو بنایا وہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا راز ہے عالمی معیشت میں تعاون۔

ٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟چین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟روایت شکن ڈونلڈ ٹرمپ 2025 کو تاریخی سال بنانے کی راہ پر کیسے گامزن ہیں؟ٹرمپ کا ’یوم آزادی‘ اور پاکستان سمیت 100 ممالک پر نئے ٹیرف کا اعلان جسے ’عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل‘ قرار دیا گیاٹرمپ کی ’ٹیرف وار‘ جس سے انڈیا کو دیگر ملکوں کی نسبت ’زیادہ نقصان‘ کا خدشہ ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More