پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلگام واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔ سرحدوں پر کشیدگی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، سرحدی علاقوں کے باسیوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور پاکستان کے سرکاری حکام کے مطابق دونوں ملکوں کےدرمیان جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
تاہم اگر آپ پاکستان میں سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو وہاں پاکستان انڈیا کے درمیان ممکنہ جنگ کے موضوع کو لے کر جو میم بنائے جا رہے ہیں ان سے ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ ’ایسا کوئی خطرہ نہیں‘ یا انڈیا ’ایسا کر ہی نہیں سکتا‘ یا پھر یہ کہ ’پاکستانی جنگ کے منتظر ہیں۔‘
سوشل میڈیا کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ پاکستان کے لوگ ممکنہ جنگ کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
اس کے برعکس پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی تیاری کر لی ہے کیونکہ اب یہ خطرہ بہت قریب محسوس ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں حکمت عملی کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کرنا ضروری تھے جو کر لیے گئے ہیں۔‘
پاکستان کے وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ پاکستان کی فوج نے حکومت کو ممکنہ انڈین حملے کے خطرے سے آگاہ کر دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان ہائی الرٹ پر ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال اس صورت میں کیا جائے گا جب پاکستان کا وجود براہ راست خطرے میں ہو۔
دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر انڈیا اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان گذشتہ چند روز سے کئی مقامات پر شدید فائرنگ اور گولہ باری کی گئی ہے۔ ان علاقوں میں سرحد کے قریب رہنے والے لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
سرحدی علاقوں سے کئی ایسی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئی ہیں جہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ بارڈر کے قریب کے زرعی علاقوں میں کسان جلدی اور اجلت میں فصلیں کاٹ رہے ہیں۔
منگل کے روز پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے انڈین کواڈ کاپٹر کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ریڈیو کے مطابق ’یہ کواڈ کاپٹر بھمبھر کے علاقے مناور سیکٹر میں جاسوسی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟ایل او سی پر فائرنگ سے دونوں اطراف کے شہری خوفزدہ: ’کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اسی لیے ہم بنکر بنا رہے ہیں‘ٹرمپ اور کشمیر کا ڈیڑھ ہزار سال پرانا مسئلہ
پہلگام واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں کشیدگی تاحال بڑھ رہی ہے، کم نہیں ہو رہی۔ تاہم پاکستان کا سوشل میڈیا اس انتہائی سنگین صورتحال کو بھی ’میم گیم‘ کا حصہ بنا رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ آخری مرتبہ سنہ 1971 میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو اپنا ایک حصہ کھونا پڑا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔
محدود پیمانے پر ایک چوتھی جنگ سنہ 1999 میں کارگل کے مقام پر بھی لڑی گئی جس میں پہلی مرتبہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خدشات کھل کر دنیا کے سامنے آئے۔ تاہم ان تمام مواقع پر سوشل میڈیا کا رجحان موجود نہیں تھا۔
سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں میں بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جنھوں نے اپنی زندگیوں میں پہلے کبھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ نہیں دیکھی۔ تو کیا سوشل میڈیا صارفین معاملے کی حساسیت کو نہ سمجھتے ہوئے غیر سنجیدہ رویے کے مرتکب ہو رہے ہیں؟
پاکستان پر ممکنہ انڈین حملے کے خطرے جیسی صورتحال میں کیا سوشل میڈیا کا نسبتاً نیا رجحان کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کیا یہ کشیدگی کو کم کرتا ہے یا بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے؟
جنگ کو لے کر سوشل میڈیا پر ’میم گیم‘
پاکستان میں مخلتف سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ فیس بک، ایکس ڈاٹ کام، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام وغیرہ پر گزشتہ چند روز میں پاکستان انڈیا ممکنہ جنگ کے موضوع کو لے کر بیش بہا میم سامنے آ رہے ہیں۔
کئی ویڈیوز ایسی سامنے آئی ہیں جن میں انڈیا کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو مذاق اڑایا گیا ہے۔ ان میں ایک پانی کا مسئلہ ہے۔ پہلگام حملے کے دوسرے روز انڈیا نے پاکستان کے خلاف جن اقدامات کا اعلان کیا تھا ان میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا بھی شامل تھا۔
اس کے بعد اس خطرے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انڈیا پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو روک سکتا ہے یا اس کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔
اس پر سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ جس میں صارفین اس دھمکی کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ’پانی بند ہو گیا تو میں نہاؤں گا کیسے۔‘
ایک ویڈیو میں صارف کہہ رہے ہیں کہ ’چلو اچھا ہے اس طرح گوالا دودھ میں پانی نہیں ملائے گا، ہمیں خالص دودھ ملے گا۔‘
ایکس پر ایک صارف صبا بشیر نے لکھا ’اتنی گرمی میں کوئی ولیمہ نہیں رکھتا، انھوں نے جنگ رکھ لی ہے۔‘
ایک اور صارف ارم نے لکھا ’ڈیئر انڈینز اگر کراچی پر حملہ کرنا ہو تو موبائل فونز انڈیا میں ہی چھوڑ کر آنا۔‘ ان کا اشارہ کراچی میں بظاہر موبائل فون چھیننے کے واقعات کی طرف تھا۔
’ابھی تک انڈیا کا بھیجا ہوا میزائل آیا نہیں‘
بہت سے صارفین نے پاکستان کی آرمی کی پوش ہاوسنگ سکیم ڈفینس ہاوسنگ یعنی ڈی ایچ اے کو لے کر بھی کافی میم بنائے ہیں جن میں ڈی ایچ اے گوا اور ڈی ایچ اے ممبئی کا لے آوٹ پلان دیا گیا ہے۔
ایک انڈین صارف کی طرف سے ایک کامنٹ میں لکھا گیا کہ ’پاکستان کو نقشے سے مٹانے کا وقت آ گیا ہے‘، اس پر جواب میں ایک پاکستانی صارف عبداللہ نے ایک پنسل کی تصویر بنا کر ساتھ لکھا ’میں پھر ڈرا کر {بنا لوں} لوں گا۔‘
ایک اور پوسٹ میں ایک صارف نے ایک تصویر لگائی جس میں ایک شخص کو ہاتھ باندھےانتظار میں کھڑا دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے کان میں ہیبسکس کا لال رنگ کا پھول لگا ہے۔ اس پر کیپشن میں درج ہے ’ابھی تک انڈیا کا بھجوایا ہوا میزائل آیا نہیں۔‘
پاکستان کی اس ’میم گیم‘ پر ایک انڈین صارف سڈ شرما نے بھی کچھ میمز کے سکرین شاٹس لگا کر لکھا ’ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا ’مزاح کی جنگ‘ میں بُری طرح جنگ ہار رہا ہے۔‘
اسی طرح انڈیا کی حکمراں جماعت بے جی پی کی ایک ایکس اکاؤنٹ نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کرنے والے ایک شخص کو سراہا۔ اس شخص نے انڈیا کی طرف سے پانی بند کیے جانے پر ہاتھ میں پانی کی بوتل اٹھائے طنز کیا تھا۔
جنگ کا خطرہ مگر صارفین غیر سنجیدہ کیوں؟
دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ انڈیا کی طرف سے آنے والے دنوں میں کوئی محدود فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
’اس کے بعد پاکستان اس کا جواب دے گا اور وہ جواب کس قسم کا ہو گا اور کس نوعیت کا ہو گا اور اس کے بعد کشیدگی میں کس طرح اور کتنا اضافہ ہو گا اس کی پشین گوئی کرنا اس وقت مشکل ہے تاہم یہ امکان موجود ہے کہ انڈیا کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔‘
ڈاکڑ حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے طور پر پہلے کوئی کارروائی نہیں کرے گا لیکن اگر انڈیا کی طرف سے کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کے جواب میں پاکستان کارروائی کر سکتا ہے۔
ان کے خیال میں ایسی صورت میں تنازعہ بڑھنے یا ایسکیلیٹ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
ڈاکڑ حسن عسکری رضوی کے خیال میں اس وقت کشیدگی کو کم کرنے کے لیے یا ڈی ایسکیلیشن کی طرف جانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ممالک جو انڈیا پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ انڈیا سے بات چیت کریں اور صورتحال میں پائے جانے والے تناؤ کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔
تو کیا سوشل میڈیا تناؤ کی اس صورتحال پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
تجزیہ کار ڈاکڑ حسن عسکری رضوی کے خیال میں ’سوشل میڈیا کیونکہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتا اس لیے وہ ایسی صورتحال میں براہ راست اثر انداز نہیں ہوتا۔‘
’وہ ایسکیلیشن یا ڈی ایسکیلیشن میں تو کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا لیکن سوشل میڈیا پر جنگ جیسے معاملے کو لے کر غیر سنجیدہ قسم کا بحث مباحثہ تناؤ کی صورتحال پر مزید برا اثر ڈالتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نا صرف پاکستان کے سوشل میڈیا بلکہ انڈیا کی طرف سے بھی سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا پر بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ قسم کا رویہ اپنایا گیا ہے۔‘
ڈاکڑ حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ حکومتیں اس قسم کے سوشل میڈیا کے رویے کو مکمل طور پر بند تو نہیں کر سکتیں اور نہ روک سکتی ہیں ’تاہم انھیں چاہیے کہ جنگ جیسے سنگین معاملے پر ایسے غیر سنجیدہ رویے کی حوصلہ شکنی کریں۔‘
خیال رہے کہ حال ہی میں انڈیا میں حکومت نے کئی پاکستانی یوٹیوبرز اور کئی پاکستانی ٹی وی اداروں کے یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کی ہے۔
پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟ایل او سی پر فائرنگ سے دونوں اطراف کے شہری خوفزدہ: ’کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اسی لیے ہم بنکر بنا رہے ہیں‘ٹرمپ اور کشمیر کا ڈیڑھ ہزار سال پرانا مسئلہپاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟پہلگام جیسے معروف سیاحتی مقام پر کوئی انڈین فوجی یا پولیس اہلکار کیوں موجود نہیں تھا؟ وہ سوال جو اس معاملے کو پیچیدہ بنا رہے ہیں