لنڈی کوتل میں خواتین کی پہلی کُھلی کچہری، ’بات کرنے کا موقع ملنا ہی حیرت انگیز ہے‘

اردو نیوز  |  Apr 30, 2025

پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کی کُھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا، جس میں انہوں نے اپنے مسائل اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کیے۔

بدھ کو ضلعی انتظامیہ اور تحصیل چیئرمین کے تعاون سے لنڈی کوتل کے جرگہ ہال میں علاقائی روایات اور ثقافت کے اندر رہتے ہوئے یہ کھلی کچہری منعقد ہوئی، جس میں تقریباً 30 خواتین نے شرکت کی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ لنڈی کوتل میں خواتین کے اس جرگے کا انعقاد ان مسائل سے بھی زیادہ اہم ہے جن پر جرگے میں بات چیت کی گئی کیونکہ خواتین کو ’قدامت پسند‘ قبائلی معاشرے میں بات کرنے کا موقع ملنا ہی حیرت انگیز ہے۔

قبائلی معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہاں خواتین گھر کی چار دیواری تک محدود رہتی ہیں، وہ اپنے حقوق یا مسائل پر بات نہیں کر سکتیں، اور شاذ ہی انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس کھلی کچہری میں خواتین نے صحت، خواتین ڈاکٹروں کی کمی، گرلز سکولوں میں اساتذہ کی عدم دستیابی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم لینے والی خواتین کی مشکلات، ٹرانسپورٹ اور پانی کی قلت اور سپلائی کے مسائل پر بات کی۔

ثمرین جو لنڈی کوتل کے ایک گاؤں کی کونسلر ہیں، نے کھلی کچہری کی توجہ منشیات کے استعمال کی جانب دلائی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں نوجوان منشیات کا استعمال کرنے لگے ہیں اس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

ثمرین نے کہا کہ ایسے بچے بھی دیکھے گئے ہیں، جو سکول میں منشیات ساتھ لا رہے ہیں۔

اس کچہری میں کچھ ایسی خواتین بھی شامل تھیں جو پہلی مرتبہ کسی ایسی تقریب میں شریک ہو رہی تھیں، اور بات کرنے سے ہچکچا رہی تھیں، تاہم دیگر خواتین کو پراعتماد انداز میں بات کرتے دیکھ کر انہیں بھی حوصلہ ملا۔

اردو نیوز کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ایک گھریلو خاتون نے بتایا کہ انہوں نے کچہری میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والی رقم سے متعلق بات کی کیونکہ ان تک یہ رقم مکمل طور پر نہیں پہنچتی، کیونکہ درمیان کے لوگ ’چائے پانی‘ کے نام پر ان سے رقم کاٹ لیتے ہیں۔

شاہ خالد شینواری کے مطابق مقامی سطح پر ایسا کوئی پلیٹ فارم ہونا چاہیے تھا جہاں خواتین بلا خوف و خطر اپنی بات کر سکتیں (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے حاصل کرنے کے لیے ان کو دور دراز کے مراکز تک جانا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف شدید رش ہوتا ہے بلکہ بیٹھنے کا مناسب انتظام بھی نہیں ہوتا۔

انسدادِ پولیو ٹیم کی ورکر عفت نے کہا کہ جب وہ طورخم بارڈر پر ڈیوٹی کے لیے جاتی ہیں، تو ٹرانسپورٹ کا انتظام انہیں خود کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب بارڈر بند ہوتا ہے، تو اس کی وجہ سے مکمل تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں مکمل تنخواہ دی جائے، اور ٹراسپورٹ فراہم کی جائے، کیونکہ ہمیں خود ٹراسپورٹ کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔‘

15  برس سے اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تحصیل چیئرمین لنڈی کوتل شاہ خالد شینواری کا خیال ہے کہ مقامی سطح پر ایسا کوئی پلیٹ فارم ہونا چاہیے تھا جہاں خواتین بلا خوف و خطر اپنی بات کر سکتیں۔

وہ اپنے علاقے کے گلی محلوں میں جا کر لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ لنڈی کوتل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر خواتین کی کھلی کچہری کا انعقاد کیا۔

’میری خواہش تھی کہ خواتین کے مسائل سننے کے لیے انہیں ایک ایسا فورم فراہم کیا جائے جہاں وہ کھل کر اپنے مسائل بیان کر سکیں اور ان کی آواز متعلقہ حکام تک پہنچ سکے۔ اور اس کے جواب میں ترقیاتی سکیمیں تیار کی جاسکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آج توقع کے خلاف خواتین نے کھلی کچہری میں شرکت کی ہے، انہوں نے سوالات کیے، اس طرح کے اجتماعات کی ضرورت ہے۔ خواتین سامنے آئیں، اور اپنے مسائل بیان کیے۔ خواتین کی آواز شامل نہیں ہوگی تو قوموں کا ترقی کرنا ممکن نہیں۔‘

اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ ’ہمارا پلان ہے کہ ایسی مزید کھلی کچہریوں کا اہتمام ہو۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)صحافی راحت شینواری کا کہنا ہے کہ ’مرد خواتین کے مسائل کی ترجمانی نہیں کر سکتے، خواتین اپنی آواز بلند کر سکتی ہیں اور اپنے مسائل پر بات بھی کر سکتی ہیں، ان کو سامنے آنے کا موقع دینا چاہیے۔‘

خواتین کی کھلی کچہری کا انعقاد ایک مثبت اقدام

لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ کمشنر عدنان خٹک نے اردو نیوز کو بتایا کہ خواتین کی کھلی کچہری کا انعقاد کرنا پہلا تجربہ اور مثبت اقدام تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم جو چاہ رہے تھے، وہ نتیجہ تو حاصل نہیں ہوا، لیکن پھر بھی لنڈی کوتل جیسے قدامت پرست معاشرے میں 30 سے 35 خواتین نے اس میں شرکت کی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین پر گھریلو تشدد، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور صحت سمیت دیگر مسائل کے سامنے آنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ خواتین کے لیے کھلی کچہری کا انعقاد کیا جائے۔

’آنے والے دنوں میں ہمارا پلان ہے کہ ایسی مزید کھلی کچہریوں کا اہتمام ہو اور اس میں 100 خواتین شرکت کریں۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More