انڈیا کی جانب سے پاکستان میں میزائل حملوں کے بعد وقفے وقفے سے ڈرونز گرائے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ ڈرونز انڈین ساختہ ہیں تاہم ابھی ان کے ملبے پر مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی فوج ترجمان لیفٹینینٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ 12 انڈین ’ہیرپ‘ ڈرونز پاکستان کی حدود میں گرائے گئے ہیں۔
ترجمان کے مطابق ان ڈرونز کا ملبہ صوبہ سندھ کے علاقے میانو، چھور اور کراچی جبکہ صوبہ پنجاب کے علاقوں راولپنڈی، گوجرانوالہ، اٹک، بہالپور اور چکوال سے ملا ہے۔ لاہور کے قریب بھی ایک انڈین ڈرون گرا ہے۔
ان ڈرونز کی شروعات 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات اس وقت ہوئی جب سیالکوٹ ورکنگ باونڈری کے ساتھ ملحقہ ایک بیسک ہیلتھ یونٹ پر تین مسلح ڈرون حملہ آور ہوئے تاہم تینوں ڈرونز پے لوڈ ریلیز کرنے سے پہلے ہی بظاہر سگنلز جام ہونے سے گر گئے۔
بدھ کے روز پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے مقامی صحافیوں کو اس جگہ کا معائنہ بھی کروایا اور ان ڈرونز کی باقیات بھی دکھائیں۔ بدھ کی رات تک سرکاری طور پر انڈین ڈرونز کی جو تعداد بتائی گئی وہ 7 تھی۔
تاہم رات گئے انڈیا کی جانب سے مزید ڈرونز پاکستان میں بھیجے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نوید احمد کے مطابق ’رات پونے چار بجے ایک انڈین مسلح ڈرون گوجرانولہ کے حدود میں آیا جس کو فوج کے دفاعی نظام نے اسی وقت نیوٹرل کر دیا۔ آج صبح اس کا ملبہ سولکھن آباد گاؤں کے کھیتوں سے برآمد کر لیا گیا ہے۔‘
جبکہ گوجرانوالہ میں ہی جمعرات کی صبح ایک اور ڈرون ٹوکریاں کے علاقے میں گرایا گیا جس کی تصدیق پولیس نے کی ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق ڈرون کا ملبہ کھاریاں کے قریب سے بھی ملا ہے۔ فوٹو: پولیس
لاہور میں جمعرات کی صبح والٹن کے علاقے میں تین دھماکوں کی آواز سنی گئیں جس کے بعد سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ انڈیا کا ایک سٹیلتھ ڈرون جو ریڈار سے بچ کر لاہور کے حساس علاقوں میں موجود تھا اسے مار گرایا گیا ہے۔
تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈرون چھ سے سات فٹ لمبا تھا۔ اسی طرح سے برکی کے علاقے میں بھی ایک دھماکے کی آواز سنی گئی تاہم اس حوالے سے ابھی کوئی معلومات نہیں ہیں۔
اسی طرح چکوال کے علاقے میں بھی جمعرات کی صبح تھانہ ڈھمن کی حدود میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی اور سائرن بھی بجے جس کے بعد کھیتوں میں ایک ڈرون تباہ شدہ حالت میں پایا گیا تاہم یہاں سے بھی کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے علاقے میں ایک ڈرون گرا ہے جس کی وجہ سے زخمی ہونے والا ایک کسان جان سے چلا گیا۔
جدید دور میں جنگ کا چہرہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اب افواج صرف توپ، بندوق یا ٹینک پر انحصار نہیں کرتیں بلکہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والی فضائی گاڑیاں، جنہیں عام طور پر ’ڈرون‘ کہا جاتا ہے، جنگی حکمت عملی کا مرکزی جزو بن چکی ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال شدت سے ہو رہا ہے۔ انڈین فوج، فضائیہ اور بحریہ اب مقامی اور غیر ملکی ساختہ جدید ڈرونز سے لیس ہیں جنہیں نگرانی، معلومات اکٹھا کرنے، اور بعض صورتوں میں مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق انڈین ہیرپ ڈرونز پاکستان کی حدود میں گرائے گئے۔ فوٹو: وکیپیڈیا
انڈیا کے سب سے نمایاں اسرائیلی ساختہ ڈرونز
معلومات کے مطابق انڈیا کے سب سے نمایاں ڈرونز میں اسرائیل سے حاصل کردہ ’ہیرون‘ اور ’سرچر‘ شامل ہیں جو طویل وقت تک فضاء میں رہ کر حساس مقامات کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ ان میں جدید سینسر نصب ہوتے ہیں جو دن یا رات، ہر وقت ہدف کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی ساختہ ’ہارپ‘ نامی ڈرون خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جو ایک خودکش فضائی ہتھیار ہے اور دشمن کے ریڈار یا کمانڈ و کنٹرول مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ڈرون فضا میں کئی گھنٹے چکر لگاتا ہے اور جیسے ہی کسی مخصوص برقی سگنل کو شناخت کرتا ہے، خود کو اسی مقام پر گرا کر دھماکہ کر دیتا ہے۔
ان کے علاوہ انڈیا مقامی سطح پر بھی رسٹم۔ سوئفٹ اور گھاتک جیسے جدید اور خفیہ خصوصیات سے لیس ڈرون تیار کر رہا ہے۔
ڈرونز، آج کی جنگ کا نیا چہرہ
دفاعی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی کے مطابق ’ڈرونز آج کی جنگ کا نیا چہرہ بن چکے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دشمن کی آنکھوں سے بچ کر اس کے اندرونی نظام کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تاہم انہیں مؤثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے صرف اسلحہ کافی نہیں بلکہ مربوط معلوماتی نظام اور اعلیٰ کمانڈ کی موجودگی بھی ضروری ہے۔‘
سٹریٹجک امور کے ماہر اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ ’ڈرونز نے عسکری طاقت کے روایتی تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک کمزور ملک بھی اگر جدید ڈرونز حاصل کر لے تو وہ طاقتور فوجوں کو چیلنج دے سکتا ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ممالک کے پاس ڈرون حملوں کے خلاف دفاعی صلاحیت بھی موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈین ڈرونز اب تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے اور متعدد بار تباہ کیے جا چکے ہیں۔‘
نگرانی سے معلومات اکھٹے کرنے تک، ڈرونز کی اقسام اور ان کا مقصد
ڈرونز کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ڈرونز وہ ہیں جو نگرانی اور معلومات اکٹھی کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ڈرونز ہلکے وزن کے ہوتے ہیں اور لمبے وقت تک پرواز کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کے ذریعے دشمن کی چالوں، اسلحے کے ذخائر، قافلوں اور چھپی ہوئی تنصیبات کی نگرانی کی جاتی ہے۔ بعض ڈرونز جیسے امریکی ساختہ ’ایم کیو-9 ریپر‘ مہلک ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اور میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس شہری زندگی میں استعمال ہونے والے ڈرونز جیسے زرعی سپرے، فضائی ویڈیو سازی، یا ہنگامی امداد پہنچانے والے خودکار فضائی آلات مکمل طور پر غیر مہلک ہوتے ہیں۔
کیا دشمن کی جانب سے بھیجے گئے ڈرون کو روکا جا سکتا ہے؟
اگر کوئی ڈرون دشمن کی طرف سے بھیجا جائے تو اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب جدید ’ڈرون شکن‘ ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔
ایک طریقہ ریڈیو فریکوئنسی جامنگ ہے جس میں ڈرون کے مواصلاتی سگنلز کو روک کر اسے بے اثر کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ ’جی پی ایس اسموفنگ‘ کہلاتا ہے، جس کے ذریعے ڈرون کو غلط مقام کی معلومات دے کر اس کی سمت بھٹکائی جاتی ہے۔
بعض جدید نظام جیسے اسرائیل کا ’ڈرون ڈوم‘ یا برطانیہ کا ’سکائی وال‘ براہِ راست لیزر شعاعوں یا جال پھینکنے والے آلات سے ڈرونز کو گرا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ڈرون کی کمانڈ و کنٹرول لائن کو منقطع کیا جائے۔ جب یہ رابطہ ٹوٹتا ہے تو ڈرون یا تو زمین پر آ جاتا ہے یا خودکار نظام کے تحت اپنی اصل جگہ لوٹ جاتا ہے۔
پاکستان بھی دشمن ڈرونز کے خلاف دفاعی ٹیکنالوجی پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔ پاکستان آرمی اور فضائیہ نے حالیہ برسوں میں ڈرون شکن نظاموں کے ضمن میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔
پاکستانی دفاعی ادارے شاہین-III جیسے ریڈار نظام اور لیزر ٹیکنالوجی پر مشتمل ہتھیاروں پر تجربات کر رہے ہیں جو زمین سے دشمن کے چھوٹے ڈرونز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
پاکستان اب روایتی دفاع سے آگے بڑھ کر برقی جنگ اور سائبر دفاع کی جانب بھی توجہ دے رہا ہے۔
پاکستان نے چین کے تعاون سے بھی بعض جدید نظام حاصل کیے ہیں جن میں ’سائلنٹ ہنٹر‘ جیسے لیزر ڈرون شکن نظام شامل ہیں جو کمرشل یا خودکش فضائی مشینوں کو فوری طور پر نشانہ بنا سکتے ہیں۔
کراچی، گوادر اور دیگر حساس علاقوں میں ریڈیو جامنگ اور جی پی ایس سموفنگ جیسے نظام نصب کیے جا چکے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی فضائی دراندازی کو روکا جا سکے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر رضوان اسلم کے مطابق ’پاکستان نے صرف ہارڈ ویئر نہیں بلکہ سافٹ ویئر کے میدان میں بھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں مصنوعی ذہانت، خودکار ردعمل کے الگورتھم اور تیز رفتار فیصلہ سازی کے نظام شامل ہیں۔ یہی عوامل دشمن کے ڈرونز کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔‘