’ہر طرف موت اور تباہی تھی‘: جب آپریشن بلیو سٹار کے بعد تعفن زدہ لاشیں ’شراب پلا کر اٹھوائی گئیں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 07, 2025

Getty Images

اس مضمون میں کچھ تفصیلات قاریئن کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

’میں اس کے بعد دربار صاحب کے قریب کے علاقے میں بھی نہیں گیا ہوں۔ وہ ہولناک منظر اور انسانی لاشوں کے سڑنے کی بدبو آج بھی مجھے ستاتی ہے۔‘

سری ہرمندر صاحب، امرتسر سکھوں کا اعلیٰ ترین روحانی مقام ہے۔ اسے گولڈن ٹیمپل اور دربار صاحب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص امرتسر کا رہنے والا ہو کر 41 سال بعد بھی سری ہرمندر صاحب کمپلیکس جانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے حالات نے اس شخص کے دل و دماغ پر کیا اثرات مرتب کیے ہوں گے۔

یہ امرتسر میونسپل کارپوریشن میں صفائی کرنے والے سابق اہلکار 73 سالہ کیول کمار ہیں۔

کیول کمار وہ شخص ہیں جو ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے بعد ہرمندر صاحب کمپلیکس کے اندر اور اس کے اردگرد لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے ذمہ دار تھے۔

جون 1984 کے پہلے ہفتے میں دربار صاحب کمپلیکس پر انڈینفوج کا حملہ ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انڈین حکومت کے دعوے کے مطابق یہ فوجی آپریشن جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اور ان کے مسلح ساتھیوں کو دربار صاحب کمپلیکس سے بے دخل کرنے کے لیے کیا گیا۔

جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اس وقت سکھ مذہب کی تبلیغ کرنے والی تنظیم دمدمی ٹکسال کے سربراہ تھے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ بھنڈرانوالے نے مسلح کمپلیکس کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور وہ ایک علیحدہ ملک خالصتان کا اعلان کرنے والے تھے لیکن بہت سے سکھ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حملہ اندرا گاندھی حکومت کی پولرائزنگ سیاست کا نتیجہ تھا۔

حکومتی وائٹ پیپر کے مطابق ’آپریشن بلیو سٹار‘ میں 493 شہری اور 83 فوجی مارے گئے۔ سینٹرل سکھ میوزیم میں حملے میں مرنے والوں کی فہرست میں 743 نام شامل ہیں۔

پنجاب پولیس کے اس وقت کے افسر اپار سنگھ باجوہ نے 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھوں نے خود 800 لاشیں گنیں جبکہ انسانی حقوق کے کارکن اندرجیت سنگھ جے جے اور کئی دیگر معروف صحافیوں اور سکالرز نے مرنے والوں کی تعداد 4000 سے 5000 بتائی۔

آپریشن بلیو سٹار کے دوران کی صورتحال

کیول کمار کا کہنا ہے کہ جب بلیو سٹار کا قتل عام ہوا تو ان کی عمر 32 سال تھی۔ سب انسپکٹر کے طور پر ریٹائر ہونے والے کیول کمار سے ہماری ملاقات امرتسر میونسپل کارپوریشن میں ان کے پرانے دفتر میں ہوئی۔

جیسے ہی انھوں نے اپنی آزمائش ہم سے شیئر کی، ان کے چہرے پر درد صاف ظاہر ہو رہا تھا، جیسے وہ اب بھی صورتحال کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچا رہے ہوں۔

کیول کمار کہتے ہیں کہ ’کہیں چار لاشیں تھیں، کہیں چھ اور کہیں آٹھ۔۔۔ گرم موسم تھا، لاشیں سڑ رہی تھیں، حالت بہت خراب تھی۔ لاشیں پھولی ہوئی تھیں۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’جب ہم لاشوں کو بازوؤں یا ٹانگوں سے پکڑتے اور اٹھاتے تو بدبو چاروں طرف پھیل جاتی۔‘

صفائی کے کارکنوں کی ضرورت کب اور کیوں تھی؟

پولیس نے سڑتی لاشوں کو اٹھانا چھوڑ دیا تھا۔ ایسے مشکل حالات میں فوج اور انتظامیہ نے لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے میونسپل صفائی کے کارکنوں کو تعینات کیا۔

کیول کمار کا کہنا ہے کہ 6 جون 1984 کی صبح فوج اور میونسپل کارپوریشن کے اہلکار انھیں اس کام کے لیے ان کے گھر سے لینے آئے۔

’میں باہر اپنے گھر کے صحن میں سو رہا تھا۔ فوج نے مجھے صبح 5 یا 5:30 بجے جگایا، ڈاکٹر راج پال بھاٹیہ کے ساتھ۔ میرا پاس وہیں بنا دیا گیا کیونکہ کرفیو نافذ تھا۔ کسی کو آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر ہمیں لاشیں اٹھانے کے لیے کچرے سے تین چار ٹرالیاں ملیں۔ دوپہر تک ہم نے لاشیں اٹھانے کا کام شروع کر دیا تھا۔‘

امرتسر کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر رمیش اندر سنگھ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر راجپال بھاٹیہ میونسپل کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ میں ہیلتھ آفیسر کے طور پر تعینات تھے۔ ان کی نگرانی میں کارپوریشن کے ملازمین کو لاشیں اٹھانے کے لیے بلایا گیا۔

رمیش اندر سنگھ نے آپریشن بلیو سٹار کے بارے میں ایک کتاب لکھی، جس میں کیول کمار کی فراہم کردہ معلومات جیسی بہت سی دوسری تفصیلات شامل ہیں۔

بی بی سی پنجابی کے ساتھ بات چیت کے دوران رمیش اندر سنگھ نے کہا کہ سری ہرمندر صاحب کمپلیکس میں 3 جون کو کرفیو نافذ ہونے کے بعد اموات ہونے لگیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب 6 جون کو آپریشن مکمل ہوا، تب تک لاشیں گلنا شروع ہو چکی تھیں۔ پھر پنجاب حکومت نے لاشیں نکالنے کی ذمہ داری میونسپل کارپوریشن کے کارکنوں کو سونپی۔ لاشوں کو ہٹانے کے انتظامات اس وقت کے میونسپل کمشنر گلونت سنگھ کی نگرانی میں کیے گئے تھے۔‘

’میں سو نہیں پاتا تھا‘BBCکیول کمار وہ شخص ہیں جو 'آپریشن بلیو سٹار' کے بعد ہرمندر صاحب کمپلیکس کے اندر اور اس کے ارد گرد لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے ذمہ دار تھے

لاشیں اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ منظر دیکھ کر ان کی نیندیں اڑ گئیں۔ انھیں اکثر مردے اپنے قریب نظر آتے۔ کبھی کبھی انھیں آوازیں بھی سنائی دیتیں اور کچھ کھانے پینے کو دل نہ کرتا۔

کیول کہتے ہیں کہ ’میں رات کو سو نہیں پایا۔ چار پانچ دن تک ایسا لگا کہ کوئی (مردہ) پاس کھڑا یا بیٹھا ہے۔‘ جب انھوں نے یہ کام کرنے سے انکار کیا تو انھیں شراب پلائی گئی، تھانوں سے شراب دی گئی اور نشے میں دھت ہو کر لاشیں اٹھا لی گئیں۔

کیول کمار کہتے ہیں کہ ’ویسے بھی عام حالات میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کر سکتا۔ کوئی جانے کو تیار نہیں تھا۔ ہم صفائی کے کارکن تھے، ہم حکم کی نافرمانی کیسے کر سکتے تھے؟‘

ایک اور صفائی کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گولڈن ٹیمپل کے قریب اکھاڑوں میں کشتی سیکھتے تھے۔

فوج نے انھیں یہ کام کرنے پر مجبور کیا لیکن وہ موقع ملتے ہی بھاگ کر چھپ گئے۔ وہ اس وقت بے روزگار تھے اور لاشیں اٹھانے کے بدلے میونسپل کارپوریشن میں مستقل ملازمت کی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے بھاگنا ہی بہتر سمجھا۔

ہم نے اس طرح کے کئی دیگر صفائی کارکنوں سے ملاقات کی لیکن انھوں نے اس معاملے پر کیمرے پر کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔

ان میں سے کئی نے آف دی ریکارڈ کہا کہ ہم پھنس گئے لیکن ہم پر لاشیں لوٹنے اور شراب پی کر دربار صاحب میں داخل ہونے کا الزام لگایا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی اس پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔

آپریشن بلیو سٹار: ایسا فوجی آپریشن جس کی قیمت چکانے کے لیے اندرا گاندھی کو اپنی جان دینی پڑی’مجھے عوام نہیں، دشمن سے لڑنے کی تربیت دی گئی‘: آپریشن بلیو سٹار کے سربراہ جنھیں جنرل ضیا مرتے دم تک آم اور کینو بھیجتے رہےآپریشن جبرالٹر جس کے ایک ماہ بعد انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیاجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیالاشیں کہاں سے ملیں اور انھیں کیسے اٹھایا گیا؟

کیول کمار کا کہنا ہے کہ لاشیں ہرمندر صاحب کمپلیکس کے اندر اور باہر بازاروں میں بھی ملیں۔ دربار صاحب میں صرف لاشیں تھیں۔

’دربار صاحب کے لنگر ہال میں بھی لاشیں پڑی تھیں۔ گندم خون میں لتھڑی ہوئی تھی۔‘

کیول کمار کے مطابق انھوں نے مائی سیوا بازار، کاٹھیان الی بازار، آٹا منڈی اور گھنٹہ گھر چوک سے بھی لاشیں اٹھائی تھیں۔ ان میں سے بہت سے عام عقیدت مند نظر آئے۔

کیول نے مزید بتایا کہ ان کے پاس انسانی لاشوں کو جانوروں کی طرح کچرے کے ڈھیروں میں پھینک کر لے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور نہ ہی انھیں انسانی لاشوں کو بچانے کے لیے کوئی کپڑا دیا گیا تھا۔

’ہمیں ہر روز اپنے منہ پر باندھنے کے لیے صرف دو میٹر کپڑا ملتا تاکہ ہم بدبو میں کام کر سکیں۔‘

کیول کمار نے بتایا کہ انھوں نے لاشوں کو فوج کی نگرانی میں اٹھایا تھا۔ فوج کے دو چار جوان تمام وقت ان کے ساتھ تھے۔

پورے شہر کو سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا تھا اور علاقے صفائی کے کارکنوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔ فوجی انھیں لاشوں تک لے جاتے اور وہ انھیں اٹھا کر ٹرالیوں میں لادتے۔

کیول کا کہنا ہے کہ لاشوں کو اکٹھا کرنے میں تین سے چار دن لگے۔ ایک ٹرالی پر تقریباً دس لاشیں لادی جاتیں۔ ان لاشوں کو لاد کر پوسٹ مارٹم کے لیے سرکاری میڈیکل کالج بھیج دیا جاتا۔

کیول کہتے ہیں کہ ’لاشوں سے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ پانی سے فرش دھونے کے بعد بھی بدبو نہیں جاتی تھی۔ ہمارے اپنے جسموں سے بدبو آنے لگی تھی۔‘

کیول کے مطابق لاشوں میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں۔

رمیش اندر سنگھ کے مطابق مرنے والے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی صحیح تعداد کا پتہ نہیں چل سکا کیونکہ صفائی کے کارکن بہت سی لاشوں کو سیدھے شمشان گھاٹ لے گئے۔

وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 7 سے 18 جون تک صرف 536 لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جن میں 495 مرد، 33 خواتین اور 8 بچے تھے۔

لاشوں میں ایک شخص زندہ نکلا

لاشوں کو اٹھانے کے آپریشن سے پہلے تمام زخمیوں کو ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا تاہم مرنے والوں میں سے کئی اب بھی زندہ تھے، جن میں سے کچھ بری طرح زخمی حالت میں تھے۔

کیول کمار کا کہنا ہے کہ جب وہ لاشیں اٹھا رہے تھے تو انھیں تھرا صاحب کے قریب ایک دو افراد زخمی حالت میں ملے جو پہلی نظر میں لاشیں لگ رہے تھے۔

کیول کہتے ہیں کہ ’مائی سیوا سے ٹھڈ صاحب کے راستے میں پانچ چھ لوگ مردہ پڑے تھے لیکن ان میں سے ایک یا دو ابھی تک زندہ تھے۔ فوج انھیں اپنے ساتھ لے گئی تھی۔‘

رمیش اندر سنگھ نے بھی تصدیق کی کہ اس وقت ایک زخمی شخص لاشوں کے ساتھ امرتسر میڈیکل کالج کے مردہ خانے میں پہنچا تھا۔ وہ مردہ معلوم ہوتا تھا۔

’جب ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے اپنے آلات اس کے جسم میں ڈالے تو وہ چیخ پڑا۔ ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ پھر اس کا علاج کر کے گھر بھیج دیا گیا۔‘

رمیش اندر کا کہنا ہے کہ آٹھ لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے پہنچی تھیں جن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے امرتسر کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر دلبیر کو خط لکھا اور ان سے پوچھا اور انھوں نے مجھے بتایا کہ آٹھ لاشوں کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے ہیں۔‘

Getty Imagesآپریشن بلیو سٹار کے دوران کتنی ہلاکتیں ہوئیں؟

بلیو سٹار کے قتل عام کے 41 سال گزرنے کے بعد بھی اس سانحے میں مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے بہت سے اختلافات موجود ہیں۔ اس قتل عام میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف اعداد و شمار سامنے آتے رہتے ہیں۔

انڈین حکومت کی طرف سے ’آپریشن بلیو سٹار‘ پر جاری وائٹ پیپر میں سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 493 بتائی گئی۔ اس میں عسکریت پسند اور معصوم شہری دونوں شامل ہیں۔

پنجاب کے اس وقت کے گورنر بی ڈی پانڈے نے اپنی کتاب ’ان دی سروس آف فری انڈیا‘ میں یہ تعداد 1200 بتائی۔

رمیش اندر سنگھ نے اپنی کتاب میں مرنے والوں کی تعداد 783 بتائی۔ ان کے مطابق 26 اموات بے گناہ شہریوں کی تھیں۔

رمیش اندر سنگھ کے مطابق 763 لاشوں کو چٹی ونڈ شہیدان شمشان گھاٹ میں اور 20 لاشوں کو شیو پوری قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے مطابق 717 اموات گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں ہوئیں اور باقی کمپلیکس کے باہر ہوئیں۔

انھوں نے زخمیوں کی تعداد بھی 178 بتائی، جن میں سے 102 عام عقیدت مند تھے۔

کیول کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1000 لاشیں میونسپل کارپوریشن کے صفائی کارکن اٹھا کر لے گئے۔

کیول کمار کہتے ہیں کہ ’لاشوں کی تعداد 10-20 زیادہ ہو گی یا ایک ہزار سے 10-20 کم۔ جب لاشیں بکھری ہوئی تھیں تو وہ 2000 کے لگ بھگ لگ رہی تھیں لیکن جب گنتی کی گئی تو یہ 1000 کے لگ بھگ تھی۔‘

رمیش اندر سنگھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لاشوں کو جلانے کا عمل اکثر تنقید کا باعث بنا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے صفائی کے کارکنوں اور میونسپل ٹرکوں کو مردہ لے جانے کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی گئی۔

کچھ مورخین نے اسے دل دہلا دینے والے بیان کے طور پر بیان کیا کہ کس طرح مردوں کو کچرے کے ٹرکوں میں لے جایا گیا اور اجتماعی طور پر آخری رسومات ادا کی گئیں۔

’یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ ہر طرف موت اور تباہی تھی۔ اکال تخت صاحب کی عمارت تقریباً منہدم ہو چکی تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہاں ملبہ پڑا تھا۔ دیگر عمارتیں بھی گولیوں کی زد میں آ گئیں۔ ملبہ پڑا تھا۔ لاشیں تھیں۔ فوج کی لاشیں تھیں۔ عام شہریوں کی لاشیں تھیں۔

بی بی سی پنجابی سے بات کرتے ہوئے شرومنی کمیٹی کے سیکرٹری پرتاپ سنگھ نے کہا کہ آپریشن بلیو سٹار کے بعد لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔

’آپریشن بلیو سٹار میں جانیں گنوانے والوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ وہ بھی خاندان کے افراد تھے۔ ان کی تدفین عزت کے ساتھ نہیں کی گئی۔ انھیں ان کے اہل خانہ کے سامنے دفنایا جانا چاہیے تھا۔‘

آپریشن بلیو سٹار: پاکستان اور چین کی افواج سے جنگیں لڑنے والے شابیگ جنھوں نے گولڈن ٹیمپل کو انڈین فوجیوں کی ’قتل گاہ‘ میں بدل دیا آپریشن بلیو سٹار: ایسا فوجی آپریشن جس کی قیمت چکانے کے لیے اندرا گاندھی کو اپنی جان دینی پڑیآپریشن جبرالٹر جس کے ایک ماہ بعد انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا’مجھے عوام نہیں، دشمن سے لڑنے کی تربیت دی گئی‘: آپریشن بلیو سٹار کے سربراہ جنھیں جنرل ضیا مرتے دم تک آم اور کینو بھیجتے رہےجب انڈین انٹیلیجنس نے جنرل مشرف کا فون ٹیپ کیا: ’یہ پاکستان ہے، کمرہ نمبر 83315 سے ہمارا رابطہ کروائیں‘خالصتان تحریک کیا ہے اور سکھوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ پہلی بار کب اٹھایا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More