ملک میں ڈالر کی کمی نے معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قلت نے روپے کی قدر کو غیرمستحکم کر دیا ہے جس کا اثر براہ راست عوام اور کاروباری حلقوں پر پڑ رہا ہے۔انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کے باعث بینک، ترسیلات زر کے بدلے سرکاری نرخ سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زیادہ سے زیادہ ڈالر بھیجیں۔ دوسری جانب درآمد کنندگان (امپورٹرز) کو ضروری اشیا کی خریداری کے لیے اضافی قیمت پر ڈالر خریدنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔حالیہ ہفتوں میں ملکی و عالمی سطح پر پیش آنے والے واقعات نے روپے کے استحکام پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اور پاکستان و انڈیا کے مابین چند روزہ جھڑپوں نے خطے میں بے یقینی کی فضا کو بڑھایا ہے، جس کے منفی اثرات پاکستانی معیشت پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ ان واقعات نے عوام اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کیا ہے اور مارکیٹ میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
ایک سینیئر بینکر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ڈالر کی طلب میں اچانک اضافے کے باعث بینک ترسیلات زر پر سرکاری نرخ سے ایک سے دو روپے زیادہ پیشکش کر رہے ہیں تاکہ زیادہ ڈالر حاصل کیے جا سکیں۔
مختلف اشیائے خورونوش درآمد کرنے والے تاجر عمران احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ امپورٹرز کو ڈالرز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ان کے مطابق اس وقت وہ انٹربینک ریٹ سے دو تا تین روپے زائد قیمت پر ڈالر خریدنے پر مجبور ہیں تاکہ ضروری درآمدات جاری رکھی جا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دن جمعے کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 283.70 روپے پر ٹریڈ ہوا۔معاشی امور کے ماہر فیصل میمس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بینکس ترسیلات زر میں اضافے کے لیے سرکاری ریٹ پر ایک تا دو روپے کا اضافہ دے رہے ہیں تاکہ ڈالر کی فراہمی بڑھائی جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ صورتحال اتنی تشویش ناک نہیں کیونکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے جو اب 17 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یوروبانڈز اور کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ میں بھی بہتری آئی ہے جبکہ روپے کی قدر اب بھی کم ہے جس سے برآمدات کو تقویت مل سکتی ہے۔فیصل میمس کا کہنا ہے کہ یوروبانڈز اور کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ میں بھی بہتری آئی ہے۔ (روئٹرز) انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ بینک ڈالر خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا رہا ہے تاکہ آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔ ان کے مطابق ایران-اسرائیل کشیدگی اور برآمد کنندگان کی جانب سے اپنی آمدنی کو مارکیٹ میں نہ لانا بھی ڈالر کی قلت کی وجوہات میں شامل ہے۔یاد رہے کہ دسمبر 2023 کے بعد اب ایک بار پھر وہی ڈالر ریٹ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 285.70 روپے تک ٹریڈ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جاری ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ مقامی مارکیٹ میں فی الوقت ڈالر کی قلت نہیں ہے لیکن عالمی حالات کا اثر یہاں بھی نمایاں ہو رہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی موجود ہے تاہم پاکستانی روپے کی قدر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں کمزور ہو رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی قدر میں معمولی کمی آئی ہے لیکن پاکستان میں ڈالر کی طلب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ قیمت کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ برآمد کنندگان بھی روپے کی مزید گراوٹ کی توقع میں اپنی آمدنی کو مارکیٹ میں لانے سے گریزاں ہیں جس سے ڈالر کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے طول پکڑنے کے خدشات بھی مارکیٹ کو غیرمستحکم کر رہے ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے طول پکڑنے کے خدشات بھی مارکیٹ کو غیرمستحکم کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)ایسی صورتحال میں پاکستان جیسے ملک میں اس رجحان کا مطلب ہے کہ عام شہری مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت کریں گے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے کیونکہ یہ اشیاء درآمد کی جاتی ہیں اور مہنگے ڈالر کا اثر ان کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ڈالر کی قلت کا سلسلہ جاری رہا، تو عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ماہرین کے مطابق حکومت روپے کی مزید کمزوری کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے تاکہ مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کو روکا جا سکے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ایک ماہ میں روپے کی قدر کو 285 روپے کے آس پاس برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے رابطہ کیا گیا، تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔