SPLکچھ سیارچے ایسے بھی ہیں جو زمین کے کافی قریب آ جاتے ہیں اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ہمیں زندگی کے آغاز کے بارے میں جاننے میں مدد دے سکتے ہیں۔
شاید آپ سیارچوں (ایسٹرائیڈز) کے بارے میں صرف اُس وقت سوچتے ہوں گے جب آپ کوئی سائنس فکشن فلم دیکھ رہے ہوں یا جب خبروں میں بتایا جا رہا ہو کہ کسی سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے کتنے امکانات ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کئی سائنسدان اور خلائی ادارے مسلسل اِن پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔
سیارچے وہ چٹانی ٹکڑے ہیں جو ہمارے سورج اور سیاروں کے بننے کے وقت، یعنی آج سے تقریباً 4.6 ارب سال پہلے، ٹوٹ کر علیحدہ ہو گئے تھے۔ آج ہمیں ایک دس لاکھ سے زائد سیارچوں کے بارے میں معلوم ہے جن میں سے زیادہ تر سورج کے گرد اور مریخ اور مشتری کے درمیان ’مین ایسٹیرائیڈ بیلٹ‘ نامی علاقے میں گھوم رہے ہیں۔
لیکن کچھ سیارچے ایسے بھی ہیں جو گھومتے گھومتے بعض اوقات زمین کے کافی قریب آ جاتے ہیں۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ سیارچے ہمیں زندگی کے آغاز کے بارے میں جاننے میں مدد دے سکتے ہیں۔
آپ فلکیات کے متعلق بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل پر تازہ ترین خبریں پڑھ سکتے ہیں: یہاں کلک کیجیے
برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی سے منسلک خلائی سائنس کی ماہر پروفیسر مونیکا گریڈی کہتی ہیں ’کئی سیارچوں میں ایسے نامیاتی اجزا پائے گئے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ شاید زمین پر زندگی کی شروعات ہی اُس وقت ہوئی جب یہ اجزا سیارچوں کے ذریعے زمین پر پہنچے۔‘
NASA/Ben Smegelskyسائنسدانوں کے مطابق اس وقت تین سیارچے ایسے ہیں جن پر خاص نظر رکھی جا رہی ہے اور ایک اور سیارچہ بھی ہے جسے اتنا اہم سمجھا گیا کہ ناسا نے اس پر تحقیق کے لیے ایک مشن بھیجا ہے
زیادہ تر سیارچے زمین کے قریب سے گزر جاتے ہیں اور کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر دھیان دینا ضروری ہوتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں فزکس اور آسٹرونومی کی ماہر آگاتا روزیک کہتی ہیں ’جب کوئی سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے تو سائنسدان فوراً اس پر نظر رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک ہمیں اس کے مدار (یعنی یہ کس راستے پر سفر کر رہا ہے) کا صحیح اندازہ نہ ہو جائے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ زمین سے ٹکرائے گا یا نہیں۔ زمین سے دور موجود سیارچوں میں سے ہم ایسے سیارچوں پر نظر رکھتے ہیں جن کی ساخت باقیوں سے مختلف ہو۔‘
جہاں تک سائز کی بات ہے تو بڑے سیارچے اتنا مسئلہ نہیں ہوتے۔
روزیک کہتی ہیں ’ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم ان کی حرکت کے اصول کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی سیارچہ مختلف انداز میں حرکت کر رہا ہو تو ہم اسے الگ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
’زیادہ فکر چھوٹے سیارچوں کی ہوتی ہے جنھیں ابھی تک صحیح سے دیکھا یا پہچانا نہیں گیا۔ جب تک ان کا مدار معلوم نہ ہو، وہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
سائنسدانوں کے مطابق اس وقت تین سیارچے ایسے ہیں جن پر خاص نظر رکھی جا رہی ہے اور ایک اور سیارچہ بھی ہے جسے اتنا اہم سمجھا گیا ہے کہ ناسا نے اس پر تحقیق کے لیے ایک مشن بھیجا ہے۔
1- اپوفسNASAناسا کے مطابق زمین کی کشش اپوفس کے سورج کے گرد مدار کو بھی تھوڑا سا بدل دے گی اور ہو سکتا ہے اس سیارچے کی سطح پر مٹی یا پتھر بھی سرکنے لگیں۔
اپوفس ایک ایسا سیارچہ ہے جس کا نام مصر کے تباہی کے دیوتا پر رکھا گیا ہے۔ یہ سنہ 2004 میں دریافت ہوا تھا۔ شروع میں سائنسدانوں کو لگا کہ یہ زمین سے ٹکرا سکتا ہے لیکن بعد میں ناسا نے کہا کہ کم از کم اگلے 100 سال تک ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ماہرِ فلکیات آگاتا روزیک کہتی ہیں ’ہمیں معلوم ہے کہ اپوفس 13 اپریل 2029 کو زمین کے قریب سے محفوظ طریقے سے گزرے گا۔‘
یہ سیارچہ زمین کے اتنا قریب سے گزرے گا جتنے قریب وہ سیٹلائٹ ہیں جو انسانوں کی جانب سے خلا میں بھیجے گئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کے اتنے قریب آنے سے اس سیارچے کی شکل بدل سکتی ہے کیونکہ زمین کی کششِ ثقل اسے کھینچ سکتی ہے۔
زمین کو محفوظ بنانے کا تجربہ: ناسا نے کامیابی کے ساتھ خلائی جہاز ایک سیارچے سے ٹکرا دیازمین کے مدار کا عارضی قیدی ’دوسرا چاند‘ کیا ہے اور اسے کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟وہ سیارچہ جو 23 سال بعد ویلنٹائن ڈے پر زمین سے ٹکرا سکتا ہے13 سالہ لڑکا جس نے گھر میں دوربین کے بغیر ہی سیارچہ دریافت کر لیا
ناسا کے مطابق زمین کی کشش اس کے سورج کے گرد مدار کو بھی تھوڑا سا بدل دے گی اور ہو سکتا ہے اس سیارچے کی سطح پر مٹی یا پتھر بھی سرکنے لگیں۔
اپوفس کا قطر تقریباً 340 میٹر ہے یعنی تین فٹبال گراؤنڈز جتنا اور یہ صرف 32 ہزار کلومیٹر کی دوری سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔ یہ اتنا قریب ہو گا کہ زمین کے چند مقامات پر اسے بغیر دوربین کے بھی دیکھا جا سکے گا۔
2. وائے آر فور 2024ATLASاب بھی وائے آر فور 2024 کے چاند سے ٹکرانے کے 3.8 فیصد امکانات موجود ہیں لیکن ناسا کے مطابق اگر ایسا ہوا بھی تو اس سے چاند کی حرکت یا مدار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
’وائے آر فور 2024‘ ایک نیا دریافت ہونے والا سیارچہ ہے جس کا سائز ناسا کے اندازے کے مطابق 53 سے 67 میٹر کے درمیان ہے یعنی تقریباً 15 منزلہ بلند عمارت جتنا۔ یہ سنہ 2024 میں دریافت ہوا اور اُس وقت خبروں میں آیا جب سائنسدانوں کو لگا کہ یہ سنہ 2032 میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔
ابتدائی اندازے کے مطابق اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات 32 میں سے ایک تھے لیکن بعد میں ناسا نے مزید تحقیق کے بعد واضح کر دیا کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ماہرِ فلکیات مونیکا گریڈی کہتی ہیں ’جب کوئی سیارچہ زمین کی طرف آ رہا ہو تو سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ ہم اندازہ لگائیں کہ واقعی وہ ٹکرائے گا یا نہیں۔ ہمیں اس کے راستے کو بار بار دیکھنا اور بہتر اندازہ لگانا پڑتا ہے۔‘
اب بھی وائے آر فور 2024 کے چاند سے ٹکرانے کے 3.8 فیصد امکانات موجود ہیں لیکن ناسا کے مطابق اگر ایسا ہوا بھی تو اس سے چاند کی حرکت یا مدار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
3. ڈیڈیموس اور ڈائمورفوس
ڈیڈیموس ایک سیارچہ ہے اور ڈائمورفوس اس کا چھوٹا سا چاند ہے جو اس کے گرد گھومتا ہے۔ ڈیڈیموس کا مطلب یونانی زبان میں ’جڑواں‘ ہے۔
ان دونوں سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں، لیکن یہ وقتاً فوقتاً زمین کے قریب سے گزرتے ہیں۔ سنہ 2022 میں ناسا نے ان دونوں کو ایک خاص مشن کے لیے چُنا، جسے ڈارت یا ڈی اے آر ٹی (ڈبل ایسٹیروئیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ) کہا جاتا ہے۔
اس مشن میں ناسا نے ایک خلائی گاڑی ’ڈائمورفوس‘ سے جان بوجھ کر ٹکرا دی۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ اگر کوئی سیارچہ واقعی زمین کی طرف آ رہا ہو تو کیا ہم اسے راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
یہ ٹکر کامیاب رہی۔ ڈائمورفوس کے ڈیڈیموس کے گرد چکر لگانے کی رفتار میں تھوڑی تبدیلی آ گئی اور یہ تبدیلی زمین سے دیکھی گئی۔ سائنسدانوں نے یہ جوڑا اس لیے چُنا تھا کیونکہ ان کے مدار میں ہلکی سی تبدیلی سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
ماہرِ فلکیات روزیک کے مطابق ’یہ پہلا موقع تھا جب کسی سیارچے کو جان بوجھ کر ٹکرا کر اس کے مدار میں تبدیلی لائی گئی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ہم خلا میں زمین کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں۔‘
سائنسدان اب بھی اس نظام پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگلے سال یورپی خلائی ادارہ ایک نیا مشن بھیجے گا جس کا نام ہیرا ہے۔ اس کا مقصد ٹکر کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کا تفصیلی جائزہ لینا ہے۔
4. سائیکNASAسائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سائیک شاید کسی ایسے سیارچے کا اندرونی حصہ ہے جو ایک مکمل سیارہ بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا
سائیک ایک خاص سیارچہ ہے جسے ناسا نے ’سب سے دلچسپ سیارچوں میں سے ایک‘ کہا ہے۔ اسے سنہ 1852 میں دریافت کیا گیا اور اس کا نام یونانی دیوی ’سائیک‘ کے نام پر رکھا گیا ہے جو روح کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔
یہ سیارچہ زمین سے بہت دور مریخ اور مشتری کے درمیان سورج کے گرد گھوم رہا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دھات اور چٹانوں پر مشتمل ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سائیک شاید کسی ایسے سیارچے کا اندرونی حصہ ہے جو ایک مکمل سیارہ بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔ اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ زمین اور دوسرے سیاروں کے اندرونی حصے کیسے بنے۔
سنہ 2023 میں ناسا نے ایک مشن بھیجا ہے جو سائیک پر جا کر اس کی ساخت اور سطح کا جائزہ لے گا تاکہ ہم نظامِ شمسی کی ابتدا کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
نئی دریافتیںNSF-DOE Vera C. Rubin Observatoryپروفیسر گریڈی کہتی ہیں 'اگر آپ پورے آسمان کا نقشہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک بہت ہی وسیع زاویے والا ٹیلی سکوپ چاہیے اور ویرا روبن آبزرویٹری کے پاس بالکل ایسا ہی ٹیلی سکوپ ہے۔'
اسی مہینے ویرا روبن آبزرویٹری نے بتایا کہ اُس کے نئے ٹیلی سکوپ نے صرف 10 گھنٹوں میں دو ہزار سے زیادہ نئے سیارچے اور زمین کے قریب سات خلائی اجسام دریافت کیے۔
عام طور پر زمین اور خلا میں موجود باقی تمام ٹیلی سکوپ مل کر ایک سال میں تقریباً 20 ہزار سیارچے دریافت کرتے ہیں۔
پروفیسر گریڈی کہتی ہیں ’اگر آپ پورے آسمان کا نقشہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک بہت ہی وسیع زاویے والا ٹیلی سکوپ چاہیے اور ویرا روبن آبزرویٹری کے پاس بالکل ایسا ہی ٹیلی سکوپ ہے۔‘
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ابتدائی چند سالوں میں وہ لاکھوں نئے سیارچے دریافت کرنے کی امید رکھتی ہے۔ یہ دریافتیں سائنسدانوں کو مزید سیارچوں پر نظر رکھنے اور ہمارے نظامِ شمسی کو بہتر سمجھنے میں مدد دیں گی۔
وہ سیارچہ جو 23 سال بعد ویلنٹائن ڈے پر زمین سے ٹکرا سکتا ہے13 سالہ لڑکا جس نے گھر میں دوربین کے بغیر ہی سیارچہ دریافت کر لیازمین کے مدار کا عارضی قیدی ’دوسرا چاند‘ کیا ہے اور اسے کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟زمین کو محفوظ بنانے کا تجربہ: ناسا نے کامیابی کے ساتھ خلائی جہاز ایک سیارچے سے ٹکرا دیازمین کے قریب سے گزرنے والا سب سے بڑا سیارچہ