’منہ سے گاؤں یا ناک سے۔۔۔‘ یہ سوال انڈیا کے مشہور سنگر ہمیش ریشمیا نے اپنے فینز سے اس وقت کیا جب کئی سال کے وقفے کے بعد وہ ایک بار پھر اپنا پہلا کنسرٹ کرنے کے لیے فینز کے ہجوم میں تھے۔
اور پورے ہال سے حاضرین نے پرجوش آواز میں جواب دیا کہ ’ناک سے۔۔۔‘
اور ان نعروں کی گونج آرکسٹرا کے شور میں مدہم پڑتی ہے۔ ساتھ ہی سنتھیسائزر وائلن اور ڈرمز کی تیز دھنیں بجتی ہیں اور دہلی کے اندرا گاندھی ایرینا سٹیڈیم میں جمع شائقین پر سرخ روشنیوں کی چمک پڑتی ہے اور پھر وہ پہچانی جانے والی آواز ابھرتی ہے۔ ’عاشق بنایا آپ نے۔‘
جی یہ ناک سے سُر نکالنے کے لیے انڈیا کے مشہور موسیقار ہیمیش ریشمیا کا حالیہ دنوں میں ہونے والے کنسرٹ کی چند جھلکیاں ہیں۔
فینز کے ساتھ مختصر مکالمے کے بعد ریشمیا سرگوشی کے انداز میں گانا گانا شروع کیا اور ان کی مخصوص آواز جیسے ہی سٹیڈیم کے ہر کونے میں پہنچی، مجمع ایک بار پھر پر خوشی سے بھرپور چیخوں اور نعروں سے گونجا۔
اور رات کے اختتام پر ہزاروں مداحوں نے اس شو کو اپنی زندگی کا بہترین کنسرٹ قرار دیا۔
ہیمیش ریشمیا جو بالی وڈ کے مشہور کمپوزر اور گلوکاروں میں شمار ہوتے ہیں انڈین پوپ کلچر میں ہمیشہ ایک متنازع شخصیت رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں ان کی ناک سے گانے والی آواز کا مذاق اُڑایا گیا مگر وہیں اسی انفرادیت کی وجہ سے وہ چاہنے والوں کے دلوں میں گھر بھی کر گئے۔
اپنے کیریئر کے عروج پر جب ان کے گانے ہر شہر، گلی اور محفل میں سنائی دیتے تھے، تب بھی ان کی گائیکی کو بد ذوقی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
لیکن اسی تضاد کے ساتھ ان کی شخصیت کا مسلسل بدلتا ہوا انداز، نڈر رویہ اور موسیقی کے بارے میں غیر متزلزل نقطہ نظر لوگوں کے دل میں گھر کرتا گیا۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
چند سال قبل جب وہ موسیقی سے اداکاری کی جانب مائل ہوئے تو محسوس ہوا کہ اب وہ واپس گلوکاری کی جانب نہیں لوٹیں گے لیکن وہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔
اب وہ واپس آ گئے ہیں اپنے انھی گانوں اور اسی انداز کے ساتھ۔ اور ان کے ہزاروں نئے اور پرانے مداح ان کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں۔
دہلی میں لگاتار دو شو کے دوران ان کی ناک سے گائی گئی آواز ویسی ہی تیز اور صاف تھی جس میں ہر سُر پر بغیر کسی غلطی کے مکمل عبور تھا۔
کیا آپ سب سٹیڈیم کو نائٹ کلب میں بدلنے کے لیے تیار ہیں؟
اس کنسرٹ میں سب کچھ پرانی یادوں کو جگانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، اس میں 2000 کی دہائی کے آخری سالوں کے گانے شامل کیے گئے۔ یہ دور تھا جب ہیمیش ریشمیا کے سب سے یادگار نغمے ریلیز ہوئے تھے۔
اس کنسرٹ میں آنے والے مداحوں کو ان کی مشہور سرخ ٹوپیاں دی گیں جس پر چمکتے ہوئے ایچ آر کے ابتدائی حروف درج تھے۔ یہ اسی ٹوپی کی نقل تھی جیسی ریشمیا خود اپنے مخصوص کالے لیدر کے لباس کے ساتھ پہنتے ہیں۔ ان کے اس لباس نے اپنے دور میں نئے فیشن کو جنم دیا تھا۔
سٹیج کے پیچھے باقی تمام چیزوں کا خیال پروڈکشن ٹیم نے شاندار طریقے سے رکھا تھا جس میں جوشیلے ڈانس گروپس، جدید لائٹس، ساؤنڈ ایفیکٹس اور ایک مکمل آرکسٹرا موجود تھا۔
’کیا آپ سب اس سٹیڈیم کو نائٹ کلب میں بدلنے کے لیے تیار ہیں؟‘ ریشمیا نے جوش سے نعرہ لگایا۔
مداح یہ سننے کے بعد سرشاری کی مختلف کیفیت میں آ گئے، بہت سے اپنی نشستوں سے اٹھ کر جھومنے لگے اور چھوٹی چھوٹی ڈانس مووز کرنے لگے۔
ان کے بہت سے چاہنے والے ہال میں کالی ٹوپی، کالی جیکٹ اور تراشی ہوئی داڑھی کے ساتھ انہی کی کاپی بنے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں میں بینر پر محبت کے اظہار میں لکھا تھا آئی لو یو لارڈ ہیمیش ( Love you, Lord Himesh)
ایک خاتون بیس کی دھمک کے بیچ چیختے ہوئے سنائی دیں، ’یہ تو وقت میں پیچھے جانے جیسا لگ رہا ہے۔ یہ گانے میری نوجوانی کی آواز تھے۔‘
ہر گانے کے ساتھ ساتھ خود ہیمیش بھی پہلے سے زیادہ بے ساختہ اور پرجوش نظر آنے لگے۔
ایک موقع پر انھوں نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ ’منتظمین چاہتے ہیں کہ میں شو 10 بجے ختم کر دوں، مگر کیا آپ نہیں چاہتے کہ میں ساری رات آپ کے لیے گاؤں؟‘
ریشمیا کے انداز کا اثر حیران کن تھا۔
اپنے کنسرٹ کی کامیابی کے ساتھ ریشمیا نے ایک بار پھر اپنے اوپر لگائے گئے بد ذوقی کے لیبل کو بہترین طریقے سے لاجواب (کول) میں بدل دیا۔
صحافی انوراگ ورما ان کے انداز پر طنزیہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت وہ صرف ایک فنکار نہیں رہے بلکہ لارڈ ہیمیش بن گئے۔‘
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ کیسے کر پائے۔
پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہےوہ بیماری جس نے انڈین سنگر الکا یاگنک کو قوت سماعت سے محروم کر دیا’سیارہ‘: سُپر سٹارز کے بغیر مگر ریلیز کے پہلے ہی ہفتے 156 کروڑ کا بزنس کرنے والی فلم اتنی کامیاب کیوں ثابت ہو رہی ہے؟2026 میں سدھو موسے والا کے لائیو کنسرٹ کا اعلان: گلوکار کی موت کے بعد یہ کیسے ممکن ہوگا؟
ممبئی میں ایک موسیقی سے وابستہ گھرانے میں پیدا ہونے والے ہیمیش ریشمیا کے والد خود ایک معروف موسیقار اور پروڈیوسر تھے۔ ریشمیا ابھی محض 17 سال کے تھے جب انھوں نے ٹی وی پروڈیوسر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ فارغ وقت میں وہ خود اپنے گانے خود کمپوز کرتے۔
ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا:
’میں ہمیشہ اپنے پاس دھنوں کا ایک ذخیرہ تیار رکھتا، بس موقع کا منتظر رہتا کہ کب انھیں دنیا کے سامنے پیش کروں۔‘
اور یہ موقع آیا 1998 میں، جب انھوں نے فلم ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ کی موسیقی ترتیب دی، جس میں سلمان خان مرکزی کردار میں تھے۔
فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی اور ریشمیا کو دور دور تک پہچان مل گئی۔
AFP via Getty Images2005 میں ریشمیا نے ادنیا کو اپنی ناک کی آواز سے متعارف کرایا
موسیقار کے طور پر جب ان کو پہچان ملی تو وہ مشہور ریئلٹی شو ’سا رے گا ما پا‘ کے جج کے طور پر بھی سامنے آئے۔ یہیں انھوں نے اپنا مشہور جملہ تخلیق کیا کہ ’جے ماتا دی، لیٹس راک!‘
یہ ایک دلچسپ نعرہ تھا، جو (دیوی کے حوالے سے) عقیدت اور راک اسٹار انرجی کا امتزاج بن گیا اور ان کے مداحوں کے لیے ایک جذباتی یادگار کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ ایک خاص سمت میں جا رہا ہے،
لیکن 2005 میں ریشمیا نے فلم ’عاشق بنایا آپ نے‘ کے ذریعے سب کچھ بدل دیا۔ اب ’ناک سے گانے‘ کے دور کا آغاز ہوا۔
اس سے پہلے تک وہ زیادہ تر صرف کمپوزر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اس البم میں انھوں نے کئی گانے خود گائے اور ایک ایسے انداز اختیار کیا جو بالی ووڈ میں پہلے کبھی نہیں سنا گیا تھا۔
ریشمیا کا دعویٰ تھا کہ ان کی آواز چونکہ بلند سُروں والی ہے اسی لیے وہ ناک سے سنائی دیتی ہے۔ وجہ جو ہو، ان کی ٹوِینگ والی آواز عوام کو بھا گئی۔
بنگلور کے موسیقار عزیر اقبال اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’اکثر گانے تکنیکی طور پر کمزور ہوتے تھے، مگر بول اتنے جذباتی اور دھنیں اتنی دلکش ہوتیں کہ کسی کو پروا نہ ہوتی۔
ریشمیا نے اپنا روپ بھی بد ڈالا، کلین شیو کی جگہ تھوڑے پراسرار انداز نے لی لی۔ ٹوپی اور سن گلاسز کے پیچھے چھپی آنکھیں، اور غمگین محبت بھرے گیت۔
AFP via Getty Imagesریشمیا نے بطور اداکار محدود کامیابی حاصل کی لیکن ان کی موسیقی بے حد مقبول رہی
ان کے انداز کے مذاق اڑانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تنقید نگاروں نے انھیں ایک عارضی رجحان اور ان کی موسیقی کو سستی اور یکسانیت سے بھرپور قرار دیا۔ تاہم ایک سال میں ان کے کم از کم 30 گانے ہٹ ہوئے اور مگر ہر نئے ہِٹ کے ساتھ ریشمیا ان سب نظریات کو چیلنج کرنے کے قریب پہنچتے گئے۔ اداکار عمران ہاشمی کے ساتھ ان کی مشہور جوڑی نے انھیں ’ہِٹ مشین‘ کا لقب دلوایا۔
2006 میں وہ لندن کے مشہور ویملی سٹیڈیم میں پرفارم کرنے والے پہلے انڈین بنے۔
دہلی سے تعلق رکھنے والی مداح مابل گھوش کہتی ہیں، ’جب میں نے اس شخص کو خود اپنی عجیب یا بے ہودہ چیزوں کو قبول کرتے دیکھا، تو لگا ایک ایسے دور میں جب ہر چیز کو مصنوعی کمال کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے، ایسے میں ناکامی اور تنقید سے آزادی ممکن ہے۔‘
اور پھر شہرت کے عروج پر، ریشمیا نے ایک اور جرات مندانہ فیصلہ لیا اور اداکاری کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔
ان کے بقول، یہ ایک ’بہت دلیرانہ قدم‘ تھا جس نے انھیں انڈیا کے سب سے زیادہ میم بننے والے شخصیات میں شامل کر دیا۔
سکرین پر ان کے سپاٹ تاثرات اتنے مشہور ہوئے کہ ان پر اخبارات میں مضامین لکھے گئے۔
’زندگی انجوائے کرو، اتنا سنجیدہ کیوں لیتے ہو یار؟‘
لیکن ریشمیا نے اس ساری صورتحال کو بھی پلٹ کر رکھ دیا۔ پرستاروں کی داد و تحسین اور تنقید کی کاٹ کے درمیان سے ریشمیا نے بہترین راستہ نکالا اور کچھ ایسا بنا دیا جو بالکل انوکھا اور بے حد دلچسپ تھا۔
جب لوگ ان کا مذاق اُڑاتے تو وہ خود بھی اُس مذاق میں شامل ہو جاتے۔ سب سے زیادہ دل جیت لینے والا لمحہ اُس وقت آیا جب عالمی وبا کے دوران ان کی ورزش کرتے ہوئے ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ جن میں چہرے پر کوئی تاثر نہیں اور سیدھا کیمرے میں جھانکتی ہوئی نظریں تھیں۔ ان ویڈیوز پر انٹرنیٹ بھر میں میمز اور لطیفے بننے لگے مگر بجائے اس کے کہ وہ دلبرداشتہ ہوتے انھوں نے ایسی مزید ویڈیوز پوسٹ کرنی شروع کر دیں۔
ان کا مشہور جملہ ہے کہ ’لوگ سوچتے تھے کہ میں آخر کر کیا رہا ہوں؟ میں تو بس اپنے فینز کے ساتھ ان کے احساسات میں شامل تھا۔ زندگی کو انجوائے کرو، اتنا سنجیدہ کیوں لیتے ہو یار؟‘
انھوں نے اپنی ذیادہ تر فلمیں خود پروڈیوس کیں لیکن انھیں محدود کامیابی ملی اس کے باوجود وہ اپنی راہ پر قائم رہے۔
’صحیح فلم ملے تو میں کمال کر سکتا ہوں۔ لوگ میری اس بات پر ہنسیں گے، لیکن مجھے پتہ ہے میں کیا کر رہا ہوں۔‘
یہی بے باک اور غیر معذرت خواہ رویہ ان کے حالیہ شو کی زبردست کامیابی کی بنیاد بھی بنا۔ طنز و تنقید کے باوجود، ریشمیا کبھی اپنی شخصیت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے عجیب و منفرد انداز کو خوش دلی سے قبول کرتے اور اُسے اپنی کامیابی کی پہچان بنا دیتے ہیں۔
ماہل گھوش کا کہنا ہے کہ ’ریشمیا عوام کے دلوں میں بستا ہے۔ وہ انڈیا کے بڑے ثقافتی مساوات پیدا کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ وہ سالوں سے اپنے انداز کو فخر سے اپنا رہا ہے اور اب اس کے مداح بھی مختلف مزاج کے باوجود بھی اس انداز کو اپنائے جا رہے ہیں۔‘
اس کنسرٹ کے دوران دو دوست آپس میں بات کر رہے تھے۔ ایک نے پوچھا کہ ’یار مجھے اس کے گانے اتنے کیوں پسند ہیں؟ کیا یہ صرف نوسٹیلجیا (ماضی کی یادیں) ہے؟‘
دوسرے نے فوراً جواب دیا کہ ’بھائی، اس کے گانے آج بھی زبردست لگتے ہیں۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟‘
جب انڈین اداکار فیروز خان اپنی فلم ’قربانی‘ کے لیے نازیہ حسن کی آواز سے بے حد متاثر ہوئے’بندر روڈ سے کیماڑی‘: مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے احمد رشدی اور کرشن چندر کی پیش گوئی1100 روپے ادھار، ایک خواب اور فلم ’عاشقی‘ کے گانے جنھوں نے کلکتہ کے کیدار کو کمار سانو بنا دیانذیر سے ندیم بیگ تک کا سفر: اسلامیہ کالج کراچی کا شرمیلا گریجویٹ، جو کرکٹ بھی اتنی ہی اچھی کھیلتا، جتنا اچھا وہ گاتا تھا’دن کے 12، 12 جوائنٹ پیتا تھا‘: ہنی سنگھ کا شراب اور چرس کا نشہ چھوڑ کر دوبارہ عروج حاصل کرنے کا سفر’ناگن ڈانس‘ کی 70 برس پرانی وہ دھن جس کا آج تک کوئی مقابلہ نہیں کر سکا