BBCاس نو ع کی اب تک ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ وینین بن چکی ہیں
سنہ 1965 کے فورڈ ٹرانزٹ میں سوار ہونا اور اسے چلانا ایسا ہے جیسے آپ نے پہیوں کے کسی ٹائم کیپسول پر قدم رکھ دیا ہو۔
جدید دور کی سیٹ نیویگیشن اور ٹچ سکرین جیسی ہائی ٹیک سہولیات کو تو بھول ہی جائیں۔ یہاں آپ کو صرف ایک سٹیئرنگ وہیل، بڑا سا کروم لائنوں والا سپیڈومیٹر ڈائل اور بھاری سا ہیٹر کنٹرول ملے گا۔ اس میں ریڈیو تک نہیں ہے۔
سڑک پر نکلتے ہی یہ ہلتی ڈلتی ہے، بجتی ہے اور کبھی کبھار گیئر سے بھی نکل جاتی ہے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ اس میں تو سیٹ بیلٹ بھی نہیں، سیٹ بیلٹ تو کیا کبھی کبھار سیٹ خود بھی ادھر اُدھر ہلنے لگتی ہے اور بریک بھی کوئی خاص کام نہیں کرتی۔
خوبصورت ہونے کے باوجود یہ سوچنا مشکل ہے کہ یہ پرانی سی مشین کبھی جدید ٹیکنالوجی کی علامت رہی ہو گی۔
مگر جب 9 اگست سنہ 1965 کو برکشائر کے لینگلے میں فورڈ کے پلانٹ سے پہلی ٹرانزٹ وین تیار ہو کر نکلی تو یہ کسی انقلاب سے کم نہ تھا۔
اس زمانے کے معیار کے لحاظ سے یہ نہایت کشادہ، طاقتور اور کارآمد کار تھی۔ آرام دہ، اچھی گرفت رکھنے والی اور اس وقت کی دیگر وینز جیسے مورس جے-4 کو پیچھے چھوڑنے والی تھی۔
ساٹھ برس کی اپنی تاریخ میں ٹرانزٹ وین کئی بار نئے ڈیزائن میں آ چکی ہے، مگر یہ برانڈ اب بھی مضبوطی سے قائم ہے۔ آج بھی چھوٹے کاروباروں کے لیے ضروری ہے، چاہے ’سفید وینیں‘ عام ہو چکی ہیں اور مارکیٹ میں مقابلہ بھی سخت ہے۔
سب سے زیادہ فروخت ہونے والی وین
یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی وین ہے اور اب تک 1 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ایسی وینز تیار ہو چکی ہیں۔
برطانوی موٹرز کی تنظیم اے اے کے صدر ایڈمنڈ کنگ کہتے ہیں: ’بہت سی مشہور کاریں ہیں: مورس مائنر، منی، لینڈ روور، وی ڈبلیو بیٹل، مگر صرف ایک مشہور وین ہے، اور وہ ہے ٹرانزٹ۔ شاید یہ واحد وین ہے جسے لوگ واقعی جانتے ہیں۔‘
یہ فورڈ کے برطانیہ اور جرمنی کے انجینیئروں کا مشترکہ منصوبہ تھا اور بنیادی طور پر برطانیہ اور یورپ کی مارکیٹ کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسے زیادہ سے زیادہ ہمہ جہت بنانا تھا۔
اور یہ جلد ہی کاریگروں، بڑھئیوں، الیکٹریشنز اور ڈیلیوری ڈرائیورز کے لیے لازمی گاڑی بن گئی۔
مگر اس نے اُن لوگوں کو بھی متوجہ کیا جو سستی اور کشادہ سواری چاہتے تھے، جن میں ابھرتے ہوئے راک بینڈز بھی شامل تھے۔ ان کے لیے اس وین سے سفر کرنا تقریباً ایک رسم بن گئی۔
ٹرانزٹ وین کلب کے بانی پیٹر لی کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ’یہ آزادی تھی کہ جہاں چاہو، جب چاہو جاؤ۔ پیٹرول اُس وقت آج کی نسبت کہیں سستا تھا۔ میں سپین پہنچ گیا، 13 مہینے ایک سٹرابیری فارم پر ہپی بن کر رہا۔
’پھر واپس آ کر کاروبار شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے پاس لندن میں 28 ٹرانزٹ وینز اور 180 ملازم تھے۔‘
عالمی آٹو انڈسٹری پر غلبہ حاصل کرتی چین کی ’سستی اور بہتر‘ الیکٹرک گاڑیاں، مگر مغربی دنیا اِن سے خوفزدہ کیوں ہے؟سستی الیکٹرک گاڑیوں کا وہ نظام جس نے چین کو اس صنعت کا بے تاج بادشاہ بنا دیاہنڈا کی ’غیر روایتی اور بولڈ‘ الیکٹرک کار ’جو ڈرائیور کے مزاج اور عادات‘ کو سمجھتی ہے’قیمت 17 لاکھ، ایک چارج میں 500 کلومیٹر‘: دہلی آٹو شو میں جدید ٹیکنالوجی پر مبنی الیکٹرک گاڑیاں، رکشے اور بائیکس’برطانیہ کی سب سے پسندیدہ‘
ٹرانزٹ کی تیز رفتاری اور سامان رکھنے کی جگہ نے قانون شکن لوگوں کو بھی متاثر کیا۔
کہا جاتا ہے کہ 1972 میں میٹرو پولیٹن پولیس کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ 95 فیصد بینک ڈکیتیوں میں ٹرانزٹ کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس کی رفتار اور گنجائش نے اسے بہترین فرار گاڑی بنا دیا تھا، اسی لیے اسے 'برطانیہ کی موسٹ وانٹڈ' یعنی مطلوب ترین وین کہا گیا۔
1997 میں سنڈے ٹائمز کے رپورٹر جوناتھن لیک نے 'وائٹ وین مین' کی اصطلاح ایک ایسے ڈرائیور کے لیے استعمال کی جو عموماً ٹیٹو زدہ، منھ میں سگریٹ لیے، اور لائٹ کو فلیش کرکے گاڑیوں کو پیچھے ہٹانے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ خاص طور پر ٹرانزٹ ڈرائیورز کے لیے نہیں تھا، مگر سڑک پر ان کی بڑی تعداد دیکھ کر گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اس میں شامل تھے۔
Bloomberg via Getty Imagesاس وین کا بڑے پیمانے پر پروڈکشن سنہ 2013 میں ترکی منتقل کر دیا گياترکی ساختہ وین
تقریباً پچاس برس تک ٹرانزٹ وین برطانیہ میں تیار ہوتی رہی۔ یہ پہلے لینگلے میں اور پھر ساؤتھمپٹن کے قریب ایک فیکٹری میں تیار کی گئی۔ لیکن سنہ 2013 میں یہ فیکٹری بند کر کے فورڈ نے پیداوار ترکی منتقل کر دی، جہاں اس پر اخراجات بہت کم آ رہے تھے۔ یہ ایک متنازع فیصلہ تھا جس سے سیکڑوں ملازم بیروزگار ہو گئے۔ یونینز نے اسے 'دھوکہ' قرار دیا۔
آج بھی فورڈ ٹرانزٹ نمایاں طور پر اپنی برطانوی پہچان رکھتی ہے اور ڈنٹن، ایسیکس میں اپنے صدر دفتر میں اس کی تیاری کا کام ہوتا ہے۔
فورڈ برطانیہ کی منیجنگ ڈائریکٹر لیزا برانکن کہتی ہیں: 'ڈنٹن ہی ٹرانزٹ کا گھر ہے۔ یہاں ہم نئی وینز کے انجینئرنگ اور ڈیزائن کا سارا کام کرتے ہیں۔ ڈیگنم میں ہم ڈیزل انجن تیار کرتے ہیں اور لیورپول کے قریب ہیلووڈ میں الیکٹرک وینز کے پاور پیک بناتے ہیں۔'
یورپ کے لیے ٹرانزٹ کی زیادہ تر پیداوار اب بھی ترکی میں ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی کا امکان کم ہے۔
برانکن کہتی ہیں: 'یہ سب کارکردگی کا معاملہ ہے اور یورپ میں جگہ جگہ پلانٹس رکھنے کے بجائے پیداوار کو ایک جگہ مرکوز رکھا گیا ہے۔'
Bloomberg via Getty Imagesان دنوں فورڈ دنیا بھر میں تجارتی گاڑیوں کے میلوں میں اپنی الیکٹرک وین کو فروغ دے رہا ہےکیا کوئی اور ماڈل اس کی جگہ لے سکتا ہے؟
ڈنٹن میں اب زیادہ تر توجہ اس بات پر ہے کہ اگلی نسل کی ٹرانزٹ وینز میں کیا نیا لایا جائے۔ مگر کیا کبھی پھر کوئی ایسا ماڈل آئے گا جو پہلے جیسا انقلاب برپا کرے؟
کمرشل گاڑیوں کی ترقی کے ڈائریکٹر سیمس مک ڈرموٹ کہتے ہیں: ’ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ وین سے گاہکوں کی بنیادی ضرورت ساٹھ برس میں نہیں بدلی۔ ان کے لیے یہ ایک قابل اعتماد، ہمہ جہت اور کم خرچ گاڑی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ مقصد نئے طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’الیکٹرک گاڑیاں چلانے اور مرمت کرنے میں سستی ہیں۔‘
'اس کے علاوہ، جب ہم مزید سافٹ ویئر پر مبنی اور 'زیادہ ہوشیار' گاڑیاں لائیں گے، تو (وینوں کے) بیڑے (فلیٹ) کو دور سے سنبھالنے کی صلاحیت بھی اخراجات کم کرنے میں مدد دے گی۔ اس لیے آنے والا انقلاب انجن کی طاقت اور سافٹ ویئر کے متعلق ہوگا۔'
لیکن اے اے کے صدر ایڈمنڈ کنگ کے مطابق، اگرچہ ٹرانزٹ برانڈ 60 برس سے قائم ہے لیکن آج یہ ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں، اگر کسی کے والد کے پاس ٹرانزٹ ہوتا تو وہ بھی ٹرانزٹ ہی لیتا تھا۔
'میرے خیال میں اب یہ بدل رہا ہے۔ وین کی مارکیٹ میں مقابلہ زیادہ ہے، اور اسی وجہ سے برانڈ سے وفاداری پہلے جیسی مضبوط نہیں رہی۔'
’قیمت 17 لاکھ، ایک چارج میں 500 کلومیٹر‘: دہلی آٹو شو میں جدید ٹیکنالوجی پر مبنی الیکٹرک گاڑیاں، رکشے اور بائیکسٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کے مقابلے میں نئی انٹری نے پاکستانی آٹو سیکٹر کی ’سانسیں بحال کر دیں‘سستی الیکٹرک گاڑیوں کا وہ نظام جس نے چین کو اس صنعت کا بے تاج بادشاہ بنا دیاہنڈا کی ’غیر روایتی اور بولڈ‘ الیکٹرک کار ’جو ڈرائیور کے مزاج اور عادات‘ کو سمجھتی ہےانڈیا میں گاڑیوں کی خرید و فروخت میں نمایاں کمی، کیا دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشت اب تنزلی کی طرف جا رہی ہے؟جیگوار کی ’کانسپٹ‘ کار میں بڑے بڑے ٹائر، لمبے بونٹ کے علاوہ نیا کیا ہے؟