امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن نے سنہ 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین میں شروع کی گئی تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت تقریبا تین گھنٹے جاری رہی۔ صدر ٹرمپ نے مشترکہ پریس بریفنگ میں ملاقات کو ’انتہائی نتیجہ خیز‘ قرار دیا لیکن کوئی ڈیل نہیں ہوسکی۔ملاقات سے قبل دونوں رہنماؤں نے گرمجوشی سے مصافحہ اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو الاسکا میں سربراہی اجلاس کے موقعے پر صحافیوں کو میٹنگ روم سے باہر لے جایا گیا جس کے فوراً بعد ٹرمپ، پوتن اور دیگر عہدیداروں نے ایک پس منظر کے سامنے اپنی نشستیں سنبھال لیں جس میں کہا گیا تھا کہ ’امن کا حصول۔‘یہ امریکی صدر کی اپنے روسی ہم منصب سے ساتویں ملاقات تھی، جبکہ ان کی اپنے دوسرے دور صدارت میں پوتن سے یہ پہلی ملاقات ہے۔خیال رہے کہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان پہلے ون آن ون ملاقات سے طے تھی لیکن اب دونوں صدرو کے ساتھ ساتھ دو دو حکومتی عہدیدار موجود رہے۔ امریکی صدر کے ساتھ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف جبکہ روسی صدر کے ساتھ وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے شرکت کی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ’میں اور ولادیمیر پوتن ملاقات کے دوران یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے پر نہیں پہنچے۔‘
یوکرینی صدر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں سے جلد ہی بات کرنے کا ارادہ ہے تاکہ انہیں بات چیت سے آگاہ کیا جاسکے۔ معاہدہ بالاخر ان پر منحصر ہے اور انہیں اس پر اتفاق کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا ’کوئی ڈیل نہیں ہے،جب تک کوئی ڈیل نہ ہو جائے۔ بہت سے ایسے نکات تھے جس پر اتفاق ہوا تھا۔ پوتن کے ساتھ ملاقات نتیجہ خیز رہی اور کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔‘
صدر پوتن کا کہنا تھا’ بات چیت کا محور یوکرین کا تنازع تھا۔ پائیدار اورطویل مدتی تصفیے کے لیے ہمیں تنازع کی بنیادی وجوہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
ٹرمپ نے مشترکہ بریفنگ کے اختتام پر پوتن کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’ہم بہت جلدآپ سے بات کریں گے اور شاید جلد دوبارہ ملیں گے۔‘
اس پر روسی صدر نے انگریزی میں جواب دیا اگلی مرتبہ ماسکو میں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر پوتن جنگ ختم کرنے پر راضی نہیں ہوئے تو روس کو ’سنگین‘ نتائج بھگتنے ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)امریکی خبر رساں ادارے سی این این کے مطابق صدر ٹرمپ نے الاسکا کے لیے روانہ ہونے سے قبل کہا کہ اگر بات چیت ’صحیح سمت میں نہیں جاتی تو وہ وہاں سے اٹھ جائیں گے۔‘انہوں نے دھمکی دی کہ اگر پوتن جنگ ختم کرنے پر راضی نہیں ہوئے تو روس کو ’سنگین‘ نتائج بھگتنے ہوں گے۔امریکی صدر نے مزید کہا اگر انہیں پوتن کی پیشکش پسند نہ آئی تو وہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے بجائے اکیلے ہی پریس کانفرنس کریں گے۔قبل ازیں کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے سربراہی اجلاس سے قبل روس کے سرکاری ٹی وی چینل ون کو بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ صدور ولادیمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان الاسکا سربراہی اجلاس کم از کم چھ سے سات گھنٹے جاری رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ’آپ توقع کر سکتے ہیں کہ اس میں کم از کم چھ سے سات گھنٹے لگیں گے۔‘دیمتری پیسکوف نے کہا کہ ماسکو کو ایک ’نتیجہ خیز‘ ملاقات کی توقع ہے۔تاہم امریکہ میں روس کے سفیر الیگزینڈر ڈارچیف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور پوتن سربراہی ملاقات سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ ’ماسکو کو مسلسل اور درجہ بدرجہ معاملات بہتر ہونے کی توقع ہے۔‘روسی سفیر نے مزید کہا کہ صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ ’پورے ایجنڈے پر تبادلہ خیال‘ کریں گے۔