’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟

بی بی سی اردو  |  Aug 21, 2025

Getty Imagesوکیل دیویا کہتی ہیں کہ ’اکثر میڈیکل رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ حصوں پر کوئی چوٹ نہیں آئی، جس سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے‘

انتباہ: اس مضمون میں کچھ معلومات پریشان کن ہوسکتی ہیں۔

’ڈیجیٹل ریپ‘ ایک سنگین جرم ہے مگر اس اصطلاح کو سنتے ہی گمان ہوتا ہے کہ جیسے کسی سائبر یا آن لائن جنسی جرم کی بات کی جا رہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

انڈیا میں حالیہ برسوں میں متعدد ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں ’ڈیجیٹل ریپ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔

رواں مہینے 13 اگست کو اتر پردیش میں گوتم بدھ نگر کی ایک ضلعی عدالت نے ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے ایک مقدمے میں مجرم ثابت ہونے پر ایک شخص کو عمر قید کی سزا سنائی۔

سنہ 2014 میں پردیپ کمار نامی ایک شخص پر ایک چار سالہ بچی کے ریپ کا الزام عائد ہوا تھا۔ اس مقدمے میں نئی دہلی کی ایک عدالت نے اگست 2021 میں اس شخص کو مجرم قرار دیتے ہوئے بیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔

دہلی ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ’ڈیجیٹل ریپ‘ کی اصطلاح کا ذکر کیا تھا۔

جسٹس امیت بنسل نے کہا تھا کہ ’اب میں سزا کے معاملے پر بات کروں گا۔ واقعے کے وقت، اپیل کنندہ نے چار سالہ بچی کے ساتھ ’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا تھا۔‘

Getty Imagesلاطینی زبان میں ڈیجیٹ کا مطلب ہے انگلیڈیجیٹل ریپ کیا ہے؟

لفظ ڈیجیٹل ریپ میں لفظ ’ڈیجیٹل‘ دراصل لاطینی لفظ ’ڈیجیٹس‘ سے آیا ہے۔

لاطینی زبان میں ڈیجیٹ کا مطلب ہے انگلی اور یہ انگلی ہاتھ یا پاؤں کی بھی ہو سکتی ہے۔

انڈیا میں سپریم کورٹ کی وکیل دیویا سنگھ کہتی ہیں کہ ’کسی لڑکی یا عورت کے جنسی اعضا میں اس کی رضامندی کے بغیر انگلی یا کوئی اور چیز زبردستی داخل کرنے کو ڈیجیٹل ریپ کہتے ہیں۔‘

یعنی اگر ہاتھ یا پیر یا کسی اور چیز کو جنسی تشدد کے لیے استعمال کیا جائے تو اس جرم کے مقدمے کو ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے طور پر درج کیا جاتا ہے۔

ریپ اور ڈیجیٹل ریپ کے درمیان فرق

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنسی جرائم کے مقدمات میں متاثرہ افراد کو انصاف کے حصول میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ملزمان اکثر تکنیکی بنیادوں پر قانون سے بچ نکلتے تھے تاہم ملک میں سنہ 2012 میں جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی گئی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئےوکیل دیویا سنگھ نے کہا کہ ’2013 سے پہلے اگر زبردستی جسمانی ملاپ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی تو اسے ریپ سمجھا جاتا تھا لیکن قوانین کی تبدیلی کے بعد اندام نہانی میں انگلیاں یا دیگر چیزیں داخل کرنے کے عمل کو بھی قابلِ سزا جرم بنا دیا گیا۔‘

’فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 2013 کے ذریعے آئی پی سی کی دفعہ 375 میں ریپ کی تعریف کو وسیع کیا گیا۔‘

دیویا سنگھ کہتی ہیں کہ ’اب کسی کے جسم کے اندر ’ڈیجیٹل رسائی‘ کو بھی واضح طور پر ریپ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے کوئی نرمی نہیں دکھائی جاتی۔‘

Getty Imagesملک میں سنہ 2012 میں جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی گئی تھی’مجھے ہوائی جہاز میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اب یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا‘’مجھے ریپ کرنے والے کا خیال تھا وہ اس بیماری سے محفوظ ہو جائے گا‘گرومنگ گینگز اور پولیس افسران پر جنسی استحصال کا الزام: ’ایک بار ریپ ہونا گینگ کے ہاتھوں کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا‘’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا

’ڈیجیٹل ریپ‘ اب تعزیرات ہند کے تحت ایک سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔

انڈین قانون کے مطابق ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے مقدمات میں کم از کم 10 سال سے لے کر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ 12 سال سے کم عمر کی لڑکی کے ریپ کی صورت میں کم از کم 20 سال کی سزا تجویز کی گئی۔

’دخول نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ریپ نہیں ہوا‘

’ڈیجیٹل ریپ‘ کے معاملات میں پولیس کو فوری طور پر طبی معائنے، فرانزک کے لیے نمونے حاصل کرنے چاہیں اور متاثرہ شخص کا بیان ریکارڈ کرنا چاہیے۔

وکیل دیویا کہتی ہیں کہ ’اکثر میڈیکل رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ حصوں پر کوئی چوٹ نہیں آئی، جس سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے لیکن قانون کے مطابق ریپ کے مقدمات میں پرائیویٹ حصوں پر چوٹ کا ہونا لازمی نہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف دخول نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ریپ نہیں ہوا۔‘

Getty Imagesاتر پردیش کی ضلعی عدالت نے حال ہی میں ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے ایک مقدمے میں ایک شخص کو عمر قید کی سزا سنائیمتاثرین پر اثرات

سپریم کورٹ کی وکیل کامنی جیسوال کا کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے معاملات میں بھی متاثرین کو اسی ذہنی تکلیف اور جذباتی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سامنا ریپ سے متاثرہ دیگر افراد کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لوگ اکثر یہ نہیں سمجھتے کہ ’ڈیجیٹل ریپ‘ اصل میں کیا ہے لیکن قانون کے مطابق یہ ریپہی ہے۔‘

کامنی جیسوال کا مزید کہنا ہے کہ ’سیکس ایجوکیشن سکولوں اور کالجوں سے پہلے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ جیسی چیزیں چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو سکھائی جانی چاہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ ’معاشرے کو ایسے جرائم کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ایسے جرائم کے لیے متاثرہ کو مورد الزام ٹھہرانا بند کرنا چاہیے۔‘

’مجھے ہوائی جہاز میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اب یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا‘سو سے زیادہ لاشیں، قتل کی دھمکی اور ریپ کے بعد تدفین: انڈیا میں کئی سال بعد سامنے آنے والا مقدمہ جو ایک معمہ بنتا جا رہا ہےاپنی بیوی کا اجنبیوں سے مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’میری والدہ اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے اُن کا ریپ کروایا‘’یہ تم نے کیا ہے‘: جب ایک ڈاکٹر نے چند منٹ میں ساس، سسر سمیت چار افراد کو زہر دینے والی ’سنگ دل قاتلہ‘ کو پہچان لیا’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایالاہور میں ریپ سے متعلق ایسی کہانی گھڑی گئی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا: مریم نواز
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More