پاکستانی تاریخ کا بڑا مالیاتی سکینڈل ’بی فور یو‘ کیا ہے اور متاثرین کو کتنی رقم ادا کی گئی؟

اردو نیوز  |  Aug 23, 2025

پاکستان میں ’بی فور یو‘ سکینڈل حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے مالیاتی دھوکہ دہی کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے جس نے نہ صرف لاکھوں افراد کو متاثر کیا بلکہ ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی اور احتسابی نظام پر بھی سوالات اٹھائے۔یہ سکینڈل دراصل ایک ایسے کاروباری گروپ سے جُڑا ہوا تھا جس نے عام عوام کو غیر معمولی منافعے کی پیش کش کر کے اُن سے بھاری رقوم بٹوریں اور بعد میں اِن وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔

نیب اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی تحقیقات کے مطابق ’بی فور یو‘ کمپنی بظاہر سرمایہ کاری کا ایک نیٹ ورک تھا جسے کاروباری شخصیت سیف الرحمان نیازی نے شروع کیا تھا۔ کمپنی نے اپنی سرگرمیوں کو مختلف کاروباری شعبوں جیسے ریئل اسٹیٹ، آئی ٹی اور مائیکروفنانس کے ساتھ منسلک ظاہر کیا۔ سرمایہ کاروں کو یہ تاثر دیا گیا کہ اُن کے پیسے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور اُن سے ہر ماہ باقاعدہ منافعے کی صورت میں ماہانہ ریٹرن ملے گا۔عام طور پر لوگوں کو 6 سے 10 فیصد تک ماہانہ منافع دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا جو مارکیٹ کے عام منافعے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا۔ ’بی فور یو‘ نے اپنے متاثرین کو مختلف پیکجز اور سکیموں کے ذریعے متوجہ کیا۔ عوام سے کہا گیا کہ وہ اپنی رقم مختلف منصوبوں میں لگائیں اور انہیں ماہانہ بنیادوں پر 15 سے 20 فیصد تک منافع دیا جائے گا۔یہ منافع عملی طور پر کسی بھی جائز کاروباری سرگرمی کے ذریعے ممکن نہیں تھا۔ اِن پُرکشش دعوؤں نے خاص طور پر متوسط طبقے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، جو محفوظ سرمایہ کاری کی تلاش میں تھے۔اس سکینڈل میں متاثرین کی تعداد چار لاکھ تک بتائی جاتی ہے اور ان کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے تھا۔ متعدد اندازوں کے مطابق اس سکینڈل میں اربوں روپے کی رقم ڈُوب گئی۔ کمپنی نے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اس منصوبے میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا، جس کے نتیجے میں کئی خاندان اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو گئے۔سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سمیت ملک کے مالیاتی ریگولیٹری ادارے خصوصاً اس معاملے میں خاصی تنقید کی زد میں آئے۔

نیب کے مطابق ’بی فور یو‘ کے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ نقصان کا حجم اربوں روپے ہے (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

ناقدین کا موقف تھا کہ ایس ای سی پی کو بروقت کارروائی کر کے اس سکیم کو روکنا چاہیے تھا، تاہم ادارے نے تاخیر سے مداخلت کی۔ جب متاثرین کی شکایات بڑھنے لگیں اور معاملہ میڈیا میں آیا تو ایس ای سی پی نے تحقیقات کا آغاز کیا اور ’بی فور یو‘ کے خلاف کارروائی شروع کی۔سنہ 2019 میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے ’بی فور یو‘ کے کاروبار کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ابتدائی طور پر ایس ای سی پی کو شک تھا کہ کمپنی غیرقانونی سرمایہ کاری کی سکیم چلا رہی ہے کیونکہ وہ بغیر کسی لائسنس کے عوام سے براہِ راست سرمایہ جمع کر رہی تھی۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ’بی فور یو‘ کی بیشتر کمپنیاں رجسٹرڈ تو تھیں مگر انہیں عوام سے ڈیپازٹس لینے یا سرمایہ کاری کی پیش کش کرنے کی اجازت حاصل نہیں تھی۔اس کے باوجود کمپنی نہ صرف یہ عمل جاری رکھے ہوئے تھی بلکہ اپنی تشہیری مہم میں قانونی کاروبار کا دعویٰ بھی کر رہی تھی۔ ایس ای سی پی نے کمپنی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور بعض کمپنیوں کو نوٹسز اور انتباہ بھی جاری کیے۔ایس ای سی پی کی نشان دہی کے بعد معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس پہنچ گیا۔ نیب نے باقاعدہ تحقیقات شروع کیں اور یہ بات سامنے آئی کہ ’بی فور یو‘ دراصل ایک پونزی سکیم پر مبنی کاروبار تھا۔ 

جیسے ہی سرمایہ کاروں کا دائرہ سُکڑنے لگا تو کمپنی نے لوگوں کو منافعے کی ادائیگیاں روک دیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس ماڈل میں پُرانے سرمایہ کاروں کو نفع دینے کے لیے نئے سرمایہ کاروں کی رقوم استعمال کی جاتی تھیں۔ جب تک نئے سرمایہ کار آتے رہے، کمپنی منافع دیتی رہی، لیکن جیسے ہی سرمایہ کاروں کا دائرہ سُکڑنے لگا تو کمپنی نے ادائیگیاں روک دیں۔نیب نے اس دوران ’بی فور یو‘ کے بانی سیف الرحمان نیازی کو گرفتار کر لیا اور اُن کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات درج کیے۔تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ کمپنی نے پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کیا تھا اور مذہبی، سماجی اور کاروباری حلقوں کے ذریعے لوگوں کو سرمایہ کاری کے لیے قائل کیا گیا۔نیب کی تحقیقات کے مطابق ’بی فور یو‘ کے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے جبکہ نقصان کا حجم اربوں روپے ہے۔چھوٹے دکان داروں سے لے کر اوورسیز پاکستانیوں تک سب ہی اس فراڈ کا شکار بنے۔ بعض رپورٹس کے مطابق کمپنی کے متاثرین کی تعداد تین سے چار لاکھ کے درمیان تھی۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی زمینیں بیچ کر پیسہ لگایا یا بیرونِ ملک سے رقوم بھیج کر سرمایہ کاری کی۔ اس دھوکے نے نہ صرف لوگوں کی مالی حالت تباہ کی بلکہ کئی خاندان معاشی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئے۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ’بی فور یو‘ دراصل ایک پونزی سکیم پر مبنی کاروبار تھا (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

جب مقدمات عدالتوں میں پہنچے تو ’بی فور یو‘کے بانی سیف الرحمان نیازی نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کی کوشش کی تاکہ کچھ رقم واپس کر کے ضمانت حاصل کی جا سکے۔تاہم متاثرین کی بڑی تعداد اور نقصان کے حجم کی وجہ سے ریکوری کا عمل انتہائی سست رہا۔ عدالتوں نے نیب اور ایس ای سی پی کو ہدایت کی کہ وہ متاثرین کو رقوم کی واپسی کے لیے موثر اقدامات کریں۔ نیب نے تحقیقات کے دوران کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزمان کے 56 بینک اکاؤنٹس، جائیدادوں اور دیگر اثاثوں کو منجمد کیا۔عدالتی احکامات کی روشنی میں چھ سال بعد اب قومی احتساب بیورو (نیب) راولپنڈی نے پاکستان کی تاریخ کے ایک بڑے مالیاتی سکینڈل ’بی فور یو‘ کیس کے متاثرین کو معاوضہ دینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔اس سلسلے میں نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی، جس میں 17 ہزار 500 متاثرہ افراد میں چیک تقسیم کیے گئے۔ قانونی کارروائی کے بعد اب تک 7 ارب 30 کروڑ روپے برآمد کیے جا چُکے ہیں جن میں سے پہلے مرحلے میں 3 ارب 70 کروڑ روپے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق پہلے مرحلے میں 10 ہزار متاثرین کو اُن کی پوری رقم ادا کر دی گئی ہے جبکہ 7 ہزار 500 متاثرین کو اُن کے واجبات کا 40 فیصد دیا گیا ہے۔ باقی 60 فیصد رقم آئندہ چھ ماہ کے دوران نیلام شدہ جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقوم کے بعد فراہم کی جائے گی۔نیب نے آئندہ مراحل میں متاثرین کو براہِ راست اُن کے بینک اکاؤنٹس میں ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انہیں نیب دفاتر کے چکر نہ لگانا پڑیں۔

 

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More