حکومت کا او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ، اظہارِ رائے پر قدغن؟

اردو نیوز  |  Aug 26, 2025

پاکستان میں اب تک او ٹی ٹی (اوور دی ٹاپ) پلیٹ فارمز یعنی وہ آن لائن پلیٹ فارمز جن پر آپ انٹرنیٹ کے ذریعے ویڈیو، ڈرامے، فلمیں اور براہِ راست چینلز دیکھ سکتے ہیں، پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے اور وہ اپنی نشریات کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن اب پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے وزارت قانون و انصاف کے اشتراک سے ایک ایسی سمری تیار کی ہے جو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق ہے۔

اس سمری میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کی ریگولیشن کا اختیار پیمرا کو دیا جائے۔

پیمرا پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو کہ چینلز کو ایس او پیز کے تحت چلنے کی اجازت دیتا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات وزارت قانون و انصاف کے ساتھ مل کر متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر رہی ہے جس کے بعد سمری حتمی منظوری کے لیے کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کو بھجوائی جائے گی۔

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’بہت سے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر قابلِ اعتراض مواد دکھایا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کی ریگولیشن پیمرا کے حوالے کرنے کی تجویز دی تھی۔‘

تاہم ان کے مطابق اس سے قبل کابینہ کمیٹی نے وزارت اطلاعات کی تجاویز مسترد کر دی تھیں، لیکن اب مزید ترامیم کے ساتھ یہ معاملہ دوبارہ کابینہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔

او ٹی ٹی میں کون سے پلیٹ فارمز شامل ہیں؟

او ٹی ٹی پلیٹ فارمز سے مراد ایسے آن لائن سٹریمنگ پلیٹ فارمز ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے ڈرامے، فلمیں، کھیلوں کی نشریات یا چینلز براہِ راست صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ ان کے لیے کسی کیبل یا ڈش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے پلیٹ فارمز میں یوٹیوب، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم ویڈیو، ڈزنی پلس اور پاکستان میں دستیاب ایپس جیسے ٹیپ میڈ ٹی وی، جیو ٹی وی ایپ اور اے آر وائی زیپ شامل ہیں۔

اردو نیوز نے حکومت کی اس سمری کے حوالے سے ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا حکومت کا یہ اقدام اظہارِ رائے پر پابندی کے مترادف ہوگا اور عام صارفین اس سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟

عطا اللہ تارڑ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’بہت سے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر قابلِ اعتراض مواد دکھایا جا رہا ہے۔‘ (فائل فوٹو: پی ٹی وی)پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم  ’بولو بھی‘ کے شریک بانی اسامہ خلجی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’او ٹی ٹی پلیٹ فارمز تو انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرتے ہیں، وہ پیمرا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ حکومت نے اگر ان کو اپنے دائرہ اختیار میں لانا ہے تو یقینی طور پر پیمرا کو قانونی طور پر یہ اختیارات دینا ہوں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’حکومت ایسے پلیٹ فارمز اور ان میں بہت سارے انٹرنیشنل پلیٹ فارمز بھی شامل ہیں، کے کانٹینٹ کی طرف جاتی ہے تو یہ اقدام سنسر شپ کے مترادف ہو گا۔ حکومت نے اگر کوئی ایسا اقدام کیا تو پھر آنے والے دنوں میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز کچھ خاص فلمز یا شوز نہ دکھائیں، تو اس سے اظہارِ رائے کی آزادی کے جو معنی ہیں ان پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔‘

اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ ’حکومت اگر کوئی ایسا کام کر رہی ہے تو اس کو تمام سٹیک ہولڈرز، یعنی ایسے پلیٹ فارمز چلانے والوں، ناظرین اور ماہرین سے بات چیت کر کے ہی اقدامات کرنے چاہییں، نہ کہ مشاورت کے بغیر ایسے فیصلے اور قانون سازی کر لی جائے۔‘

پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل رائٹس کے ایک اور ماہر روحان ذکی کے خیال میں حکومت نے جس طرح پیمرا کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا چینلز کو کنٹرول کیا ہے، اسی طرح او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو بھی اس اقدام کے ذریعے کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتی ہو گی۔

ان کے خیال میں ’اس کی وجوہات نہ صرف حالیہ دنوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی ہے، بلکہ مستقبل میں ایسی کشیدگی کے دوران پروپیگنڈا سے بچنے اور اپنی پسند کا کانٹینٹ چلانے کے لیے بھی حکومت اس قسم کے فیصلے کی طرف جا سکتی ہے۔‘

اسامہ خلجی کے مطابق او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پیمرا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ (فائل فوٹو: دی ٹریبیون)روحان ذکی نے اس کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کو ڈیجیٹل ایکسس کے حوالے سے قدغن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز تک آبادی کے محدود حصے کی رسائی ہے، اس لیے ملک میں عمومی طور پر اس کا بڑا اثر نہیں ہو گا۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ ’حکومت مکمل طور پر او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو کنٹرول نہیں کر سکتی، البتہ ان پر چلنے والے مخصوص کانٹینٹ پر پابندی لگا سکتی ہے اور صارفین کو وہ لنکس، جن کے ذریعے کانٹینٹ تک رسائی ممکن ہوتی ہے، عام صارفین کی دسترس سے باہر کر سکتی ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More