لیتھوینیا اور پولینڈ کے درمیان موجود تنگ پٹّی یا چھوٹا سا رقبہ ایسا ہے جسے ’سوالکی گیپ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق یہ نیٹو کا ’سب سے حساس‘ یا ’خطرناک علاقہ‘ ہے۔
اگر نیٹو اور روس کے درمیان کوئی تنازع شروع ہو جائے تو یہ تنگ پٹّی یا راہداری ایک اہم محاذ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ اگر روس اور بیلا روس مل کر اس راہداری کو بند کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کریں تو وہ بالٹک ریاستوں یعنی لیتھوینیا، لٹویا اور ایسٹونیا کو یورپ سے کاٹ سکتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ علاقے اپنے نیٹو اتحادیوں سے دور ہو سکتے ہیں۔
جون 2025 میں جرمنی کے چیف آف ڈیفینس جنرل کارسٹن بروئر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ نیٹو کے رکن ممالک کو آئندہ چار برسوں میں ممکنہ روسی حملے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ انھوں نے اس بات سے بھی خبردار کیا کہ روس ہر سال سینکڑوں ٹینک تیار کر رہا ہے، جن میں سے کئی سنہ 2029 تک یا اس سے بھی پہلے نیٹو رکن مُمالک کی مشرقی سرحد پر حملے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
جنرل بروئر نے ’سوالکی گیپ‘ کو بھی سب سے زیادہ کمزور علاقوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔
’سوالکی گیپ‘ کیا ہے؟BBCلیتھوینیا، جو بالٹک ریاستوں میں سے ایک ہے اس لائن یعنی راہداری کے شمال کی جانب واقع ہے جبکہ جنوب میں پولینڈ ہے
’سوالکی گیپ‘ نیٹو کے رکن ممالک پولینڈ اور لیتھوینیا کے درمیان 65 کلومیٹر کا ایک زمین کا ٹکڑا ہے یا یوں کہہ لیں کے ایک لمبی پٹی یا راہداری ہے۔ یہ راہداری بالٹک ریاستوں کو یورپ کے باقی حصے سے جوڑتی ہے اور بیلا روس کو روس کے مضبوط قلعہ نما علاقے کیلینن گراڈ سے الگ کرتی ہے۔
یہی واحد زمینی راستہ ہے کہ جس کے ذریعے نیٹو افواج لیتھوینیا، لٹویا اور ایسٹونیا تک پہنچ سکتی ہیں۔ ان تینوں ممالک کو بالٹک میں نیٹو کی ’کمزوری تصور‘ کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی عسکری صلاحیت باقی اتحادی مُمالک کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔
لیتھوینیا، جو بالٹک ریاستوں میں سے ایک ہے اس لائن یعنی راہداری کے شمال کی جانب واقع ہے جبکہ جنوب میں پولینڈ ہے۔ 65 کلومیٹر کا یہ زمین کا ٹکڑا ’کیلینن گراڈ‘ کو روس اور روس کے اتحادی بیلا روس سے جدا کرتا ہے۔
بی بی سی کے پروگرام سکیورٹی بریف کے میزبان اور برطانوی فوج کے سابق ہیلی کاپٹر پائلٹ و عسکری حکمتِ عملی کے ماہر مائیکی کے وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’فی الحال کیلینن گراڈ کا روس سے واحد رابطہ فضائی ہے، جو خلیجِ فن لینڈ کے ذریعے سینٹ پیٹرزبرگ کے علاقے تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا ’سوالکی گیپ‘ سب سے مختصر راستہ ہے جو کیلینن گراڈ اور بیلا روس کے درمیان کسی قسم کی زمینی راہداری قائم کر سکتا ہے۔‘
کیلینن گراڈ اور سوالکی گیپ دونوں کو بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ روس ان کا استعمال کر کے بالٹک ریاستوں کو یورپ کے باقی حصے سے زمینی طور پر کاٹ سکتا ہے اور پھر سمندر میں ناکہ بندی کر سکتا ہے۔
یہ علاقہ گھنے جنگلات، پہاڑیوں اور جھیلوں سے بھرا ہوا ہے جو حملہ آوروں کے مقابلے میں دفاع کرنے والوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔
نیٹو اور روس کے لیے ’سوالکی گیپ‘ کی سٹریٹیجک اہمیتSean Gallup/Getty Imagesنیٹو اور روس کے لیے 'سوالکی گیپ' کی سٹریٹیجک اہمیت ہے
’سوالکی گیپ‘ کا سٹریٹیجک محل وقوع اسے وسطی اور مشرقی یورپ میں نیٹو کے دفاعی ڈھانچے کے لیے نہایت اہم بناتی ہے۔ پولینڈ کی یاگیلونیئن یونیورسٹی کے محکمہ قومی سلامتی کے پروفیسر داریوش کوزیراوسکی اسے ’نیٹو اور روسی اسٹریٹیجک مفادات کے مرکز پر واقع حساس خطہ‘ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی بنیادی اہمیت اس امکان سے جڑی ہے کہ روسی فوج اس پر قبضہ کر کے تین نیٹو رکن ممالک (لیتھوینیا، لٹویا اور ایسٹونیا) کو اتحادیوں کی زمینی مدد سے کاٹ سکتی ہے۔‘
دسمبر سنہ 2015 میں روس کے کریمیا کے الحاق کے چند ماہ بعد یورپ میں امریکی فوج کے اُس وقت کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بین ہوجز نے پینٹاگون میں بریفنگ کے دوران اس خطے کی کمزوریوں کی جانب توجہ دلائی تھی، خاص طور پر روس کی بڑھتی ہوئی ’فوجی مشقوں‘ کا ذکر کیا تھا۔
سنہ 2018 کی ایک رپورٹ ’سکیورنگ دی سوالکی کاریڈور: سٹریٹجی، سٹیٹکرافٹ، ڈیٹیرنس اینڈ ذیفنس‘ میں جنرل ہوجز نے سوالکی گیپ کو مُمکنہ طور پر ایک ’خطرناک مقام‘ قرار دیتے ہوئے نیٹو کی موجودگی اور صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے عملی اقدامات تجویز کیے تھے۔
پولینڈ کے لیے یہ راہداری کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ اہم ہے۔
پروفیسر کوزیراوسکی کے مطابق ’پولینڈ کے لیے سوالکی گیپ سیاسی، اقتصادی اور عسکری لحاظ سے بھی نہایت اہم ہے۔‘
یہی وہ مقام ہے جہاں سے بالٹک ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاملات نبھانے میں آسانی ہوتی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس زمین کے ٹکڑے پر موجود ترقی یافتہ ریل کا نظام اور اچھی سڑکیں ہیں۔ یہاں معاملہ صرف تجارت تک محدود نہیں ہے بلکہ عسکری طور پر بھی اس علاقے کی اہمیت خاصی زیادہ ہے۔
پروفیسر کوزیراوسکی وضاحت کرتے ہیں کہ ’سوالکی گیپ امن کے وقت فوجی یونٹسں، سازوسامان اور گولہ بارود کو لیتھوینیا، لٹویا اور ایسٹونیا تک پہنچانے، سرحدی حفاظت جس کے لیے نیٹو افواج باری باری تعینات رہتی ہیں، مشترکہ تربیت اور ایک ساتھ ہونے والا فوجی مشقوں کے لیے سہولت فراہم کرتا ہے۔‘
’جبکہ بحران یا مسلح تصادم کی صورت میں سوالکی گیپ پر کنٹرول بالٹک ریاستوں کو فوجی اور انسانی امداد فراہم کرنے کو ممکن بنانے میں اہم کرداد ادا کرے گا۔‘
نئی اور جدید سرحدی ’دیوار‘ جو یورپ کو ممکنہ روسی حملے سے بچانے میں مدد کرے گیدیوارِ ٹرمپ دیگر دیواروں کے سامنے کیسی؟میکسیکو دیوار:’رقم نہیں دینی تو دورۂ امریکہ منسوخ کردیں‘سرحد پار جمی نظریں اور ’کوریئر‘ کا انتظار: انڈیا کا نیا اینٹی ڈرون نظام جو ’چٹا‘ کی سمگلنگ روکنے کے لیے بنایا گیا ہےخطے کے ممالک کس طرح ممکنہ خطرے کا مقابلہ کر رہے ہیں؟Sean Gallup/Getty Imagesسوالکی گیپ کا اسٹریٹیجک مقام اسے وسطی اور مشرقی یورپ میں نیٹو کے دفاعی ڈھانچے کے لیے نہایت اہم بناتا ہے۔
ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوینیا اپنی سرحدوں کے ایک ہزار میل طویل حصے کو مضبوط بنا رہے ہیں جو نیٹو کے مشرقی محاذ کا سب سے زیادہ عسکری طور پر کمزور علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
ان تینوں ممالک نے جنوری 2024 میں اعلان کردہ ’بالٹک ڈیفنس لائن انیشی ایٹو‘ کے تحت ٹینک شکن بنکر کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے۔
اسی طرح کا ایک منصوبہ ’ایسٹ شیلڈ پروجیکٹ‘ کے نام سے پولینڈ نے بھی شروع کیا تاکہ اپنی مشرقی سرحدوں کو بیلا روس اور کیلینن گراڈ کے خلاف مضبوط بنایا جا سکے۔ حکام نے نومبر 2024 میں رکاوٹیں، باڑیں اور فوجی تنصیبات تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سنہ 2028 تک متوقع ہے۔
یورپی پارلیمان نے اپریل سنہ 2025 میں ایک قرارداد منظور کی جس میں ’ایسٹ شیلڈ‘ اور ’بالٹک ڈیفنس لائن‘ کو مشترکہ حفاظت اور سلامتی کے لیے اہم منصوبے قرار دیا۔
پولینڈ اس سال اپنے معاشی پیداوار کا چار اعشاریہ سات فیصد سے زائد مُلکی دفاع پر خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جو نیٹو کے تمام رکن ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ لیتھوینیا نے سنہ 2026 سے سنہ 2030 کے درمیان اپنے دفاعی اخراجات تین فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کر دیے ہیں۔
نیٹو کے رکن ممالک فن لینڈ، پولینڈ اور تین سابق سوویت بالٹک ریاستیں جن میں ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوینیا شامل ہیں یا تو بارودی سرنگوں پر پابندی عائد کرنے والے اوٹاوا کنونشن سے نکل چکے ہیں یا ایسا کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ یہ اس بنیاد پر کہ پڑوسی مُلک روس کی جانب سے عسکری محاذ کے کھولے جانے کا خطرہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔
پھر بھی پروفیسر کوزیراوسکی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی حفاظت کے لیے جو قدم اُٹھائے جا رہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’نیٹو کے مشرقی محاذ، بشمول سوالکی گیپ خطے میں فوجی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے اور فروغ دینے کے لیے اتحادی ریاستوں کی شرکت کے ساتھ وقتاً فوقتاً فوجی مشقوں کا ہونا ضروری ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’نیٹو اس خطے میں باضابطہ طور پر اتنی بڑی مشقیں منعقد نہیں کرتا جن میں اعلیٰ سطح کے فوجی اہلکار شامل ہوں اور جن میں فوجیوں کی تعداد دسیوں ہزارہو۔‘
کیا روس حملہ کر سکتا ہے؟Bloomberg via Getty Imagesپولینڈ اپنی مشرقی سرحدوں کو بیلا روس اور کیلینن گراڈ کے ساتھ مضبوط بنانے پر کام کر رہا ہے
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ روس خطرہ ضرور بن سکتا ہے، لیکن جب تک یوکرین کی جنگ جاری ہے سوالکی گیپ پر براہِ راست حملے کا امکان کم ہے۔
مشرقی مطالعاتی مرکز او ایس ڈبلیو کی ڈپٹی ڈائریکٹر اور سلامتی و دفاعی شعبے کی سربراہ جسٹینا گوٹکووسکا کہتی ہیں کہ ’روس کے جارحانہ مقاصد نیٹو کے شمال مشرقی محاذ کے خلاف ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’جب تک یوکرین میں جنگ جاری ہے روس کی جانب سے بالٹک ریاستوں پولینڈ، فن لینڈ، سویڈن یا دیگر یورپی ممالک پر حملے کا امکان کم ہے۔‘
’لیکن اگر جنگ روس کے حق میں ختم ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ روس ہمارے خطے میں نیٹو ممالک کو چیلنج کرے اور بالٹک ریاستوں، پولینڈ، فن لینڈ اور دیگر ممالک پر حملہ کر دے۔‘
دوسری جانب یوکرینی نشریاتی ادارے ٹی ایس این اور عسکری تجزیاتی ویب سائٹ ٹیکنئی Tochnyi کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اپنی کیلینن گراڈ کے محصور علاقے میں بڑے پیمانے پر سگنلز انٹیلیجنس (SIGINT) کی تنصیب تیار کر رہا ہے تاکہ نیٹو کے مشرقی محاذ کے قریب اپنی الیکٹرانک نگرانی کی صلاحیتیں بڑھا سکے۔
عسکری تجزیاتی ویب سائٹ ٹیکنئی نے اگست 2025 میں رپورٹ کیا تھا کہ ’اس مرکز سے روس نیٹو کے اندر تک ٹیکٹیکل کمیونیکیشنز، ریڈار نیٹ ورکس اور یہاں تک کہ شہری ڈھانچے کے بعض عناصر کی بھی نگرانی کر سکے گا۔‘
اسی دوران بیلا روس اور روس سرحد کے قریب مشترکہ فوجی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک مبینہ طور پر ستمبر میں ایک نئی مشق زاپاڈ 2025شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مائیکی کے خبردار کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’ایسی مشقیں فوجی تیاریوں کو چھپانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں جیسا کہ کریمیا کے سنہ 2014 میں ہونے والے الحاق اور یوکرین پر سنہ 2022 میں ہونے والے حملے سے پہلے دیکھا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پوتن نے ان نام نہاد تربیتی کارروائیوں کے ذریعے فوجی صلاحیتیں بڑھا کر بعد میں جارحانہ اقدامات کرنے کی مثال قائم کی ہے۔‘
مائیکی کے مزید ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا امریکہ خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات پر کیسے ردِعمل دے گا ’بالٹک ریاستوں کے اندر کشیدگی اور تشویش کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس لیے کہ یہاں اس بات پر اعتماد کی کمی ہے کہ امریکہ، نیٹو کے تحت، پوتن کی کسی بھی جارحیت پر کس قسم کا جواب دے گا۔‘
نئی اور جدید سرحدی ’دیوار‘ جو یورپ کو ممکنہ روسی حملے سے بچانے میں مدد کرے گیدیوارِ ٹرمپ دیگر دیواروں کے سامنے کیسی؟سرحد پار جمی نظریں اور ’کوریئر‘ کا انتظار: انڈیا کا نیا اینٹی ڈرون نظام جو ’چٹا‘ کی سمگلنگ روکنے کے لیے بنایا گیا ہےمیکسیکو دیوار:’رقم نہیں دینی تو دورۂ امریکہ منسوخ کردیں‘شمالی کوریا اپنی سرحد پر باڑ کیوں تعمیر کر رہا ہے؟