پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آئے روز آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور شہریوں کو کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہ مسئلہ اب صرف اسلام آباد کے نواحی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ شہر کے مختلف سیکٹرز میں بھی آوارہ کتوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے، حتیٰ کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے آس پاس بھی آوارہ کتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ کتے بالخصوص رات کے وقت جُھنڈ کی صورت میں گھومتے ہیں اور آئے روز کسی نہ کسی شخص کو کاٹ لیتے ہیں جس کے باعث شہری شدید خوف کا شکار ہیں۔
یہ معاملہ ماضی میں اسلام آباد کی عدالتوں کے نوٹس میں بھی آیا تھا، جنہوں نے سی ڈی اے کو ضروری اقدامات کی ہدایت کی تھی۔وفاقی محتسب نے بھی اب آوارہ کتوں کی جانب سے بزرگوں اور بچوں کو کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔وفاقی محتسب نے متعلقہ اداروں کی بے پروائی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سی ڈی اے اور میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کو چاہیے کہ آوارہ کتوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔‘اُن کے مطابق ’رہائشی علاقوں، پارکوں، ہسپتالوں اور مارکیٹوں میں آوارہ کتوں کی موجودگی اور کاٹنے کے واقعات کی متعدد شکایات موصول ہو رہی ہیں۔‘ وفاقی محتسب کا کہنا ہے کہ ’تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ بعض اوقات سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے علاج کے لیے ویکسین بھی دستیاب نہیں ہوتی۔‘یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی تعداد سے متعلق کوئی سرکاری اور مستند اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم غیرسرکاری تنظیموں کے مطابق ’شہر میں کم سے کم 50 ہزار آوارہ کتے موجود ہیں۔‘اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی آبادی پر قابو پانے کا مسئلہ سب سے پہلے 2020 میں اٹھایا گیا تھا جب اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری سٹرے ڈاگ کنٹرول پالیسی سامنے آئی تھی۔
اینیمل رائٹس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد میں آوارہ کتوں کے لیے قائم کیا گیا سینٹر فعال نہیں رہا‘ (فائل فوٹو: پِکسابے)
سنہ 2020 میں سامنے آنے والی اس پالیسی کے تحت ایک فریم ورک اور قواعد تشکیل دیے گئے تھے کہ ان آوارہ کتوں کو کیسے قابو میں لایا جائے۔اس پالیسی میں یہ تجاویز شامل تھیں کہ کتوں کو پکڑ کر ان کی نس بندی اور ویکسینیشن کی جائے تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ نہ ہو۔ اس طریقۂ کار کو ٹریپ، نیوٹر، ویکسینیٹ ریٹرن (TNVR)کہا جاتا ہے۔بعد ازاں 2022 میں اسلام آباد کے علاقے ترلائی میں پہلا Stray Dog Population Control Centre (SDPCC) قائم کیا گیا تاکہ آوارہ کتوں کو پکڑنے، سرجری کرنے اور ویکسین لگانے کے بعد انہیں دوبارہ چھوڑا جا سکے۔تاہم اینیمل رائٹس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سینٹر تو قائم کر دیا گیا مگر مناسب قواعد و ضوابط نہ بننے، اہل افراد کو ذمہ داری نہ دینے اور ناقص انتظامات کے باعث یہ نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے۔اردو نیوز نے اس سلسلے میں پاکستان کی پہلی اینیمل لا فرم ’انوائرنمینٹل اینڈ اینیمل رائٹس کنسلٹنٹس پاکستان‘ کے بانی التمش سعید سے بات کی۔ان کی تنظیم نے ہی عدالتوں اور وفاقی محتسب کے پاس یہ معاملہ اٹھایا تھا اور وہ اب بھی اس کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔
’آوارہ کتوں کی تعداد پر قابو پانے کے لیے ویکسینیشن کے بعد انہیں چھوڑ دینے کا پروگرام بنایا گیا تھا‘ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
انہوں نے بتایا کہ ’میری کوششوں سے اگرچہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں کے کنٹرول کا پہلا مرکز قائم ہوا مگر قواعد و ضوابط نہ ہونے کے باعث سی ڈی اے کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔‘التمش سعید کہتے ہیں کہ ’بظاہر آوارہ کتوں کو پکڑ کر صرف برائے نام کارروائی کی جاتی ہے اور شُبہ ہے کہ انہیں دوبارہ چھوڑنے کے بجائے مار دیا جاتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’سینٹر کی حالت ابتر ہے، اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور وہاں بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ مؤثر طریقے سے جاری نہیں رہ سکا۔‘التمش سعید نے اپنی گفتگو میں مزید بتایا کہ ’دنیا بھر میں آوارہ کتوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے یہی طریقہ رائج ہے کہ کتوں کو پکڑ کر سینٹر لے جایا جائے۔‘’اس کے بعد اُن کی نس بندی اور ویکسینیشن کے بعد انہیں واپس چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ نہ ہو، مگر بدقسمتی سے اسلام آباد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘انہوں نے آخر میں کہا کہ ’وہ اس کیس کو اسلام آباد کی عدالتوں اور وفاقی محتسب کے سامنے بھی لڑ رہے ہیں اور امید ہے کہ جلد اس کا کوئی مناسب حل نکل آئے گا۔‘
سی ڈی اے کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے اقدامات تیز کر دیے گئے ہیں‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
اردو نیوز نے اس سلسلے میں وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے ڈائریکٹر پی آر شاہد کیانی سے معلوم کیا کہ اسلام آباد میں آوارہ کتوں پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اسلام آباد میں Stray Dog Population Control Centre مکمل طور پر فعال ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین سی ڈی اے نے آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اس حوالے سے ایس او پیز کے تحت خصوصی آپریشن جاری رکھا جائے، جس کے بعد اقدامات میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔