Getty Imagesگذشتہ مالی سال کے اختتام تک سرکلر ڈیٹ تقریباً 2400 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا
پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ایک بڑی پیشرفت کے طور پر وفاقی حکومت نے بجلی کے شعبے کے بڑھتے ہوئے سرکلر ڈیٹ یعنی گردشی قرضے پر قابو پانے کے لیے 18 بینکوں کے کنسورشیئم کے ساتھ 1200 ارب روپے کے فنانسنگ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب کے مطابق یہ ملکی تاریخ کی ’سب سے بڑی ری سٹرکچرنگ ڈیل‘ ہے جو توانائی کے شعبے کو ’بحران سے نکالنے میں سنگِ میل ثابت ہوگی۔‘
ملک میں توانائی کا شعبہ کئی برسوں سے سرکلر ڈیٹ کے بوجھ تلے دبا رہا ہے جس میں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، سبسڈیز، سرچارجز اور تاخیر سے ہونے والی ادائیگیاں شامل ہیں۔
گذشتہ مالی سال کے اختتام تک یہ قرضہ بڑھ کر تقریباً 2400 ارب روپے تک پہنچ گیا جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد حصہ بنتا ہے۔
گردشی قرض اُس مالیاتی خسارے کو کہا جاتا ہے جہاں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم سے وابستہ مختلف ادارے ایک دوسرے کے بڑے واجبات ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس میں وفاقی حکومت، نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز)، سرکاری بجلی تقسیم کار کمپنیاں، توانائی فراہم کرنے والے ادارے اور وہ مالیاتی ادارے شامل ہیں جو اس شعبے کو قرض فراہم کرتے ہیں۔ اکثر یہ ادارے ایک دوسرے کو بروقت ادائیگیاں نہیں کرتے جس کے نتیجے میں یہ قرض بڑھتا رہتا ہے۔
بینکوں سے حاصل کی جانے والی فنانسنگ کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ نظام میں سرمایہ آنے کے بعد بجلی پیدا کرنے والے اور تقسیم کار ادارے زیادہ موثر طریقے سے چل سکیں گے، یعنی لوڈشیڈنگ، ایندھن کی قلت اور اچانک بڑھنے والے نرخوں میں کمی آئے گی۔
اس کے ساتھ حکومت کو امید ہے کہ توانائی کے شعبے میں شفافیت اور استحکام بحال ہونے سے نئی سرمایہ کاری کے دروازے کھلیں گے، خاص طور پر بجلی پیدا کرنے، تقسیم کرنے اور قابلِ تجدید توانائی میں۔
حکومت کا موقف ہے کہ اس سے مستقبل میں لاگت مزید کم ہو سکے گی اور جب پرانے واجبات کسی حد تک ادا ہو جائیں گے تو حکومت اپنی توجہ اصلاحات پر مرکوز کر سکے گی جیسے تقسیم کار کمپنیوں کی طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانا۔
تاہم ناقدین کی رائے ہے کہ اس اقدام سے بجلی کے صارفین کو کوئی ریلیف ملنے کا امکان کم ہے۔
حکومت گردشی قرضوں کا مسئلہ کیسے حل کرنا چاہتی ہے؟
پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لیے حکومت نے 18 بڑے بینکوں کے ساتھ 1200 ارب روپے کی فنانسنگ کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ قرضہ اسلامی مالیاتی اصولوں کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اور اس کی واپسی بجلی کے بلوں میں پہلے سے شامل سرچارج کے ذریعے کی جائے گی تاکہ قرض دہندگان کو ادائیگی ہو سکے۔
بینکوں سے یہ پیسہ 0.9 فیصد شرح سود پر لیا جائے گا جس کی ادائیگی چھ سال کے عرصے میں ہوگی۔
بینکوں کی جانب سے دیے گئے اس قرضے کی ادائیگی چھ سال میں ہوگی۔ اس قرضے اور اس پر سود کی ادائیگی بجلی صارفین سے 3.23 روپے فی یونٹ کے حساب سے ڈیٹ سروس سرچارج (ڈی ایس ایس) کے ذریعے کی جائے گی۔ ڈی ایس ایس پہلے سے ہی صارفین سے بجلی کے بل میں وصول کیا جا رہا ہے۔
جمعے کو وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ماضی میں اس ضمن میں مہنگے قرضے لیے گیے تھے مگر اب موجودہ حکومت نے بینکوں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر کے ساڑھے تین سے ساڑھے پانچ فیصد کم سود کے ساتھ سستا قرضہ حاصل کیا ہے۔
گھر کی چھت پر سولر پینلز کی تنصیب سے بجلی کا بل ’زیرو‘ کرنے کا طریقہ کیا ہےآئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی: 137 ارب روپے کیسالانہ بچت کا دعوی لیکن بجلی کی فی یونٹ قیمت کتنی کم ہو گی؟کیا چین اور امریکہ کے درمیان ’محصولات کی تجارتی جنگ‘ سے پاکستان میں سولر پینل سستے ہوں گے؟ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے اس فیصلے کا بوجھ عوام پر پڑنے نہیں دیا۔ گردشی قرضہ ختم نہیں ہو رہا تھا، اب اسے ختم کر کے رہیں گے۔‘
اویس لغاری نے یہ بھی کہا کہ اگر آئندہ چھ برسوں میں بجلی کا استعمال زیادہ ہوا تو ممکن ہے کہ بقیہ گردشی قرضہ مقررہ مدت سے قبل ہی ختم ہو جائے۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کی پہلی بار ادائیگی نہیں ہو رہی بلکہ ماضی میں بھی کئی سو ارب روپے کی ادائیگی کی گئی تھی۔
AFPملک میں اس وقت 46000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ 30000 ہزار میگاواٹ سے بھی کم ہوئی ہے
معاشی اور توانائی امور کے تجزیہ کار علی خضر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2013 میں 500 ارب کا مالی پیکجگردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے دیا تھا تاہم اس کے بعد یہ قرضہ بڑھتا رہا۔
انھوں نے کہا کہ اب اس نئے بندوست میں 1200 ارب بینکوں سے لے کر اس قرضے کو ختم کرنے کا یہ نیا منصوبہ لایا گیا جس کی ادائیگی صارفین کو ڈی ایس ایس کے ذریعے ادا کرنی پڑے گی جو وہ پہلے سے ادا کر رہے ہیں۔
علی نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کے اقدامات صرف سٹاک کو کم کرنے پر ہیں، جیسے سیٹلمنٹ، ادائیگیاں یا ری سٹرکچرنگ۔ 'لیکن اس میں اضافے کو قابو نہیں کر رہے جو کہ صرف ایک مہینے میں 47 ارب روپے بڑھ گیا۔'
انھوں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ بنیادی مسائل جیسے کہ بجلی کی چوری، لائن لاسز، تاخیر سے ادائیگیاں، ناکافی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، سبسڈی وغیرہ بدستور موجود ہیں اور قرضے کو بڑھا رہے ہیں۔
کیا صارفین کو کوئی ریلیف ملے گا؟
حکومت کی جانب سے گردشی قرضے سے نمٹنے کے لیے بینکوں سے 1200 ارب روپے کی فنانسنگ سے بینکوں کو سود کی مد میں منافع ملے گا۔ جبکہ پاور کمپنیوں کے کیش فلو کی صورتحال بہتر ہوگی۔ مگر ماہرین کے بقول صارفین کے لیے ریلیف کا امکان کم ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ماہر توانائی امور ڈاکٹر عافیہ ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں صارفین کے لیے کوئی فائدہ نہیں بلکہ انھیں مزید ڈی ایس ایس کی ادائیگی کرنی پڑے گی جو وہ پہلے سے ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ویسے بھی اس فنانسنگ سے پورا قرضہ ادا نہیں ہوا بلکہ اس کا ایک حصہ ادا کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ گردشی قرضے اس شعبے میں مسائل پیدا کرتے رہیں گے اور اس کا بوجھ صارفین کو اٹھانا پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا کہ کیسے اس گردشی قرضوں میں اضافے کو روکا جائے کیونکہ صرف جولائی کے مہینے میں اس میں 47 ارب روپے کا اضافہ ہوا یعنی اس کے بڑھنے کی وجوہات موجود ہیں۔ ’سب سے بڑا مسئلہ لائن لاسز کا ہے اور اس کے ساتھ بجلی کی چوری اور بجلی کی طلب کا کم ہونا ہے جبکہ حکومت کو پاور کمپنیوں کو کیپسیٹی پیمنٹ پوری ادا کرنی ہوتی ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال بجلی کی قیمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر اس ادائیگی کے بعد بھی گردشی قرضے میں کوئی کمی نہیں ہوئی تو بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
علی خضر کا کہنا ہے کہ فی الحال تو کسی کمی کا امکان نہیں ہے اور صارفین کو پہلے کی طرح 3.23 روپے فی یونٹ ڈی ایس ایس ادا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے کہا ڈی ایس ایس کے بڑھنے کا رسک بھی موجود ہے اور اس کا بوجھ ان صارفین پر پڑے گا جو پہلے ہی سسٹم میں نقائص کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کو خدشہ ہے کہ گردشی قرضہ مسلسل بڑھتا رہے گا اور چند سالوں میں ایک اور ایسا ہی منصوبہ یا پھر براہِ راست ٹیکس دہندگان کے پیسے سے مالی امداد درکار ہوگی۔
ڈاکٹر عافیہ کی رائے ہے کہ ملک میں جہاں بجلی کی ترسیل و تقسیم میں نقائص اور چوری ہے جس کی وجہ سے بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے بڑھتے ہیں تو اس کے ساتھ بجلی کی کھپت میں ہونے والی کمی کہ وجہ سے کیپسیٹی پیمنٹ کی ادائیگی بہت بڑا مسئلہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'لوگ زیادہ تر سولر کی طرف آ رہے ہیں اور صنعتی شعبوں میں بھی کھپت نہیں ہو رہی جس کا مطلب ہے کہ کیپسیٹی پیمنٹ کی ادائیگی زیادہ کرنا پڑے گی جو بجلی کے ٹیرف میں کمی نہیں ہونے دے گی۔'
’ملک میں اس وقت 46000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ 30000 ہزار میگاواٹ سے بھی کم ہوئی ہے۔۔۔ جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو پاور کمپنیوں کو زیادہ کیپسیٹی پیمنٹ ادا کرنے پڑے گی اور یہ صارفین سے وصول کی جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ جب تک بجلی کے شعبے میں اصلاحات نہیں ہوتیں اور سسٹم میں نقائص اور چوری نہیں رکتی تب تک سرکلر ڈیٹ کا ایشو برقرار رہے گا۔
وہ متنبہ کرتی ہیں کہ 'آئی ایم ایف یہ کہہ سکتا ہے کہ ڈی ایس ایس بڑھائیں تاکہ مالی خسارے کو کم کیا جا سکے جو صارفین کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔'
گھر کی چھت پر سولر پینلز کی تنصیب سے بجلی کا بل ’زیرو‘ کرنے کا طریقہ کیا ہےپاکستان میں بجلی کی قیمت میں کمی سے بِل میں کتنی بچت ہو گی اور کیا یہ ریلیف قائم رہ پائے گا؟پاکستان کا اضافی بجلی سے بٹ کوائن کی مائننگ کا منصوبہ کتنا قابلِ عمل ہے؟کیا چین اور امریکہ کے درمیان ’محصولات کی تجارتی جنگ‘ سے پاکستان میں سولر پینل سستے ہوں گے؟آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی: 137 ارب روپے کیسالانہ بچت کا دعوی لیکن بجلی کی فی یونٹ قیمت کتنی کم ہو گی؟