اسرائیل کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے قطر سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حماس کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اس کے رہنماؤں کو ملک بدر کرے ورنہ ’اسرائیل خود ایسا کرے گا۔‘
اسرائیل کی قطر کو دی جانے والی دھمکیوں کے بعد اب یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ اگر دوحہ نے اسرائیل کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے تو کیا انھیں دوبارہ اسرائیلی حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
ستمبر کے آغاز میں دوحہ میں اسرائیلی حملے کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ حماس کے رہنماؤں پر ’وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے‘ مزید حملے کر سکتے ہیں۔
اگرچہ امریکہ نے قطر پر اسرائیلی حملے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا تاہم اس نے حماس کے خاتمے کے لیے اسرائیل کو ’مستقل حمایت‘ کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔
بی بی سی سے اس معاملے پر بات کرنے والے سیاسی تجزیہ کاروں نے دوحہ کے خلاف اسرائیلی دھمکیوں کو سنجیدہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں قیدیوں اور جنگ بندی پر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو قطر حماس کے اراکین کی میزبانی پر نظرِثانی کر سکتا ہے۔
کیا قطر کو اب ایک اور اسرائیلی حملے کا خطرہ ہے؟
سلطان برکات قطر کی حماد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کالج آف پبلک پالیسی میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اسرائیلی دھمکیوں کو ’حقیقت پسندانہ‘ قرار دیا، خاص طور پر نیتن یاہو کے بیانات اور اسرائیل کے اقوام متحدہ کے مندوب کے ان بیانات کے بعد جنھوں نے قطر سے مطالبہ کیا کہ وہ ’حماس کے اراکین کو ملک بدر کرے، انھیں انصاف کے کٹہرے میں لائے یا اسرائیل کو یہ سب کرنے دیا جائے۔‘
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے برکات نے کہا کہ اسرائیل کی دھمکی کو ’سنجیدگی سے‘ لینا چاہیے کیونکہ وہ کسی نہ کسی طرح امریکہ سے گرین سگنل حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود کہ ٹرمپ نے قطر کے امیر سے اسرائیلی حملے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ ’اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔‘
اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران کہا کہ ’قطر کو لازماً حماس کے اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے اور اس کے اراکین کو ملک بدر کرنا چاہیے، ورنہ اسرائیل یہ کرے گا۔‘
انھوں نے زور دیا کہ اسرائیل ’دہشت گردی کا پیچھا کرے گا، چاہے وہ زیرِ زمین سرنگوں میں ہوں یا محفوظ ترین ہوٹلوں میں۔‘
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مئیر مصری کا خیال ہے کہ ’قطر ایک اور اسرائیلی حملے کے خطرے کے سائے میں ہے اور رہے گا، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ قطر حماس کے رہنماؤں کو پناہ دینے، ان کی حمایت کرنے اور انھیں مالی امداد دینے پر مُصر ہے۔‘
دوحہ حماس کے جن رہنماؤں کی میزبانی کرتا ہے ان میں خلیل الحیہ، خالد مشعل اور ظاہر جبارین شامل ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’قطری حکام یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے پُرعزم ہے اور جو کچھ دوحہ میں ہوا، وہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔
’اسی لیے وہ مستقبل میں قطری شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے حماس کے اراکین پر سخت سکیورٹی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘
اس کے برعکس سعودی مصنف اور محقق مبارک العتی نے نیتن یاہو کے اس امکان کو ’مکمل طور پر‘ مسترد کر دیا کہ وہ دوبارہ ’قطری سرزمین پر حملے کریں گے۔ خاص طور پر اُن امریکی یقین دہانیوں اور ضمانتوں کے بعد جو دوحہ کے سامنے رکھی گئی ہیں۔‘
دوحہ پر اسرائیلی حملے میں حماس کے پانچ ارکان اور قطری سکیورٹی فورس کا ایک رکن ہلاک ہوا تھا۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے امیر کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ’اسرائیل دوبارہ قطر پر حملہ نہیں کرے گا۔‘
العتی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قطری اقدامات مکمل طور پر بین الاقوامی قانون کے مطابق تھے کیونکہ اسرائیلی حملے کے بعد قطری سیاسی بیانیہ بڑی احتیاط سے امریکی موقف کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔‘
العتی کے مطابق ’قطر اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اسرائیلی اقدامات کے لیے ایک رکاوٹ ہے اور یہ کہ واشنگٹن بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔
’لہٰذا قطر اس بات کو اہم سمجھتا ہے کہ وہ امریکی اثر و رسوخ پر انحصار کر سکتا ہے۔‘
Getty Images9 ستمبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملے کے مناظر۔کیا قطر حماس کے رہنماؤں کو ملک بدر کر رہا ہے؟
مئیر مصری کے مطابق اسرائیلی دھمکیوں کے بعد حماس کے اراکین کو قطری سرزمین سے نکالنے پر غور ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ’قطر نے حماس کے ساتھ اگر اپنے روابط پر نظرِ ثانی نہ کی تو اس سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
برکات نے کہا کہ ’اگر قطر حماس کو ملک بدر کرتا ہے تو اسرائیل اسے دوحہ پر اسرائیلی حملے کی کامیابی قرار دے گا جو اسرائیل کے جارحانہ موقف کو مزید مضبوط کرے گا۔ ایک مطلب یہ بھی لیا جائے گا کہ عرب ممالک سے نمٹنے کا واحد ممکنہ طریقہ یہی ہے۔‘
ان کا ماننا تھا کہ ’بہتر یہ ہوگا کہ حماس کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھا جائے اور اس تعلق کو ان امور پر طے پائے گئے نکات کی بنیاد پر دوبارہ تشکیل دیا جائے جیسے غزہ کا مستقبل، فلسطینی ریاست کا قیام وغیرہ۔ حماس بھی اسرائیلی حملے کے بعد اپنے دفاتر کو دوحہ میں کھولے رکھنے یا بند کرنے کا فیصلہ خود کر سکتا ہے، بجائے اس کے کہ کوئی فیصلہ مسلط کیا جائے۔‘
اسی تناظر میں امیر فاخوری جو امریکی یونیورسٹی ان دی امارات کے کالج آف لا میں پروفیسر ہیں نے کہا کہ ’حماس کو قطر سے نکالنے کا خیال نظریاتی طور پر تو سمجھ آتا ہے، خاص طور پر اگر اسرائیلی دھمکی کو دیکھا جائے۔ نیتن یاہو اور اسرائیلی سیاستدانوں کی جانب سے مطالبات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ قطر حماس کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کا کوئی قدم اُٹھائے گا۔‘
فاخوری نے کہا کہ ’حماس کے رہنماؤں کو جلاوطن کرنا قطر کے کردار کو کمزور کر سکتا ہے یا اسے ایک بڑی سیاسی رعایت سمجھا جا سکتا ہے جو مستقبل میں ثالثی کی صلاحیت کو کمزور کرے گی۔‘
’اگر قطر اس مطالبے کو مان لیتا ہے تو یہ کمزور دکھائی دے گا اور میرا نہیں خیال کہ قطر ایسا نظر آنا چاہے گا۔ لہٰذا مکمل طور پر حماس کے قطر سے چلے جانے کا امکان کم ہے، لیکن ہاں یہ ایک آپشن ضرور ہے۔‘
فاخوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قطر درمیانی راستہ اختیار کر سکتا ہے یعنی ان حماس اراکین کو سامنے سے ہٹا دے کہ جن کے فوجی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔‘
’حماس کی جانب سے قطر چھوڑنے پر غور ہو سکتا ہے‘
العتی کا کہنا ہے کہ عین مُمکن ہے کہ اگر حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں اور مذاکرات جاری رکھنے کی کوئی سیاسی وجہ باقی نہیں رہتی تو حماس کے رہنما اس خطے کو چھوڑ دیں تاکہ قطر کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
العتی نے مزید کہا کہ ’اگر ثالثی ختم ہو جاتی ہے تو قطر حماس کے اراکین کو اپنی سرزمین چھوڑنے کی ہدایت کر سکتا ہے تاکہ کسی فریق کی طرف سے الزامات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اسرائیل کے مُمکنہ حملے سے بچا جا سکے۔‘
اسرائیلی حملے، دوحہ سربراہی اجلاس اور ’عرب نیٹو‘ کا خواب: کیا عرب اور مسلم دنیا ایک ساتھ کھڑی ہو گی؟اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی یا کوئی ’سخت پیغام‘: عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس میں کن آپشنز پر غور ہو سکتا ہے؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہقطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دی
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مصری نے قطر پر الزام لگایا کہ ’انھوں نے حالیہ برسوں میں ثابت کیا ہے کہ وہ اصل میں ثالث نہیں بلکہ حماس کے جرائم میں شریک ہیں۔‘
ان کا الزام ہے کہ قطر ’اسرائیل کے خلاف حماس کے اعلانِ جنگ اور سات اکتوبر کے قتلِ عام میں برابر کا شریک ہے۔‘
Reutersدوحہ پر اسرائیلی حملے میں قطری داخلی سلامتی فورس کے رکن بدر سعد محمد الحمیدی الدوسری بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھےقطر اسرائیلی دھمکیوں سے کیسے نمٹے گا؟
برکات کہتے ہیں کہ قطر اسرائیلی دھمکیوں کا مقابلہ کئی طریقوں سے کرے گا جن میں ’عرب و اسلامی صفوں کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ جیسے حالیہ سربراہی اجلاس میں سامنے آیا۔ ان کے مطابق بعض علاقوں میں مزید سکیورٹی انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیل دوبارہ حملہ کرنے اور کسی بھی سیاسی اقدام کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دوسرا اور زیادہ طاقتور راستہ قانونی ہے، جس میں کہ وہ قطری خودمختاری کی خلاف ورزی کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع کی تیاری اور خلیجی ممالک کے ساتھ مشترکہ دفاع کو بڑھانے پر کام کر سکتا ہے۔ امریکہ سے یہ مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ قطر اور اسرائیل کے درمیان متوازن انداز میں کھڑا ہو اور حقیقی تحفظ کی ضرورت پر زور دے۔‘
جہاں تک العتی کا تعلق ہے تو انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ’قطر کے خلیجی مُمالک کے ساتھ اور قطر کے عرب مُمالک کے ساتھ تعلقات اہم ہیں اور قطری سلامتی کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’قطر کے امریکہ اور بین الاقوامی سٹریٹجک تعلقات کسی بھی جارحیت کے خلاف ایک حقیقی ضمانت کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
فاخوری نے وضاحت کی کہ ’قطر ان دھمکیوں کا کئی انداز میں مقابلہ کرے گا جن میں ان کے خیال میں، سفارتی اور سیاسی طریقے شامل ہیں۔ جیسے ’امریکہ کی حمایت کو مزید مضبوط کرنا، العدید ایئر بیس کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور واشنگٹن کے ساتھ موجودہ دفاعی تعاون کو برقرار رکھنا۔‘
فاخوری کے مطابق ’قطر خلیجی تعاون کونسل کو بھی اس بات پر مجبور کرے گا کہ وہ مشترکہ دفاعی معاہدے کو فعال کرے اور اپنے تحفظ کے خلاف کسی بھی خطرے کے بارے میں موقف جاری کرے۔
’دوحہ فلسطینی مسئلے میں ثالث کا کردار ادا کرنا جاری رکھے گا، جس کی وجہ سے اس کے استحکام اور کردار کو اہمیت ملے گی۔‘
Getty Imagesخالد مشعل (جو حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ بھی رہ چُکے ہیں) 1976 سے غزہ سے باہر رہائش پذیر ہیں اور اس وقت قطر میں مقیم ہیں۔
مئیر مصری نے کہا کہ ’نیتن یاہو نے دوحہ پر حالیہ حملے سے متعلق یہ ہدایت کی تھی کہ بمباری اتنی ’محدود‘ اور اس ’احتیاط‘ سے کی جائے کہ وہاں موجود قطری شہریوں کی جانیں محفوظ رہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پوری عمارت کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا کہ جس کے نتیجے میں وہاں موجود تمام حماس اراکین یقینی طور پر ہلاک ہو جاتے لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ پہلو ہر بار مدنظر رکھا جائے گا۔‘
مصری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اب قطر پر لازم ہے کہ وہ حماس کے جرائم سے اپنے آپ کو الگ کرے اور اس تنظیم کے رہنماؤں کو ملک بدر کرے، ورنہ اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔‘
سلطان برکات نے بھی اس بات کی نشاندہی کی کہ ’اسرائیل قطر پر حماس کی میزبانی کرنے کے حوالے سے ہر قسم کے عوامی دباؤ کا استعمال کرے گا۔
’یہاں تک کہ وہ میڈیا کی مدد لے گا، کیونکہ بعض مغربی ممالک اور امریکہ میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ حماس کو قطر سے نکال دیا جائے۔‘
اسرائیلی حملے، دوحہ سربراہی اجلاس اور ’عرب نیٹو‘ کا خواب: کیا عرب اور مسلم دنیا ایک ساتھ کھڑی ہو گی؟قطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دیاسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی یا کوئی ’سخت پیغام‘: عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس میں کن آپشنز پر غور ہو سکتا ہے؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہترکی، سعودی عرب یا مصر: قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کے ’اگلے ہدف‘ کے بارے میں قیاس آرائیاںدوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘