سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی امور نمٹانے سے روکنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کا حکم نامہ معطل کردیا۔
پیر کے روز جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس جہانگیری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
اپیل کنندہ کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران پانچ رکنی آئینی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپیل کنندہ کے خلاف جعلی ڈگری کی درخواست پر حکم نامہ جاری کردیا جبکہ اس درخواست پر لگائے گئے اعتراضات پر دلائل بھی نہیں دیے گئے تھے؟ انھوں سوال کیا کہ کیسے اعتراضات کو دور کرکے جج کی ڈگری سے متعلق درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔
منیر اے ملک نے بینچ کے سامنے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 16 ستمبر کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور اسے معطل کرنے کی استدعا کی جو منظور کرلی گئی۔
عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جسٹس جہانگیری کی اپیل پر سماعت 30 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
عدالت نے ایڈووکیٹ میاں داؤد کو بھی نوٹس جاری کیے جنھوں نے جسٹس جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری مبینہ طور پر جعلی ہونے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
ضیاالحق کے دور میں ایک جج کی تعلیمی سند پر سوال اٹھایا گیا تھا
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب کسی جج کی تعلیمی سند پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق جج صفدر شاہ کی انٹرمیڈیٹ کی ڈگری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ میں جسٹس صفدر شاہ بھی شامل تھے۔ تاہم وہ ان اقلیتیججز میں سے ایک تھے جنھوں نے سابق وزیر اعظم کو قتل کے اس مقدمے میں بری کر دیا تھا۔
جسٹس صفدر شاہ کی انٹرمیڈیٹ کی ڈگری کو لیکر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے انڈیا سے جو انٹر کا امتحان پاس کر کے جو ڈگری حاصل کی ہے وہ جعلی ہے۔
ڈگری پر سوالات اٹھائے جانے کے بعد جسٹس صفدر شاہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو نئے جج بابر ستار اور طارق جہانگیری کون ہیں؟اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط: عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد: ’تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا‘https://www.bbc.com/urdu/articles/ckg05d2e2e8oجسٹس جہانگیری کی درخواست میں کیا کہا گیا ہے؟
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کا فیصلہ منصفانہ عدالتی ٹرائل کے منافی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے نہ صرف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ بطور جج ان کی سٹینڈنگ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
جسٹس جہانگیری کا درخواست میں کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جس کے تحت وہ کسی جج کو جوڈیشل ورک سے روک سکیں۔
درخواست گذار کا کہنا ہے کہ کسی بھی جج کو جوڈیشل ورک سے روکنے کا طریقہ ائین کے ارٹیکل 209 میں دیا گیا ہے اور یہ اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی استعمال کرسکتی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں بطور جج جوڈیشل ورک کرنے کی اجازت دی جائے۔
جب جسٹس جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ گئے تو ان کے ساتھ ان کے چار ساتھی جج صاحبان بھی عدالت عظمی گئے جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحاق شامل ہیں۔
BBCاسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کیا کہا تھا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی مبینہ جعلی ڈگری کے خلاف درخواست کی سماعت پر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے انھیں اس وقت تک جوڈیشل ورک سے روک دیا تھا جب تک سپریم جوڈیشل کونسلان کی ڈگری کے بارے میں دائر درخواست پر فیصلہ نہیں سنا دیتی۔
جسٹس طارق محمود کی قانون کی ڈگردی سے متعلق درخواست میاں داود نامی ایک وکیل نے دائر کی تھی۔
سولہ ستمبر کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس درخواست پر سماعت ہوئی تو اس دوران ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ چونکہ یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہے اس لیے عدالت کے پاس اس معاملے کو سننے کا اختیار بھی نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پہلے تو اس سے اتفاق کیا پھر کچھ دیر کے بعد یہ حکمنامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جسٹس جہانگیری اس وقت تک عدالتی کام اور مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتے جب تک ان کی قانون کی ڈگری سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے درخواست گذار میاں داود نے بتایا کہ جس سماعت پر یہ عدالتی حکم جاری کیا گیا اس روز وہنجی مصروفیات کی وجہ سے لاہور میں تھے اور عدالت میں پیش نہیں ہوسکے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے جونیئرز عدالت میں التوا کی درخواست لیکر گئے تھے کیونکہ ابھی ان کی درخواست پر عائد اعتراضات کو سنا جانا تھا اور پھر اس درخواست پر سماعت ہونا تھی۔
تاہم 16 ستمبر کو سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پہلے اعتراضات کو دور کیا اور پھر اس پر ارڈر جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھے ججز میں شامل تھے جنھوں نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی تاہم سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ان درخواستوں کو کثرت رائے سے مسترد کردیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل ابھی بھی زیر التوا ہے۔
جعلی ڈگری کا معاملہ کب منظر عام پر آیا؟
دس جولائی سنہ 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل میاں داود ایک درخواست دائر کرتے ہیں جس موقف اختیار کیا جاتا ہے انھیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری سے متعلق کچھ ایسی معلومات ملی ہیں جس سے انھیں شک ہے کہ مذکورہ جج کی قانون کی ڈگری جعلی ہے لہذا اس معاملے کی تحققیات کروائی جائیں۔
اس درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض لگایا جاتا ہے اور گیارہ جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق اس درخواست پر لگائے گئے اعتراضات کی سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیتے ہیں۔ تاہم اس درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اور جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھیجا۔
جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگری کو لے کر کچھ وکلا سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرتے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ اس پر سٹے ارڈر جاری کر دیتی ہے جس کے بعد اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی اس میں فریق بن جاتی ہے۔
ابھی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیا گیا حکم امتناع برقرار تھا کہ اس ہی دوران 22 ستمبر کوسندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک درخواست آتی ہے کہ جج صاحب کی ڈگری کو لے کر ہماری ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے اس لیے حکم امتناع میں نہ صرف انھیں فریق بنایا جائے بلکہ اس معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ میں پہلے یہ درخواست 30 ستمبر اور پھر اس سماعت کی تاریخ 25 ستمبر مقرر کر دی جاتی ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنی ساتھی جج جسٹس ثمن رفعتکے ساتھ اس درخواست کے سماعت کے لیے اسلام آباد سے کراچی گئے اور انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جج کے کے آغا کی سربراہی میں قائم دو رکنی آئینی بینچ کو اس درخواست میں فریق بننے کی استدعا کی۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ چونکہ اس معاملے کا تعلق ان کی ڈگری سے ہے، اس لیے انھیں سنا جائے۔ تاہم عدالت نے یہ کہہ کر جسٹس جہانگیری کی درخواست کو مسترد کردی کہ پہلے زیر سماعت درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اور اگر درخواست کو قابل سماعت ہوئی تو اس کے بعد ہی ان کا موقف سنا جائے گا۔ اس پر جسٹس جہانگیری اور کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔
بعد ازاں عدالت نے زیر سماعت درخواست کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دیا۔
AFP via Getty Images
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کیے جانے کے بعد کراچی یونیورسٹی نے مذکورہ جج کی ڈگردی کے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کا ایل ایل بی کا انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ جج پر تین سال کے لیے کسی بھی لا کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے کسی بھی امتحان میں بیٹھنے پر پابندی ہوگی۔
کراچی یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ جسٹس جہانگیری کبھی بھی اسلامیہ لا کاج کے سٹوڈنٹ نہیں رہے۔
کیا عدالت کسی جج کو کام سے روک سکتی ہے؟
آئینی معاملات پر نظر رکھنے والے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی بھِ جج کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روک سکے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جب ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ججز کو کام سے روکنے کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل بھی کسی بھی جج کو اس وقت کام کرنے سے روک سکتی ہے جب کونسل اس کے خلاف درخواست پر اپنا کام مکمل کرلے۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی میںسپریم کورٹ نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیا ہے کہ کوئی جج کسی دوسرے جج کو توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کرسکتا۔
بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگردی سے متعلق درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں بیٹھنا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ جسٹس جہانگیری نے ان کی تعیناتیکے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے اور ایسا عمل مفادات کے ٹکراو کے زمرے میں آتا ہے۔
Getty Imagesاسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ریاست علی آزاد کا کہنا ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو لیکر وکلا برادری منقسم ہے۔ فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ریاست علی آزاد کا کہنا ہے کہ چھبیسویں ائینی ترمیم کے بعد جس طرح عدلیہ پر شب خون مارا گیا اس کے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کر رہا۔
انھوں نے کہا کہ جہاں پر ایک ججکو ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے وہاں پر عام لوگوں کو انصاف ملنا ایک دیوانے کا خواب ہی بن جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو لیکر وکلا برادری منقسم ہے۔ ریاست علی آزاد کا کہا ہے کہ ایسے حالات میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک نہ تو چل سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔
ریاست علی آزاد کا مزید کہنا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے کو لیکر وکلا کے دھڑوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی ہے اور وکلا کے خلاف مقدمات درج کراونے میں کوئی عام شہری نہیں بلکہ وکلا ہی مدعی بنے ہیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کون ہیں؟
جسٹس طارق محمود جہانگیری پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں 28 دسمبر 2020 میںاسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس وقت اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے قایم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد تھے۔
جسٹس جہانگیری کی پروفائل کے مطابق، انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے اسلامیہ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
مسلم لیگ نواز کے دور میں اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں جبکہ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہے ہیں۔
طارق محمود جہانگیری کو فوجداری معاملات میں مہارت حاصل ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس میں ان کی وکالت کرتے رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بننے کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری اس تین رکنی بینچ کی سربراہی بھی کرر ہے تھے جس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریانسے متعلق دائر درخواست کو ڈس مس کردیا تھا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو سنایا ہی نہیں گیا اور بعد ازاں اس درخواست کو دوبارہ ری لسٹ کردیا گیا۔
جسٹس جہانگیری اس وقت میڈیا میں خبروں کی زینت بنیں جب سنہ 2023 میں انھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ان مقدمات میں بھی بلینکٹ پروٹیکشن دیتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا جو اس وقت تک عمران خان کے خلاف درج بھی نہیں کیے گئے تھے۔
ان کے متعلق وکلا برداری میں تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ اعلی عدلیہ کے ان ججز میں شامل ہیں جو سپریم کورٹ کے سینئر جج منصور علی شاہ کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججز میں بھی شامل ہیں جنھوں نے مارچ 2024 میں فوج کے خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو خطوط تحریر کیے تھے۔ ان ججز کی جانب سے لکھے گئے خطوط میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر نہ صرف عدالتی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے بلکہ ان کی آمدورفت کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی مداخلت کی جارہی ہے۔
خفیہ اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر عدالتی معاملات میں مداخلت اور لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس سے ججز کو اسلام آباد منتقل کرنے کے حکومتی فیصلے کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس کے بعد سے جسٹس جہانگیری کو کسی اہم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ اور بلوچستان سے ججوں کی منتقلی کیوں کی گئی اور اس سے کس کی سینیارٹی متاثر ہو گی؟جسٹس امین الدین: کیا آئینی بینچ کا سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے زیادہ بااثر ہو گا؟آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات: اندرونی معاملات میں مداخلت یا قرض معاہدے کی مجبوری؟شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم: اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج کون ہیں؟بینچ کی تشکیل کا تنازع اور سپریم کورٹ میں تقسیم: ’یہ اختلاف رائے نہیں، اختیارات کی جنگ ہے‘سپریم کورٹ کے ججز کے الاؤنس میں اضافہ: پاکستان میں ججوں کو تنخواہ کے علاوہ کیا مراعات ملتی ہیں؟قاضی فائز عیسیٰ: ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ جج جن کا دور سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا