استعمال شدہ کاروں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد کی اجازت: ’اب پاکستان میں گاڑیاں پروڈکشن لائن سے نہیں، بندرگاہ کے ذریعے آئیں گی‘

بی بی سی اردو  |  Oct 01, 2025

Getty Imagesپاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد کی اجازت دی گئی ہے جس پر مقامی صنعت نے خدشات کا اظہار کیا ہے

اگر پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے کی صنعت ختم ہو گئی تو اس کا متبادل کیا ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جو شہریار قدیر جیسے آٹو پارٹس مینوفیکچررز (گاڑیوں کے پرزے بنانے والے) کے ساتھ ساتھ کئی آٹو سمبلرز کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔

شہریار کہتے ہیں کہ اس صورت میں بڑی کمپنیاں پارٹس منگوا کر اسمبل کرنے کی بجائے پوری کی پوری کار ہی باہر سے درآمد کرنے کو ترجیح دیں گی یا ’صرف سکرو ڈرائیور اسمبلی کر کے دھڑا دھڑ گاڑیاں بیچیں گی۔‘ مگر انھیں خدشہ ہے کہ اس سے پاکستان میں آٹو پارٹس بنانے والی تقریباً 1200 چھوٹی بڑی کمپنیاں اور 18 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی نوکریاں متاثر ہوں گی جو اس صنعت سے وابستہ ہیں۔

اس نوعیت کے خدشات ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے ہیں جب پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد کی اجازت دی گئی ہے جس کے لیے وزارت کامرس نے 30 ستمبر کو جاری کیے گئے اپنے نوٹیفیکشن میں کہا ہے کہ یہ (استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد) ماحولیاتی اور حفاظتی معیارات کی سخت تعمیل سے مشروط ہو گی۔

اس کی منظوری 24 ستمبر کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے دی تھی جس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ابتدائی طور پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت ہو گی جبکہ جون 2026 کے بعد پانچ سال والی حد بھی ختم کر دی جائے گی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے مطابق جون 2026 تک استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر موجودہ کسٹمز ڈیوٹیز کے علاوہ 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہو گی مگر اس اضافی ڈیوٹی کو 2029-30 تک ختم کر دیا جائے گا۔

مئی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر قرض پروگرام کے سلسلے میں کچھ نئی شرائط عائد کی تھیں جن میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ختم کرنا بھی شامل تھا۔ اس سے قبل ملک میں صرف پرسنل بیگیج یا گفٹ سکیم کے تحت اکثر جاپان سے استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کی جاتی تھیں جن پر بھاری ڈیوٹیز عائد ہوتی تھیں۔

آئی ایم ایف نے اپنی کنٹری رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے آٹو اسمبلرز کو 'بیرونی مقابلے سے تحفظ کے لیے حاصل سبسڈی، رعایت اور ترجیح ختم کی جائے۔‘ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے پاکستانی حکومت امپورٹ ٹیرف میں واضح کمی لائے۔

تاہم اب پاکستان کے آٹو اسمبلرز اور پارٹس مینوفیکچررز نے اس پیشرفت پر سخت ردعمل دیا ہے۔ سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا جیسے کار اسمبلرز کی نمائندہ تنظیم ’پاما‘ کو خدشہ ہے کہ اس سے گاڑیوں کی مقامی صنعت تباہ ہو جائے گی اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہو سکتے ہیں۔

جبکہ ہوال نامی ایس یو وی کاریں فروخت کرنے والی کمپنی ’سازگار‘ کا کہنا ہے کہ فی الحال حکومت کی عائد کردہ 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی سے مارکیٹ پر درآمدات کا دباؤ کم رہے گا۔

’اسمبلی پلانٹ بیچ کر وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لوں گا‘Reutersماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی گاڑیوں کی اسمبلی سست روی کا شکار ہے جبکہ جاپان سے درآمد شدہ پرانی گاڑیاں ایک چوتھائی مارکیٹ کو کنٹرول کرتی ہیں

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) کے سینیئر وائس چیئرمین شہریار قدیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک میں آٹو کمپنیوں کی رائے ہے کہ اگر نیا ٹیرف نظام لاگو ہو گیا تو انھیں نئی گاڑیاں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔

اُن کا کہنا ہے کہ 'اگر خام مال اور کار پر ایک جتنا ٹیرف نافذ ہو گا تو ہزاروں ورکرز کے ذریعے فیکٹری چلانے کی بجائے اسمبلرز شوروم کھول کر درآمد شدہ گاڑیاں بیچ لیں گے۔ فیکٹری کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔'

وہ ایک بڑے آٹو میکر کے اِن الفاظ دہراتے ہیں کہ ’ہمارا اربوں روپے کا پلانٹ اتنے سو ایکڑ پر ہے، میں پلانٹ بیچ دوں گا اور اس پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لوں گا اور پیسے بینک میں رکھ لوں گا۔۔۔ مجھے فیکٹری کے 30 ہزار لوگوں کی بجائے دفتر میں صرف 300 لوگ درکار ہوں گے۔۔۔ ہمارا کاروبار صرف یہی رہ جائے گا کہ ہم باہر سے گاڑیاں منگوا کر یہاں بیچیں۔‘

’گاڑی میں ایئر بیگ ہوتے تو شاید میرے شوہر بچ جاتے‘: پاکستان میں گاڑیوں کے حفاظتی انتظامات کا مجوزہ بِل کیا ہے؟بی وائے ڈی کا چین سے باہر عالمی پھیلاؤ کا منصوبہ پاکستانی آٹو سیکٹر کی قسمت پلٹ سکے گا؟پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟پاکستان میں الیکٹرک کاروں کی اسمبلی شروع مگر رکاوٹیں برقرار: سیرس تھری کو تیار کرنا اتنا مشکل کیوں تھا؟

شہریار کے بقول اسمبلرز نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ ایسا کرنے سے ’لوکل انڈسٹری میں ملازمتیں ختم ہو جائیں گی اور پارٹس کے وینڈرز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اس صنعت کو یہاں تک پہنچنے میں 45 سال لگے اور صرف وینڈر انڈسٹری میں گذشتہ چار سال کے دوران ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جو ضائع ہو جائے گی۔ ’ایسے میں باہر سے سرمایہ کاری کون لائے گا؟‘

ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی گاڑیوں کی اسمبلی سست روی کا شکار ہے جبکہ جاپان سے درآمد شدہ پرانی گاڑیاں ایک چوتھائی مارکیٹ کو کنٹرول کرتی ہیں۔

شہریار کہتے ہیں کہ ’ہم پچھلے 25 سال سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں پر کھڑے ہیں۔ 2005 میں اور 2025 میں سالانہ ایک ہی جتنی گاڑیاں اسمبل کی گئیں۔۔۔ آج تک کسی آٹو پالیسی کا کوئی مقصد پورا نہیں ہو سکا۔ یہ غلطی ہماری انڈسٹری کی ہے یا جنھوں نے اس پر عملدرآمد کرانا تھا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور تھائی لینڈ کے مقابلے پاکستان میں گاڑیاں بنانے کے لیے خام مال موجود نہیں، اسی لیے ہمیں خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے اور ملک میں بجلی اور ایندھن کی قیمتیں بھی زیادہ ہے۔‘

وہ شکوہ کرتے ہیں کہ گاڑیوں کی قیمت میں ’40 سے 50 فیصد حکومتی ٹیکسز ہیں۔‘ وہ مثال دیتے ہیں کہ ’فارچونر کی مینوفیکچرنگ کاسٹ قریب 90 لاکھ روپے ہے۔ لیکن اس کی قیمت سوا دو کروڑ روپے ہے۔ یہ باقی پیسہ ٹیکسز کی مد میں حکومت کو جا رہا ہے۔‘

اُدھر سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا سمیت کار اسمبلرز کی نمائندہ تنظیم پاما سے وابستہ عبدالوحید خان کا کہنا ہے کہ اگر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں عمر کی قید ختم ہو جائے گی اور ڈیوٹی بتدریج کم ہوتی جائے گی تو یہ مقامی آٹو سیکٹر کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ ’جیسے ہی ایک کار امپورٹ ہو کر بندرگاہ پر پہنچے گی تو پروڈکشن لائن پر ایک کار کم بنے گی۔‘

عبد الوحید خان کہتے ہیں کہ کمپنیوں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر اس پالیسی کے نتیجے میں ان کی آمدن کے ساتھ ساتھ ملازمین بھی متاثر ہوں گی۔

ملک میں چاہے گاڑیاں اسمبل ہوں یا امپورٹ، مشکلات رہیں گی

پاما سے وابستہ عبد الوحید خان کا کہنا ہے کہ آٹو انڈسٹری اِسی سمت میں آگے بڑھے گی جو حکومت طے کرے گی۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ حکومت مقامی صنعت کو سپورٹ نہیں کر رہی۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آٹو کمپنیوں کو اپنے کاروباری ماڈل تبدیل کرنے پڑ سکتے ہیں۔

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ مقامی کمپنیوں کو حاصل تحفظ ہی ان کے زوال کی وجہ بنا ہے۔ ان کا اعتراض ہے کہ کمپنیوں نے کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود لوکلائزیشن پر کام نہیں کیا اور عام لوگوں کے لیے سستی گاڑیاں نہیں بنائیں۔

وہ انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں سوزوکی آلٹو جیسی کار کی قیمت چار لاکھ انڈین روپے ہے مگر پاکستان میں آلٹو ساڑھے 33 لاکھ روپے کی ہے۔

شہزاد کہتے ہیں کہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز تو درآمد شدہ پرانی گاڑیوں پر بھی بہت زیادہ ہیں مگر پھر بھی یہ عام صارفین کے لیے بہتر متبادل ہوتی ہیں۔ ’جون 2026 تک 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر کے آپ نے پھر لوکل اسمبلرز کو تحفظ دیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں پر 40 فیصد ڈیوٹی کا مطلب ہے کہ عام لوگوں کے لیے قیمت کم ہونے کی بجائے بڑھے گی۔

شہزاد کی رائے ہے کہ گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنیاں بھی ملک میں گاڑیوں کی کِٹس امپورٹ کرتی ہیں اور اس سے خاطر خواہ ملازمتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ ’نئی کمپنیاں بھی لوکلائزیشن نہیں کر رہیں۔ ان کی حالت ٹویوٹا اور ہنڈا سے بھی بدتر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت گاڑیاں سستی نہیں ہو سکیں گی جب تک لوکلائزیشن نہیں ہو گی۔

ادھر پاکستان میں گاڑیوں کے اسمبلرز کی نمائندہ تنظیم پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید خان نے کہا کہ لوکل سطح پر گاڑیوں اور پارٹس کی صنعت قائم ہونے میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی اور اس میں کئی دہائیاں لگی تھیں۔ ’1980 سے اب تک 45 سال میں جو کچھ حاصل ہوا تھا، یہ اب خطرے میں ہے۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آٹو پالیسی میں مسلسل رد و بدل کے باعث اس صنعت کو ’ٹیک آف ہونے نہیں دیا گیا۔ والیوم ہی اتنے نہیں بڑھ سکے کہ لوکلائزیشن کو فروغ ملتا۔ سنہ 2000 کی دہائی میں 50 فیصد پیداوار بڑھی مگر 2008 سے 2009 میں یہ صنعت عالمی معاشی بحران کے باعث زوال کا شکار ہوئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے پیش نظر مقامی صنعت کو حاصل تحفظ ختم کر رہی ہے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد آسان بنا رہی ہے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس سے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔ ’جون 2026 کے بعد لوگ پانچ سال سے زیادہ پرانی گاڑیاں بھی منگوا سکیں گے، لیکن ہمارے پاس ان گاڑیوں کی ماحولیاتی اور سیفٹی ٹیسٹنگ کا کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو پری شنمنٹ انسپکشن سرٹیفیکیٹس پر انحصار کرنا پڑے گا مگر سوال یہ ہے کہ یہ ’کس حد تک قابل اعتماد ہو گا؟‘

وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کی درآمد کے لیے ’غیر ملکی زرمبادلہ کہاں سے لایا جائے گا؟‘

اگرچہ حکومت اب بھی درآمد ہونے والی گاڑیوں پر 2026 تک 40 فیصد ڈیوٹی وصول کرے گی مگر انھیں ڈر ہے کہ قیمت کے تخمینوں کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور لوگ پرانی گاڑیوں کی انڈر انوائسنگ کر سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط: استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ سمیت وہ شرائط جو عام پاکستانیوں کی زندگی متاثر کر سکتی ہیں’گاڑی میں ایئر بیگ ہوتے تو شاید میرے شوہر بچ جاتے‘: پاکستان میں گاڑیوں کے حفاظتی انتظامات کا مجوزہ بِل کیا ہے؟پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟پاکستان میں الیکٹرک کاروں کی اسمبلی شروع مگر رکاوٹیں برقرار: سیرس تھری کو تیار کرنا اتنا مشکل کیوں تھا؟بی وائے ڈی کا چین سے باہر عالمی پھیلاؤ کا منصوبہ پاکستانی آٹو سیکٹر کی قسمت پلٹ سکے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More