"آج رات اسرائیلی افواج ہم پر حملہ آور ہوسکتی ہیں، اُن کے جنگی جہاز نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہم سب نے حفاظتی جیکٹس پہن لی ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرسکیں۔ اسرائیل نے میرا فون جام کردیا ہے، میں 36 گھنٹوں سے کسی سے رابطہ نہیں کرسکا، مگر یہ یاد رکھیں، وہ میرے فون کو خاموش کرسکتا ہے لیکن میرے قدم غزہ کی جانب بڑھنے سے نہیں روک سکتا۔ میں نے اپنا موبائل سمندر میں پھینک دیا ہے۔ چاہے ہم سمندر کی لہروں میں ڈوب جائیں یا ڈرون کا نشانہ بنیں، ہمارا سفر غزہ تک جاری رہے گا۔ میں پاکستان کے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر آپ غزہ نہیں آسکتے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے پرامن احتجاج کریں۔"
غزہ کی جانب بڑھتا ہوا "گلوبل صمود فلوٹیلا" ایک تاریخی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ امدادی سامان اور ادویات سے لدی پچاس سے زائد کشتیوں پر سوار سینکڑوں افراد زندگی اور موت کی سرحد عبور کرنے کو تیار ہیں۔ ان میں شامل سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک ویڈیو پیغام میں دنیا کو چونکا دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جنگی بحریہ ان کے قریب پہنچ رہی ہے اور رات کے اندھیروں میں کسی بڑے تصادم کا خدشہ ہے۔ اپنے الفاظ میں انہوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ "فون جام ہوسکتا ہے مگر جدوجہد نہیں۔" یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا موبائل سمندر کی بے رحم موجوں میں اچھال دیا، جیسے اعلان ہو کہ آزادی کی راہ میں کوئی رکاوٹ معنی نہیں رکھتی۔
فلوٹیلا "اورنج لائن" کے خطرناک زون میں داخل ہوچکا ہے، وہی مقام جہاں پہلے اسرائیل نے انسانی ہمدردی کے جہازوں کو روکا تھا۔ اس بار صورتحال مختلف ہے، کیونکہ قافلے میں صرف امدادی سامان نہیں، بلکہ ایک جذبہ، ایک پیغام اور ایک ہمت سوار ہے۔
مشتاق احمد خان کا اعلان تھا: "چاہے ہم لہروں کے حوالے ہوجائیں یا ڈرون کی آگ میں جل جائیں، یہ قافلہ غزہ تک ضرور پہنچے گا۔"
منتظمین کے مطابق تین دن بعد یہ بحری سفر منزل پر دستک دے گا۔ ادھر انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر آپ کشتیوں میں سوار نہیں ہوسکتے تو سڑکوں پر آواز بلند کریں اور امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج سے اپنی یکجہتی ثابت کریں۔