گرومنگ گینگ کے پاکستانی نژاد سرغنہ کو 35 سال قید کی سزا: ’جنسی استحصال کرنے والے اتنے زیادہ تھے کہ اُن کی گنتی مشکل تھی‘

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2025

GMP / PA Wireپاکستانی نژاد محمد زاہد کو ’باس مین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا

برطانیہ کے علاقے روچڈیل میں سکول کی دو طالبات کا ریپ کرنے والے گرومنگ گینگ کے پاکستانی نژاد سرغنہ کو 35 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔

65 سالہ محمد زاہد ’باس مین‘ کے عرفی نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے لڑکیوں کو اپنے سٹال سے مفت انڈرویئرز اس امید پر دیے تھے کہ اس کے عوض وہ اُن سے اور اُن کے دوستوں سے باقاعدہ جنسی تعلقات قائم کریں گی۔

تین بچوں کے باپ محمد زاہد اُن سات افراد میں شامل ہیں جنھیں رواں برس جون میں سنہ 2001سنہ 2006کے درمیان جنسی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

اس کیس میں محمد زاہد کے علاوہ 67سالہ مشتاق احمد، 50 سالہ قصیر بشیر، 44 سالہ محمد شہزاد، 49 سالہ نعیم اکرم، 41 سالہ نثار حسین اور 39 سالہ روحیز خان کو بھی طویل قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

اس کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ کیسے گریٹر مانچسٹر ٹاؤن میں اِن دونوں متاثرہ لڑکیوں کا 13 سال کی عمر سے کار پارکنگ، گندے فلیٹس اور بند گوداموں میں جنسی استحصال کیا گیا۔

عدالتی سماعت کے دوران ان متاثرہ لڑکیوں کی شناخت کو مخفی رکھا گیا اور انھیں ’اے‘ اور ’بی‘ کا نام دیا گیا، اُن کے ساتھ ’جنسی غلاموں‘ جیسا سلوک روا رکھا گیا اور ان لڑکیوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ مردوں کی خواہش کے مطابق جب بھی اور جہاں بھی ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تیار رہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ یہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں اور اُن کی ’گھریلو زندگی شدید پریشان کن‘ تھی اور انھیں منشیات ، شراب اور سگریٹ سے روشناس کروایا گیا تھا اور انھیں مردوں کے ساتھ ٹھہرایا گیا۔

GMPنثار حسین، روحیز خان اور نعیم اکرم کو بھی قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں

مجرمان کو سزا سنائے جانے کے عمل کے دوران جج جوناتھن سیلی نے کہا کہ ’شکاری‘ مردوں کے ہاتھوں لڑکیوں کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک ’خوفناک‘ تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’اُن کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اُن کی تذلیل کی گئی اور پھر انھیں چھوڑ دیا گیا۔‘

جج نے کہا لڑکیوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس اُن کے ساتھ ہونے والے لگاتار جنسی استحصال کے تابع ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ کم عمر بچیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے یہ سب مرد یا تو مقامی مارکیٹ میں کام کرتے تھے یا ٹیکسی ڈرائیور تھے۔

گرومنگ گینگز اور پولیس افسران پر جنسی استحصال کا الزام: ’ایک بار ریپ ہونا گینگ کے ہاتھوں کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا‘نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘روچ ڈیل گرومنگ: ’12 سال کی عمر سے میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا‘گرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟

متاثرہ لڑکی ’اے‘ نے جیوری کو بتایا کہ شاید اس دورانیے میں انھیں سینکڑوں مردوں نے نشانہ بنایا کیونکہ اُن کا فون نمبر سب کو دیا گیا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’وہ (جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے) اتنے سارے تھے کہ اُن کی گنتی کرنا مشکل تھا۔‘

انھوں نے 2004 میں مقامی بچوں کو خدمات فراہم کرنے والے ادارے کو بتایا تھا کہ وہ بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ گھوم رہی تھیں، چرس پی رہی تھیں اور تمباکو نوشی کر رہی تھیں۔

متاثرہ لڑکی ’بی‘ جب ان مردوں کے ساتھ رابطے میں آئیں تو اس وقت وہ بچوں کی ایک پناہ گاہ میں رہ رہی تھیں۔ انھوں نے جیوری کو بتایا کہ پولیس اور سماجی کارکنوں کو سب معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ’وہ اس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے کافی فکر مند نہیں تھے۔‘

لڑکی بی اب 30 سال کی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’یہ سب میری فائل میں درج تھا، میں نے اسے دیکھا اور پڑھا ہے۔‘

وہ اب 30 سال کی ہیں۔

انھوں نے کہا ’مجھے پولیس نے 10 سال کی عمر سے ہی آوارہ پھرنے اور جسم فروشی کے الزامات میں اٹھانا شروع کیا تھا۔ یاد رہے کہ سماجی خدمات کے ادارے اور پولیس نے اس سے قبل لڑکیوں کے حوالے سے اپنی ماضی کی ناکامیوں پر معافی مانگی تھی۔

GMPمقدمے کی سماعت کے بعد محمد شہزاد، مشتاق احمد اور قاصر بشیر کو قصوروار ٹھہرایا گیا

مجرمان کو ملنے والی سزاؤں کی مکمل تفصیل درج ذیل ہے:

پاکستان میں پیدا ہونے والے 65سالہ محمد زاہد کو لڑکی اے اور لڑکی بی کے ساتھ ریپ کرنے، ایک بچے کے ساتھ غیراخلاقی رویہ رکھنے اور ایک بچے کو جنسی تعلقات کے لیے خریدنے کا مجرم قرار دیا گیا جس پر انھیں 35سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں 67سالہ مشتاق احمد اور 50 سالہ قیصر بشیر کو لڑکی بی کے ساتھ بار بار ریپ کرنے جیسے الزامات کے تحت بالترتیب 27اور 29سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔44 سالہ محمد شہزاد، 49سالہ ناہیم اکرم اور41سالہ نثار حسین کو لڑکی اے کے ساتھ بار بار ریپ کے الزامات میں مجرم قرار دیا گیا تھا اور انھیں بالترتیب 26، 26اور 19 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔پاکستان میں پیدا ہونے والے 39سالہ روہیز خان کو لڑکی اے کے ساتھ ریپ کے ایک الزام میں قصوروار پایا گیا تھا اور انھیں 12 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سنہ 2016 میں زاہد کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جب انھیں 2005اور 2006میں ایک 14 سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی سرگرمی میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا، جس سے اس کی ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب وہ سکول کے لیے ٹائٹس خریدنے کے لیے اُن کے سٹال پر گئی تھیں۔

مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے قبل ضمانت حاصل کرنے والے بشیر فرار ہو گئے تھے اور انھیں اُن کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی تھی۔

’مذموم جنسی فائدہ‘

گریٹر مانچسٹر پولیس کے ڈائریکٹر گائے لیکاک نے کہا کہ مردوں نے ’اپنے جنسی فائدے کے لیے لڑکیوں کی کمزوری کو نشانہ بنایا۔‘

انھوں نے کہا 'اس خوفناک بدسلوکی کی کوئی حد نہیں تھی، اگرچہ انھوں نے اس طویل تفتیش اور عدالتی مقدمے کے دوران ان الزامات کی تردید کی۔‘

'جب متاثرہ لڑکیاں کم عمر تھیں تو انھوں (مجرمان) نے ان کے ساتھ بے رحم اور توہین آمیز رویہ روا رکھا اور اتنے سالوں کے بعد بھی اُن کے ناقابل معافی اعمال پر انھیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔‘

کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ماہر پراسیکیوٹر لز فیل نے کہا کہ ان افراد نے نوجوانوں لڑکیوں کو درپیش ’مشکل حالات‘ کا فائدہ اٹھایا۔

انھوں نے کہا 'دونوں متاثرہ لڑکیوں نے ایک طویل اور چیلنجنگ قانونی عمل کے دوران بہت زیادہ طاقت اور وقار کا مظاہرہ کیا ہے۔‘

روچ ڈیل گرومنگ: ’12 سال کی عمر سے میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا‘نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘گرومنگ گینگز اور پولیس افسران پر جنسی استحصال کا الزام: ’ایک بار ریپ ہونا گینگ کے ہاتھوں کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا‘’برطانیہ سے نکالنے سے میرے خاندان کے حقوق پامال ہوں گے‘برطانیہ میں گرومنگ گینگز اور پاکستانی نژاد مردوں پر الزام: ’ہم شرمندہ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں یہی قصوروار ہیں‘گرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More