Getty Image/Roli Booksمہاتما گاندھی صرف 19 سال کے تھے جب ان کے بڑے بیٹے ہری لال گاندھی کی پیدائش ہوئی
مہاتما گاندھی نے خود اعتراف کیا کہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا یہ تھا کہ وہ میں دو لوگوں کے خیالات کو کبھی نہیں بدل سکے۔ ان میں سے ایک تھے پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور دوسرے تھے ان کے اپنے بڑے بیٹے ہری لال گاندھی۔
گاندھی صرف 19 برس کے تھے جب ان کے بڑے بیٹے ہری لال گاندھی کی پیدائش ہوئی۔ بچپن میں وہ اپنے والد سے خاصی مشابہت رکھتے تھے۔
ہری لال کی پیدائش کے چند ماہ کے اندر گاندھی قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے تھے۔
وہ تین سال بعد ہندوستان واپس آئے۔ گاندھی کی غیر موجودگی کو ان کے خاندان بشمول ان کے بڑے بیٹے ہری لال نے محسوس کیا۔
لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گاندھی پہلی بار سنہ 1893 میں جنوبی افریقہ گئے۔ تین سال تک اکیلے رہنے کے بعد وہ جولائی 1896 میں ہندوستان واپس آئے اور اپنے پورے خاندان کو لے کر جنوبی افریقہ چلے گئے۔
ہری لال کی عمر اس وقت تقریباً آٹھ برس تھی اور گاندھی خود 27 سال کے تھے۔ گاندھی اپنے بھتیجے گوکل داس کو بھی پورے خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ لے گئے تھے۔
بیٹا نظر انداز ہوا
ہری لال اپنے والد کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔
پرمود کپور گاندھی سوانح حیات ’گاندھی: این الیسٹریٹڈ بائیوگرافی‘ میں لکھتے ہیں ’گاندھی کی نظر میں ان کا بیٹا اور بھتیجا برابر تھے، انھیں پڑھنے کے لیے باہر بھیجنے کا فیصلہ عجیب طریقے سے کیا گیا۔ انھوں نے ایک روپے کا سکہ گھر میں چھپا دیا، ہری لال اور گوکل داس کو سکہ تلاش کرنے کے لیے کہا گیا۔ گاندھی نے فیصلہ کیا کہ جسے بھی یہ سکہ ملے گا، اسے پڑھائی کے لیے بھیج دیا جائے گا۔‘
پرمود کپور لکھتے ہیں کہ ایسا ایک بار نہیں بلکہ دو بار ہوا، جس نے ہری لال کو بہت پریشان کیا۔
اس واقعے کے چند سال بعد گاندھی نے ایک بار پھر اپنے بیٹے ہری لال کو نظر انداز کیا اور دوسرے بھتیجے چھگن لال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
جب چھگن لال بیمار ہو گئے اور انھیں اپنی پڑھائی چھوڑ کر جنوبی افریقہ واپس جانا پڑا تو گاندھی نے ان کا متبادل کا منتخب کرنے کے لیے ایک مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کیا۔
اس بار ایک نوجوان پارسی طالب علم سوراب جی اداجانیہ کا مضمون پہلے نمبر پر آیا اور پھر انھیں پڑھائی کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔
کپور لکھتے ہیں کہ ’گاندھی کے لیے ایک صاف ستھری شبیہ انتہائی اہمیت کی حامل تھی، جس میں اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن اس سب نے ہری لال پر تباہ کن اثر ڈالا اور ان کے دل میں اپنے والد کے خلاف دائمی رنجش رہ گئی۔‘
ROLI BOOKSباپ کو بتائے بغیر شادی
جب ہری لال نے احمد آباد سے گاندھی کو خط لکھا کہ وہ میٹرک میں فرانسیسی کو بطور مضمون پڑھنا چاہتے ہیں تو گاندھی نے انہیں فرانسیسی کے بجائے سنسکرت پڑھنے کا مشورہ دیا۔
ہری لال کو یہ مشورہ پسند نہیں آیا۔ وہ مسلسل تین سال میٹرک میں فیل ہوئے۔
جوے اور شراب نے ان کی زندگی میں پڑھائی کی جگہ لے لی۔ 2 مئی 1906 کو ہری لال نے اپنے والد کو بتائے بغیر راجکوٹ کی ایک لڑکی گلاب بین سے شادی کی۔ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔
گاندھی نے اسے ہری لال کی شادی کا صحیح وقت نہیں سمجھا۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ جنوبی افریقہ آئیں اور ان کے کام میں ان کی مدد کرے۔
جب گاندھی کو اس شادی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بڑے بھائی لکشمی داس کو خط لکھ کر ناراضی کا اظہار کیا۔
گاندھی نے لکھا ’فی الحال میری نظر میں وہ میرا بیٹا نہیں ہے۔‘
گاندھی کو کتنی بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی؟خونیں تقسیم کے باوجود ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے جناح اور گاندھیگاندھی کی تعلیمی قابلیت اور قانون کی ڈگری کی حقیقت کیا ہے؟گاندھی: ایک لاپروا نوجوان سے ’مہاتما‘ تک کا سفرHulton Archive/Getty Images1905 کے دوران موہن داس کرم چند گاندھی کی تصویرباپ اور بیٹے کے نظریات میں فرق
ہری لال اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے تھے۔
رام چندر گوہا اپنی کتاب ’گاندھی: دی ایئرز دیٹ چینجڈ دی ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں ’یہ بھی گاندھی کی نظر میں اچھی بات نہیں تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ جنسی تعلقات صرف نسل بڑھانے کے لیے ہیں۔ ایک سچے ستیہ گرہی کو برہمی کی پیروی کرنی چاہیے۔‘
’ہری لال نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے والد سے واضح طور پر کہا کہ کسی شخص کو یوگی بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، وہ صرف اس صورت میں بن سکتا ہے جب وہ چاہے۔‘
’گاندھی اپنے خاندان کے اندر ایک روایتی ہندو بزرگ کی طرح برتاؤ کر رہے تھے۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹوں کی خواہشات کے بارے میں حساس نہیں تھے۔ ان کے بالغ ہونے کے بعد بھی وہ ان سے ان کی ہدایات پر عمل کرنے کی توقع رکھتے تھے۔‘
Penguin Random Houseگاندھی اور ہری لال کے درمیان طویل گفتگو
شروع میں ہری لال نے جنوبی افریقہ میں مہاتما گاندھی کی جدوجہد کی حمایت کی۔ گاندھی اور ہری لال دونوں کو گرفتار کر کے ایک ہی جیل میں رکھا گیا۔
ہری لال ہمیشہ مالی طور پر آزاد زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ انھوں نے گھر سے بھاگ کر ہندوستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔
مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی مہاتما گاندھی کی سوانح عمری ’موہن داس‘ میں لکھتا ہے کہ ’جانے سے پہلے انھوں نے گاندھی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک اچھے باپ ثابت نہیں ہوئے، اس لیے وہ خاندان سے اپنے تعلقات توڑ رہے ہیں لیکن وہ اپنے ساتھ گاندھی کی تصویر لینا نہیں بھولے۔‘
گاندھی نے پورے جوہانسبرگ میں ان کی تلاش کا اہتمام کیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان جاتے ہوئے موزمبیق پہنچ گئے ہیں۔ گاندھی نے اپنے قریبی دوست ہرمن کیلن باخ کو انھیں واپس لانے کے لیے بھیجا تھا۔ کیلن باخ انھیں واپس لے آئے۔
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں ’باپ اور بیٹے نے ساری رات باتیں کیں۔ ہری لال نے اپنے والد پر الزام لگایا کہ انھوں نے کبھی اپنے بیٹوں کی تعریف نہیں کی اور ہمیشہ ان کے کزن مگن لال اور چھگن لال کی طرفداری کی۔‘
Viking/Penguin Indiaشراب اور جوئے کی عادات
ان کی سوانح عمری ’موہن داس‘ کے مطابق اگلے دن گاندھی نے اعلان کیا کہ ہری لال ہندوستان واپس آ رہے ہیں۔ ایک دل شکستہ گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے کو گلے لگایا اور کہا ’اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے باپ نے تمہیں کوئی نقصان پہنچایا ہے تو اسے معاف کر دو۔‘
جنوری 1915 تک باپ اور بیٹے کی دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔
ہندوستان واپس آنے کے ایک سال بعد گاندھی کو معلوم ہوا کہ ان کے چھوٹے بیٹے منی لال نے آشرم کی کچھ رقم ہری لال کو کاروبار چلانے کے لیے دی تھی۔ اس سے گاندھی اس قدر ناراض ہوئے کہ انھوں نے بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔
کستوربا اور ان کے چھوٹے بیٹے دیوداس نے انھیں ایسا نہ کرنے پر راضی کرنے کی بہت کوشش کی۔
دو سال بعد ہری لال کی بیوی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ گاندھی نے انھیں دوبارہ شادی کرنے کی اجازت نہیں دی۔
اپنی بیوی کی موت کے بعد ہری لال کی زندگی ڈرامائی طور پر بدل گئی۔ وہ شراب پینے اور جوا کھیلنے لگے۔
کاروبار کرنے کی ان کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ بہت سے لوگوں نے گاندھی کو خط لکھ کر ان کے بیٹے کی رقم ادھار لینے کی عادت کے بارے میں شکایت کی اور ان سے قرض ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔
بعد میں ہری لال گودریج صابن کے سیلز مین کے طور پر کامیاب ہو گئے۔
اے بی گودریج ان کے کام سے اتنے خوش تھے کہ کمپنی چھوڑنے کے بعد بھی وہ رقم ہری لال کو بھیجتے رہے۔
گاندھی کا خط
1925 میں گاندھی نے پہلی بار ایک کھلے خط میں اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کی۔
انھوں نے لکھا کہ ’ہری لال کی زندگی میں بہت سی چیزیں ہیں جو مجھے ناپسند ہیں، لیکن میں اس کی خامیوں کے باوجود اس سے محبت کرتا ہوں۔‘
1935 میں اپنی بیوی کی موت کے 17 سال بعد ہری لال کو ایک جرمن یہودی خاتون مارگریٹ سپیگل سے محبت ہو گئی۔ وہ مہاتما گاندھی کی قریبی ساتھی تھیں۔ وہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن گاندھی اس کے حق میں نہیں تھے۔
انھوں نے ہری لال کو ایک خط لکھا ’میں نے ہمیشہ جنسی تعلقات سے پرہیز کی وکالت کی ہے۔ میں آپ کو ایسا کرنے کی ترغیب کیسے دے سکتا ہوں؟‘
اس موضوع پر گاندھی، ہری لال اور مارگریٹ سپیگل کے درمیان خط و کتابت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تعلق مزید آگے نہیں بڑھ سکا۔
گاندھی اپنے بیٹے کے شراب نوشی اور دیگر عادات سے واقف تھے۔
انھوں نے ہری لال کو لکھا اور تنبیہ کرتے ہوئے کہا ’بھوک سے مرنے کے باوجود بھیک نہ مانگو، بہت پیاسے ہونے کے باوجود نہ پیو۔‘
ہری لال نے اسلام قبول کر لیا
ہری لال کی سوانح عمری ’ہری لال گاندھی: اے لائف‘ میں سی بی دلال نے ہری لال کی بہو سرسوتی گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’میرے سسر بہت مزاحیہ، سخی اور مہمان نواز تھے۔ وہ ہمارے ساتھ چھ ماہ تک رہے، پھر انھوں نے اپنے والد کو اپنا آخری خط لکھا، وہ یہ خط مکمل نہیں کر سکے۔‘
اپریل 1936 میں ہری لال نے ناگپور میں اپنے والد اور والدہ کستوربا سے ملاقات کی۔
انھوں نے گاندھی سے اپنا کاروبار چلانے کے لیے کچھ رقم مانگی۔ گاندھی نے انکار کر دیا۔ اس سے ہری لال کو اتنا غصہ آیا کہ غالباً انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔
29 مئی 1936 کو انھوں نے بمبئی (اب ممبئی) کی جامع مسجد میں اسلام قبول کرنے اور اپنا نیا نام عبداللہ رکھنے کا اعلان کیا۔
اس سے گاندھی کو صدمہ پہنچا۔
Dinodia Photos/Getty Imagesکستوربا گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے ہری لال کو خط لکھ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہری لال نے دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیا
کستوربا نے ہری لال کی بیٹی رامی کو خط لکھا ’میں بہت ناخوش ہوں، لیکن میں کیا کروں؟ حقیقت میں، میں بہت شرمندہ ہوں، ہم نے اپنا ایک زیور کھو دیا ہے۔ وہ زیور اب مسلمانوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔‘
گاندھی نے ہریجن کے 6 جون 1936 کے شمارے میں ایک عوامی بیان جاری کرتے ہوئے لکھا ’اگر یہ تبدیلی دل سے ہے اور کسی دنیاوی لحاظ کے بغیر ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عبداللہ یا ہری لال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر لحاظ سے وہ بھگوان کا عقیدت مند ہے کیونکہ دونوں ناموں کا مطلب خدا ہے۔‘
لیکن کستوربا نے اپنی مایوسی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
انھوں نے اپنے بیٹے کو کھلا خط لکھا ’میرے لیے زندہ رہنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے، سوچو کہ زندگی کے آخری دور میں تم اپنے والدین کو کتنی تکلیف دے رہے ہو۔ تمہارے والد نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی لیکن اس صدمے نے ان کا دل چیر کر رکھ دیا ہے۔‘
لیکن ہری لال کی مذہبی تبدیلی ’حقیقی‘ نہیں تھی کیونکہ سال کے آخر تک وہ آریہ سماج کی رسومات کے مطابق دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر چکے تھے اور اپنا نام بدل کر ہیرالال رکھ لیا تھا۔
’ماں کستوربا کی فتح‘
ایک بار جب ہری لال کو معلوم ہوا کہ مہاتما گاندھی اور کستوربا گاندھی ٹرین کے ذریعے کٹنی سٹیشن سے گزر رہے ہیں تو ہری لال اپنے والدین کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے خود کو نہ روک سکے۔
پرمود کپور لکھتے ہیں ’ہری لال کٹنی سٹیشن پہنچے جہاں ہر کوئی مہاتما گاندھی کی ستائش کر رہا تھا۔ وہ واحد شخص تھا جو ’کستوربا ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔‘
اپنا نام سن کر کستوربا نے اس سمت دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو وہاں کھڑا دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔
ہری لال نے جیب سے ایک سنتری نکال کر کہا ’با، میں یہ تمہارے لیے لایا ہوں۔‘
یہ سن کر گاندھی نے کہا ’کیا تم میرے لیے بھی کچھ لائے ہو؟‘
ہری لال نے جواب دیا، ’نہیں، یہ با کے لیے ہے۔‘
جیسے ہی ٹرین چلی گئی، کستوربا نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا ’با، تم یہ سنترا کھاؤ گی۔‘
Universal History Archive/Universal Images Group via Getty Images مہاتما گاندھی اور کستوربا گاندھیکستوربا سے آخری ملاقات
1944 تک، کستوربا کی صحت کافی بگڑ چکی تھی۔ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
اپنی موت سے پانچ دن پہلے ہری لال پونے کے آغا خان محل میں ان سے ملنے گئے۔
کستوربا کی موت سے ایک دن پہلے ہری لال دوبارہ ان سے ملنے گئے۔
وہ اس وقت نشے میں تھے۔ کستوربا کو ان کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ہری لال وہاں موجود تھے۔
ROLI BOOKSہری لال اپنے والد کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھےہری لال کی وفات
31 جنوری 1948 کو ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ ہندو روایت کے مطابق سب سے بڑا بیٹا چتا کو آگ لگاتا ہے۔ تاہم ہری لال کی غیر موجودگی میں گاندھی کے دوسرے بڑے بیٹے رام داس نے آخری رسومات ادا کیں۔
اس معاملے میں مورخین نے مختلف بیانات دیے ہیں۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گاندھی کی موت کے چار دن بعد ہری لال اپنے بھائی دیوداس گاندھی کے گھر بستر لے کر پہنچے۔
لیکن کچھ لوگ اس بیان کے خلاف بحث کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاندھی کے قتل کی خبر پورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ہری لال اس سے لاعلم ہوں گے۔
گاندھی خاندان کے افراد ان سے ناراض ضرور تھے لیکن وہ مسلسل رابطے میں رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ گاندھی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے سفر کرنے کے لیے بہت بیمار تھے؟
یا وہ اس وقت بھی اپنے باپ سے ناراض تھے۔
مہاتما گاندھی کے سوانح نگار رابرٹ پین نے اپنی کتاب ’دی لائف اینڈ ڈیتھ آف مہاتما گاندھی‘ میں لکھا ہے ’جن بیٹوں نے گاندھی کی آخری رسومات میں شرکت کی، ان میں ان کا بڑا بیٹا ہری لال بھی شامل تھا۔ پتلا اور تپ دق میں مبتلا، ہری لال اس شام موجود ہجوم میں شامل تھا۔ وہاں کسی نے انھیں نہیں پہچانا۔ اس نے وہ رات اپنے چھوٹے بھائی گاندھی کے گھر گزاری۔‘
گاندھی کی موت کے پانچ ماہ کے اندر 18 جون 1948 کو ہری لال گاندھی بھی بمبئی میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
گاندھی: ایک لاپروا نوجوان سے ’مہاتما‘ تک کا سفرگاندھی کے سیکس کے بارے میں خیالات کیا تھے؟گاندھی کو مذہب تبدیل کرنے سے کس نے روکا تھا؟خونیں تقسیم کے باوجود ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے جناح اور گاندھیانڈیا اور پاکستان میں اثاثہ جات کی تقسیم کا معاملہ اور گاندھی کا قتلگاندھی کو کتنی بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی؟