’اگر انڈیا بنگلہ دیش کے عوام کو ناراض کرنا چاہتا ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے‘: طارق رحمان کا بی بی سی کو انٹرویو

بی بی سی اردو  |  Oct 07, 2025

Getty Images

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے قائم مقام چیئرمین اور ملک کے اگلے وزیر اعظم بننے کے خواہشمند طارق رحمان نے کہا ہے کہ اگر انڈیا نے شیخ حسینہ کو پناہ دے کر بنگلہ دیشی عوام کو ناراض کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بنگلہ دیشی عوام نے ان سے فاصلہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہو گا۔‘

انھوں نے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ وہ تاریخی انتخابات لڑنے کے لیے دو دہائیوں بعد ملک واپس آئیں گے۔

انھوں نے تقریبا 20 سال بعد اپنے پہلے انٹرویو میں بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’وقت آگیا ہے، انشاء اللہ میں جلد واپس آؤں گا۔‘

فروری میں ہونے والے انتخاب میں بی این پی سب سے آگے ہے اور طارق رحمان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر بی این پی جیت جاتی ہے تو وہ ملک کی قیادت کریں گے۔

سنہ 2024 میں تین بار کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت عوامی مظاہروں کے بعد ختم ہوئی تھی۔ ان کی عوامی لیگ پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق 2024 کے بدامنی میں 1400 افراد ہلاک ہوئے، جس میں طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر مہلک کریک ڈاؤن بھی شامل تھا۔ انڈیا فرار ہونے والی حسینہ واجد پر مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

طارق رحمان کو اس بغاوت یا تحریک کا ’واحد ماسٹر مائنڈ‘ قرار دینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا ’نہیں، میں یقیناً خود کو جولائی کی اس تحریک کا ماسٹر مائنڈ نہیں سمجھتا۔ اگرچہ اسے جولائی کی تحریک کہا جاتا ہے لیکن اس تحریک کا سیاق و سباق کئی سال پہلے شروع ہوا تھا۔‘

طارق رحمان کا کہنا تھا کہ ’اس تحریک میں بنگلہ دیش کی جمہوری سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان، چاہے وہ بی این پی ہو یا دیگر سیاسی جماعتیں، ہر سیاسی جماعت نے مختلف طریقوں سے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں نے تمام جمہوری سیاسی جماعتوں کے ساتھ شرکت کی۔ کیا اس دن صرف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن میدان میں تھے؟ ہرگز نہیں۔‘

Getty Imagesاقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق 2024 کی بدامنی میں 1400 افراد ہلاک ہوئے

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے دیکھا کہ اس دن طلبہ اس تحریک کے میدان میں تھے۔ ہم نے دیکھا کہ گھریلو خواتین بھی اپنے بچوں کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ ہم نے کسانوں، مزدوروں، ڈرائیوروں، چھوٹی دکانوں کے ملازمین کو دیکھا۔ ہم نے ریٹائرڈ فوجی افسران اور ملازمین کو اس تحریک میں نکلتے دیکھا۔ بہت سے صحافی جو آمریت کے ظلم و ستم کے باعث ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے، اس تحریک میں شامل تھے۔‘

’یہ تحریک بنگلہ دیش کے عوام کی تحریک تھی، جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس تحریک کا ماسٹر مائنڈ کوئی جماعت یا فرد نہیں، اس تحریک کے ماسٹر مائنڈ بنگلہ دیش کے جمہوریت پسند عوام ہیں۔‘

بہت سے لوگوں نے سوال کیا ہے کہ طارق رحمان لندن میں کیوں تھے، جہاں وہ 2008 سے مقیم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’شاید کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر واپسی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وقت آگیا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک ایسا الیکشن ہے جس کا لوگ انتظار کر رہے تھے، میں اس دوران خود کو دور نہیں رکھ سکتا۔‘

انھوں نے کہا ’جب میں سیاست کرتا ہوں تو ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میرا سیاسی جماعت اور الیکشن سے گہرا تعلق ہے۔ تو میں ایسے الیکشن سے کیسے دور رہ سکتا ہوں جس سے عوامکو توقع ہو؟ توقع ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو میں عوام کے درمیان ہوں گا۔‘

عوامی لیگ نے 15 سالہ دور حکومت کے دوران بی این پی، اس کی دیرینہ حریف اور دیگر مخالفین کو کچل دیا تھا۔ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد متعدد مقدمات میں پانے والے طارق رحمان کو تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔

بی بی سی بنگلہ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلی آمریت میں میرا بولنے کا حق عدالتی حکم سے روک دیا گیا جیسا کہ رواج ہے۔ اگر میں میڈیا سے کچھ کہنا چاہتا تو شاید میڈیا اسے چھاپنا چاہتا لیکن میڈیا اسے چھاپ نہیں سکتا تھا۔‘

’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقحمود الرحمان کمیشن: سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟ذوالفقار علی بھٹو کا دورہِ بنگلہ دیش اور اثاثوں کی تقسیم کا تنازع: جب ڈھاکہ میں ’بھٹو ہمیں پاکستان لے چلیں‘ کے نعرے گونجےبنگلہ دیش کی فوج میں بغاوت، جوابی بغاوت اور فوجی افسران کے درمیان اقتدار کی جنگ کی داستانGetty Imagesطارق رحمان لندن میں 2008 سے مقیم ہیں

فروری میں الیکشن کے انعقاد پر طارق رحمان کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش کے عوام گزشتہ 17 سال سے اپنے سیاسی حقوق سے محروم ہیں۔ اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ جتنی جلدی انتخابات ہوں گے، اتنی ہی جلدی وہ حقوق ملک کے مالکان، یعنی عوام کو واپس کیے جائیں گے، اور جب وہ فیصلے کریں گے، یعنی جب ملک کے مالکان فیصلہ کریں گے کہ ملک کو کون چلائے گا اور کیسے، اتنا ہی جلد ملک میں استحکام آئے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اگرچہ صرف الیکشن کروانے سے سب کچھ راتوں رات ٹھیک نہیں ہو جائے گا۔ لیکن جب آپ مسائل کو حل کریں گے تو قدرتی طور پر مسائل آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ حکومت کو دیر ہونے کے باوجود معاملے کا ادراک ہوا ہے۔ ہم اسے دسمبر تک چاہتے تھے۔ اب وہ فروری تک الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔ ہم اس بات پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت مرحلہ وار اس سلسلے میں ہر قسم کے اقدامات کرے گی۔‘

کیا وہ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار ہوں گے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ فیصلہ بنگلہ دیش کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ میرا فیصلہ نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ بنگلہ دیش کے عوام کریں گے۔‘

اگرچہ بی این پی نے گزشتہ ایک سال کے دوران انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر عبوری حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ عوامی لیگ کی شرکت کے بارے میں بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

طارق رحمان نے کہا، ’جنھوں نے قتل اور تشدد کا حکم دیا، انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘

اہم حریف کی غیر موجودگی کے باعث بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بی این پی کو انتخابات میں آسانی سے برتری حاصل ہوگی اور اگر پارٹی جیت جاتی ہے تو 58 سالہ طارق رحمان اگلے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

Getty Imagesان کی 80 سالہ والدہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء بیمار ہیں

ان کی 80 سالہ والدہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء بیمار ہیں اور ان کی جانب سے الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا امکان نہیں ہے۔

تاہم ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت جماعت اسلامی نے گزشتہ ایک سال کے دوران بظاہر کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے طلبہ ونگ نے پہلی بار دو پبلک یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹ یونین کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، جس سے پارٹی کو تقویت ملی۔

تاہم طارق رحمان کا خیال ہے کہ طلبہ یونین کے نتائج کا عام انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

پچھلے انتخابات میں ان کے ووٹوں کا تناسب دو بڑی جماعتوں کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ دریں اثناء طلبہ رہنماؤں کی قیادت میں ایک نئی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) طلبہ یونین کے انتخابات میں زیادہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

جب سے شیخ حسینہ نے دلی میں پناہ لی ہے تب سے بنگلہ دیش کے اپنے سب سے بڑے پڑوسی انڈیا کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

بنگلہ دیشی عدالتوں نے ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں اور بنگلہ دیش نے ان کی ملک واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم انڈیا نے سرکاری سطح پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست میں انڈیا کے ساتھ تعلقات ایک حساس موضوع ہے۔ ملک کی اکثریتی زمینی سرحدیں انڈیا کے ساتھ واقع ہیں۔

بی این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے عوامی لیگ کی حمایت کرنے پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عوامی لیگ کے دور میں تین متنازع انتخابات کے دوران ایسا بارہا دیکھا گیا۔

رحمان کا کہنا ہے کہ ’اگر انھوں (انڈیا) نے ایک آمر کو پناہ دے کر بنگلہ دیشی عوام کو ناراض کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بنگلہ دیشی عوام نے ان سے فاصلہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔‘

انتخاب میں مرکزی مسئلہ جمہوری اصلاحات اور اظہار رائے کی آزادی کا ہو سکتا ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت پر اس لیے تنقید کی جاتی ہیں کہ وہ ناقدین کو خاموش کرا دیتے تھے۔ ایک عدالتی فیصلے کے تحت میڈیا پر طارق رحمان کی تقاریر شائع کرنے پر پابندی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد یقینی بنائیں گے کہ ایسی رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں۔

عبوری حکومت اصلاحات کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق پیدا کرنا چاہتی ہے۔ مگر اس میں پیشرفت سست روی کا شکار ہے۔

بہت سے بنگلہ دیشیوں کے لیے، خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے جنھوں نے گزشتہ سال کی قیادت کی تھی، بنیادی آزادیوں کو یقینی بنانا ملک کی اگلی حکومت کے لیے ایک اہم امتحان ہوگا۔

’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیق’یہ ہو گیا بنگلہ دیش کا نو مئی‘: ڈھاکہ کے وہ مناظر جنھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی یاد تازہ کر دیتاج الدین احمد: بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اعظم جنھوں نے موت سے قبل نماز پڑھنے کی اجازت مانگیذوالفقار علی بھٹو کا دورہِ بنگلہ دیش اور اثاثوں کی تقسیم کا تنازع: جب ڈھاکہ میں ’بھٹو ہمیں پاکستان لے چلیں‘ کے نعرے گونجےحمود الرحمان کمیشن: سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More