Getty Imagesحکمنامے میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن قطر پر ہونے والے کسی حملے کو امریکہ کے لیے خطرہ سمجھے گا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے ایک ایسے صدارتی حکمنامے پر دستخط کیے جس میں خلیجی ملک قطر اور وہاں تعینات امریکی فوج کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدمات کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔
اس حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن قطر پر ہونے والے کسی حملے کو امریکہ کے لیے خطرہ سمجھے گا اور اس سلسلے میں 'تمام قانونی اور مناسب اقدامات کیے جائیں گے، جن میں سفارتی، اقتصادی اور ضرورت پڑنے پر فوجی اقدامات شامل ہیں تاکہ امریکی اور قطری مفادات کا دفاع کیا جائے اور امن و استحکام کو بحال کیا جائے۔'
امریکی صدر کے اس حکمنامے کو امریکہ اور اس کے عرب اتحادی قطر کے درمیان غیر معمولی سکیورٹی معاہدہ کہا جا رہا ہے جو کہ مغربی ممالک کے اتحاد نیٹو کے طرز پر ہے اور ممکن ہے کہ قطر کے علاقائی پڑوسی اس پر حسد کریں۔
یہاں سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ صرف کچھ برس قبل قطر کو اپنے پڑوسیوں کی طرف سے معاشی اور سفارتی بائیکاٹ کا سامنا تھا اور اب وہ مشرق وسطیٰ کا سفارتی مرکز بن چکا ہے۔ وہ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان بھی ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔
حماس کے سیاسی دفاتر دوحہ میں اور وہاں ٹرمپ کے 20 نکاتی مجوزہ امن منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ یہ قطر ہی جہاں اس خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فضائی اڈہ العدید واقع ہے۔
اس سے قبل اسرائیل کے دوحہ میں حماس پر حملے پر قطر کا حکمران الثانی خاندان غصے میں تھا اور اب اس کے بعد امریکہ نے انھیں سکیورٹی کی ضمانت دی ہے۔
اسی برس قطر پر ایران نے بھی حملہ کیا تھا اور اس کا نشانہ امریکی فضائی اڈہ تھا۔ یہ حملہ ایران نے اپنے جوہری مراکز پر حملوں کے بدلے میں کیا تھا۔
خلیجی عرب ریاستوں میں بھی قطر پر ہونے والے حملوں کے بعد اضطراب پایا جا رہا ہے اور سمجھا جا رہا تھا کہ امریکی شراکت داری اور اس کے فضائی اڈے کی موجودگی کے باوجود بھی آپ محفوظ نہیں ہیں۔
قطر نے پُرتپاک انداز میں ٹرمپ کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہےاور کہا ہے کہ 'یہ دونوں ممالک کی دفاعی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔'
Getty Imagesاسرائیل نے دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی
لیکن ٹرمپ کے اس قدم کا وقت بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے اور واشنگٹن میں اس پر سوالات بھی اُٹھیں گے۔
یہ قدم ایک ایسے خطے پر اثر انداز ہوگا جو پہلے ہی افراتفری سے متاثر ہے اور اسی وقت حماس بھی غزہ کے مستقبل کے لیے ٹرمپ کے مجوزہ معاہدے پر غور کر رہی ہے۔
اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈان شپیرو کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے قطر کو ایک غیرمعمولی تحفہ دے دیا ہے وہ بھی بدلے میں بغیر کوئی یقین دہانی لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ کی طرف سے قطر کو دی گئی سکیورٹی ضمانت کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ اگر وہ حماس کی جانب سے ہاں میں جواب نہیں لاتے یا پھر نہ کہنے پر انھیں ملک بدر نہیں کر دیتے۔'
اسرائیلی اخبار ہارٹز نے اس قدم کی اسرائیل کے لیے وضاحت کچھ یوں کی ہے: ’ٹرمپ نے قطر میں موجود حماس کی قیادت کو استثنیٰ دے دیا ہے، وہ بھی تب جب نتن یاہو انھی خبردار کر چکے تھے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔‘
تاہم خلیجی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس لرزتے ہوئے خطے کے لیے ٹرمپ کی سکیورٹی ضمانت بہت اہم ہے جو کہ اپنی سرحدوں کے اطراف اسرائیل کے طاقت کے استعمال کے سبب بھی تشویش کا شکار ہے۔ وہاں یہ سوچ بھی ہے کہ خلیجی خطے میں امریکی سکیورٹی پر انحصار بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
مصر کا تلخ لہجہ اور صحرائے سینا میں فوجیوں کی تعیناتی: اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک اسے ’دشمن‘ کیوں قرار دے رہا ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘
یوریشیا گروپ سے منسلک فراس مکسد کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر نے 'ایک طرح سے' قطر اور خلیجی اتحادیوں کو سکیورٹی کی یقین دہانی کروانے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب بھی ایسی ہی ضمانت چاہتا ہے۔
مکسد کہتے ہیں کہ: ’میرا خیال ہے کہ ان ممالک کو اپنے ساتھ رکھنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔‘
قطر کو دی گئی سکیورٹی ضمانت کا دائرہ بھی کافی ہے اور اسے بتایا گیا کہ کسی حملے کی صورت میں اسے امریکہ کی عسکری حمایت حاصل ہوگی۔
یہ ایسا ہی جیسا نیٹو کا آرٹیکل فائیو ہے جس کے تحت ایک رُکن پر حملے کا جواب تمام اراکین مشترکہ طور پر دیں گے۔
لیکن یہ اقدام ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لیا گیا ہے اور کانگرس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ تاہم وار پاور ایکٹ کے تحت کسی بھی صدر کے لیے امریکی افواج کی کہیں تعیناتی کے فیصلے سے قبل کانگرس کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے ٹرمپ کے اس قدم میں قانونی کمی ہے اور شاید مسقبل میں کسی نئے صدر کے دور میں یہ سکیورٹی ضمانت واپس لے لی جائے۔ کانگرس میں ڈیموکریٹس بھی اس قدم پر تقطہ چینی کریں گے۔
ٹرمپ کے اپنے حمایتی بھی ان کے ایگزیکٹو آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ اسے 'امریکہ فرسٹ' ایجنڈے کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔
دائیں ہاتھ کے نظریات کی حامل ٹرمپ کی قریبی کارکن لورا لومر نے اشارتاً کہا ہے کہ قطر امریکہ کے لیے اتحادی سے زیادہ ایک خطرہ ہے۔
Getty Imagesٹرمپ کے مخالفین انھیں مفادات کے ٹکراو کی راہ پر چلنے کا الزام عائد کرتے ہیں
ٹرمپ کے حمایتی ریڈیو میزبان مارک لیون کہتے ہیں ٹرمپ کے آرڈر سے خطے میں امریکہ کے روایتی اتحاد کو نقصان پہنچا ہے: 'یعنی اگر قطر میں اسرائیل حماس کی قیادت کو ہلاک کرتا ہے تو ہم اسرائیل کے خلاف جنگ لڑیں گے؟'
پھر یہاں قطر سے ٹرمپ خاندان کے ذاتی اور کاروباری تعلقات کا سوال بھی ہے۔ ان کے مخالفین کہیں گے کہ امریکی صدر خارجہ پالیسی کے ذریعے ذاتی مفادات حاصل کر رہے ہیں۔
رواں برس اپریل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹوں ایرک اور ڈونلڈ جونیئر کی قیادت میں ٹرمپ آرگنائزیشن نے قطر میں پرتعیش گالف ریزورٹ بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔
قطر اس سے قبل ایک 747 جہاز بھی امریکہ کو تحفے میں دے چکا ہے جو کہ ٹرمپ ایئر فورس ون کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
تاہم وائٹ ہاؤس اور قطری حکام مفادات کے کسی بھی قسم کے ٹکراؤ کی تردید کر رہے ہیں۔
اکاؤنٹ ایبل یو ایس نامی گروپ سے منسلک ٹونی کارک کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنی پالیسی اور کارباری تعلقات کے درمیان لکیر کو حذف کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بظاہر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکی ٹیکس دہندگان قطر میں ان کے پر تعیش گالف کورس کے عسکری تحفظ کا خرچہ اٹھائیں اور وہ قطری حکومت سے منسلک اپنے کاروباری شراکت داروں کو بھی خوش کر سکیں۔‘
ٹرمپ نے رواں برس مئی میں دوحہ کا دورہ بھی کیا تھا، جہاں ان کی اس خطے کی امیر ترین شخصیات سے نہ صرف ملاقاتیں ہوئی تھیں بلکہ کاروباری مذاکرات بھی ہوئے تھے۔
تاہم وائٹ ہاؤس مفادات کے ٹکراو کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
نائب پریس سیکریٹری اینا کیلی نے بی بی سی کو ایک بیان میں بتایا کہ: ’صدر ٹرمپ کے اثاثے ایک ٹرسٹ کے نام پر ہیں جنھیں ان کے بچے چلاتے ہیں۔ یہاں مفادات کا کوئی ٹکراو نہیں ہے۔‘
سابق صدر سے مستقبل کے قیدی: سرکوزی کو معمر قذافی سے ’پیسے لینے‘ پر سزا جس پر فرانس منقسم ہےشہباز شریف اور عاصم منیر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کے کوٹ پر لگی ’لڑاکا طیارے کی پن‘ سے جڑے سوال اور جوابحماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہےٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟