مسجد کو شہید کرنے کا افسوس تھا ۔۔ انتہا پسند کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اس نے اسلام قبول کر کے 100 مساجد تعمیر کیں؟

ہماری ویب  |  Aug 06, 2022

انسان کی زندگی کب بدل جائے، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے، لیکن اس سب میں انسان کو ایک ایسا احساس ہوتا ہے جو کہ اسے مطمئن اور غیر مطمئن کرتا ہے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو بابری مسجد شہید کرنے والے ایک ایسے ہی شخص سے متعلق بتائیں گے۔

1992 میں مسلمانوں کے لیے ایک تکلیف دہ دن تھا، کیونکہ مشہور اور پرانی مسجد بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے یہ کہہ کر شہید کیا تھا کہ یہاں رام مندر تھا، اور اسی کو دوبارہ کھولیں گے۔

اس اشتعال انگیزی کا مقابلہ مسلمانوں نے خود کرنے کی کوشش کی کیونکہ حکومتی اور انتظامیہ کے یکطرفی نے مسلمانوں کو دھچکا دیا تھا، سیکولر ریاست کا دعویٰ کرنے والے بھارت میں 1992 میں کئی مسلمان شہید ہوئے تھے۔

بابری مسجد کو شہید کرنے والوں میں ایک کارسیوک بلبیر سنگھ تھا، جس نے بڑے ہی جاہ و جلال اور جذباتی انداز سے بابری مسجد کو شہید کیا تھا، اور جب یہی شخص مسجد شہید کر کے علاقے میں پہنچا تو لوگوں نے خوب استقبال کیا، یہاں تک کے ہار پہنائے اور مٹھائیاں بھی کھلائی لوگ اس حد تک اسے سراہ رہے تھے کہ اسے یوں لگ رہا تھا کہ میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔

اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ رونق اور شہرت اب یوں ہی بنی رہے گی، لوگ مجھے پوچھتے رہیں گے، مگر جب بلبیر گھر پہنچا اور گھر والوں کے سامنے سینا تان کر کھڑا ہوا تو گھر والوں نے اس عمل کی نا صرف مذمت کی بلکہ ناراضگی کا بھی اظہار کیا، وہ مسجد شہید کرنے کے عمل پر شدید تکلیف میں تھے۔

بلبیر سنگھ کو گھر والوں کا یہ رویہ اس حد تک دل کو لگا کہ خود کو شرمندہ محسوس کر رہا تھا، اسے ایک ایسا احساس ہونے لگا کہ اب اس کی دنیا ہی ختم ہو رہی ہے، کچھ باقی ہی نہیں رہا۔ بلبیر نے اس واقعے کو اس حد تک اپنے ذہن پر سوار کر لیا جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر بیمار ہو گیا۔

بلبیر اس بیماری کا حل تلاش کرنے اور سکون کی خاطر جب کبھی انہیں لوگوں کے پاس جاتا جنہوں نے مسجد شہید کرنے پر اسے مارک باد دی اور سراہا تو یوں مایوس لوٹ جاتا کہ وہ اسے اہمیت ہی نہیں دیتے، اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں اس سب میں استعمال ہوا ہوں۔

ایک آخری راستے کے طور پر بلبیر نے اتر پردیش کے شہر مظفرنگر کے مشہور مولانا کلیم صدیقی سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس غیر اطمینانی کیفیت جس کی وجہ سے اسے جسمانی اور ذہنی سکون میسر نہیں تھا، اس بارے میں بتایا۔ دراصل بلبیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا وہ نادم اور شرمندہ تھا کیونکہ اس عمل نے اسے بدل کر رکھ دیا تھا۔

مولانا کلیم صدیقی نے بھی قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے بلبیر کو پوری صورتحال سے روشناس کرایا جس پر بلبیر کی آنکھوں میں آنسو اور دل ایسا تھا کہ جیسے بارش کے باد ہوتے ہیں اور جب بس برسنے کو تیار ہوتے ہیں، بلبیر کو بھی ایک ایسے بندے کی تلاش تھی جو اسے صحیح طرح سے غلطیوں کا ازالہ کرنے اور سیدھی راہ کی طرف چلنے کا بتائے۔

اس سب کے بعد بلبیر نے انہی مولانا کلیم صدیقی کی موجودگی میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام محمد عامر رکھا۔ اب (بلبیر) محمد عامر نے ساتھ ہی اس بات کا بھی فیصلہ کیا کہ وہ پورے بھارت بھر میں ایک مسجد شہید کرنے کے بعد 100 مساجد تعمیر کرے گا۔ اس ارادے میں عزم و ہمت کے ساتھ ساتھ صاف نیت بھی تھی جب ہی محمد عامر نے 1994 میں ہریانہ سے مسجد مدینہ کی تعمیر سے شروعات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے محمد عامر نے اپنی موجودگی میں 26 سال کے عرصے میں 26 مساجد تعمیر کرائیں جبکہ 59 مساجد زیر تعمیر تھیں لیکن محمد عامر سے شاید اللہ نے یہی کام لینا تھا، جب ہی جولائی 2021 میں وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More