اس ٹرین کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں نے چندہ دیا تھا۔۔ مکہ سے چلنے والے وہ ٹرین جو پاکستان اور بھارت تک بھی آنا تھی، مگر تباہ کیسے ہوئی؟

ہماری ویب  |  Apr 01, 2023

ایک وقت تھا جب دنیا بھر میں جہاز کے ہوائی جہاز ہوتے نہیں تھے، ایسے میں دنیا بھر کے مسلمان عمرہ اور حج کے لیے سمندری جہاز یا پھر پیدل چلنے کو اہمیت دیتے تھے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔

سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی سواری سے متعلق معلومات نے سب کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ حجاز ریلوے کے نام سے مقبول ہونے والی یہ مسافر ٹرین کئی ممالک سے ہوتی ہوئی مدینہ شہر پہنچتی تھی۔

1900 میں عثمانیہ خلافت کے سلطان عبدالحمید کی جانب سے ایک ایسے پراجیکٹ پر توجہ دی جا رہی تھی جو یورپ، ایشیاء کے مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ کے لیے سفری سہولت فراہم کر سکتا تھا۔

یہ دنیا کے اُن بڑے پراجیکٹس میں شامل تھا جس کے ذریعے نہ صرف مسلمان باآسانی عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کر سکتے تھے، بلکہ معاشی طور پر بھی مسلمانوں کو بے حد فائدہ ہونے والا تھا۔

1320 کلومیٹر کے اس پراجیکٹ کی خاص بات یہ تھی کہ شروعات میں یہ پراجیکٹ دمشق شہر کو مکہ اور مدینہ سے جوڑتا اور پھر ترکیہ کو بھی شامل کر لیتا، بعدازاں ایران کے راستے اُس وقت کے ہند سے ہوتا ہوا سینٹرل ایشیاء کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتا۔

اس پراجیکٹ سے انگریز اس لیے بھی خوفزدہ تھے کیونکہ مسلمان جو سمندری راستے سے یا پھر اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے یہاں پہنچتے تھے اب باآسانی ریل کے ذریعے پہنچ سکتے تھے، جبکہ ایک اور دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ اس ٹریک سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی، خلوص، محبت اور اتحاد بڑھ رہا تھا۔

یہ دنیا کا واحد پراجیکٹ تھا جو چندے پر چلنا شروع ہوا تھا، دنیا بھر کے مسلمانوں نے اسے کامیاب بنانے کے لیے چندہ جمع کیا، رقم جمع کرائی، ساتھ ہی گھر کی خواتین نے اپنے سونے کے جواہرات سمیت نقدی بھی جمع کرا دی۔

یہاں تک کہ مسافر ٹرین کی پٹری جس جس ٹریک پر بچھی، اُس میں بیشتر زمین کسانون کی تھی، کسانوں نے اسکا متبادل جگہ یا رقم بھی نہیں لی اور اسے اللہ کی راہ میں دے دیا۔

چونکہ مسلمان اس سے قریب آ رہے تھے یہی وجہ تھی پہلی جنگ عظیم میں 1916 میں اس ٹریک کو تباہ کیا گیا تھا، اگر یہ منصوبہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو ہند کے مسلمان بھی اس منصوبے سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہوتے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More