Tamilnadutourism
’آخری لمحات میں کٹابومن نے خاصی ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ جب وہ پھانسی کے تختے کی طرف بڑھا تو صرف ایک شخص کے بارے میں پریشان تھا۔ یہ اس کا چھوٹا بھائی تھا۔‘
یہ اقتباس میجر بینرمین کے 16 اکتوبر 1799 کو ویرپانڈیا کٹابومن کی پھانسی پر برطانوی حکومت (صوبہ مدراس میں) کے سیکرٹری کو لکھے گئے خط سے لیا گیا ہے۔
یہ رابرٹ کالڈویل کی کتاب 1881 میں حکومت مدراس کے ذریعہ شائع کردہ ’ضلع ترونیل ویلی کی سیاسی اور عمومی تاریخ‘ میں درج ہے۔
برٹش ایسٹ انڈیا آرمی کے ایک افسر جنرل جیمز ویلش نے 1830 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ملٹری ریمینیساں‘ میں لکھا ہے کہ ’سب سے زیادہ غیر معمولی آدمی جسے میں جانتا تھا وہ یہ قوتِ گویائی سے محروم شخص تھا۔‘
تمل سکالر ایم بی سواگنانم کی لکھی ہوئی کتاب ’کیاتھاتیل کٹابومن‘ میں انھوں نے کہا ہے کہ ’امیتھورائی نے ویرپانڈین سے زیادہ انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔‘
جب کٹابومن کو پھانسی دی گئی تو ان کے چھوٹے بھائی امیتھورائی کو پالیانگوٹائی جیل میں قید کیا گیا تھا۔ ان کا پیدائشی نام کمارا سوامی تھا۔
بعد میں وہ بالیان کوٹا جیل سے فرار ہو گئے اور کئی دنوں تک انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔ آخرکار انھیں 16 نومبر 1801 کو پنچلانکورچی میں پھانسی دے دی گئی۔
Alpha Editionانگریزوں کے خلاف کئی دنوں تک اشاروں کے ذریعے جنگ کی قیادت کی
جنرل جیمز ویلش نے نے 1790 سے 1848 تک برٹش ایسٹ انڈیا آرمی میں خدمات انجام دیں۔ ان کی کتاب ’ملٹری ریمینیساں‘ کو ہندوستانی تاریخی مطالعات میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اس قوتِ گویائی سے محروم شخص کے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے۔
جیمز ویلش نے لکھا ’امیتھورائی کٹابومن کے قریب ترین شخص ہیں۔ وہ نہ بول سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں لہذا ہم انھیں انگریزی میں ’ڈمب برادر‘ یا قوتِ گویائی سے محروم بھائی بلاتے ہیں۔
ان کی ظاہری شکل و صورت کے بارے میں لکھا ہے کہ ’یہ ایک پتلے قد کا نوجوان ہے لیکن مشکل وقت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہے اور زبردست قوت ارادی کا مالک ہے۔ جن لوگوں کو ان پر بہت اعتماد تھا وہ اسے دیوتا کے طور پر دیکھتے تھے اور اسے ’سوامی‘ کہتے تھے۔‘
جنرل جیمز ویلش نے لکھا ’لوگ امیتھورائی کو پسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا چھوٹا سا اشارہ بھی لوگوں کے لیے خدا کی نعمت بن گیا اور ہر آدمی ان کے حکم کے مطابق کام انجام دینے کی کوشش کرتا تھا۔ وہاں اجتماع ایسا نہیں ہوا جس کی آپ نے صدارت نہ کی ہو۔ کوئی مہم جوئی ایسی نہیں کی گئی جس کی انھوں نے قیادت نہ کی ہو۔‘
پالیانگوٹائی سے ایک ریٹائرڈ تامل پروفیسر اور مصنف مانیکم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت سےلوگ اس قوتِ گویائی سے محروم شخص کی مہارت اور بہادری کے بارے میں نہیں جانتے۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف کئی دنوں تک اشاروں کے ذریعے جنگ کی قیادت کی۔ تاریخ میں ان جیسا شخص نایاب ہے۔‘
’وہ اپنے دائیں ہاتھ سے ٹوپی پہننے کا اشارہ کرتے جبکہ بائیں ہاتھ میں تنکے کو پکڑ کر اپنے سپاہیوں کو سگنل دیتے کہ انگریز فوجیں آ رہی ہیں۔ وہ ان سے حملہ کروانے کے لیے ایک عجیب و غریب آواز نکالتے تھے۔‘
جیمز ویلش نے اپنی کتاب میں اس قوتِ گویائی سے محروم شخص کی جنگی حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انگریزوں کے خلاف منصوبہ بندی کرنے میں وہ سب سے آگے تھا۔ وہ جہاں بھی گئے ان کی بے مثال بہادری نے فتح کو یقینی بنایا۔ تاہم بالآخر وہ پھانسی کے تختے پر جانے پر مجبور ہوئے۔ اس سے پہلے ہر لڑائی میں وہ مجزاتی طور پر ہم سے بچتے آئے تھے۔‘
ٹیپو سلطان: جب میر صادق اور فوج کی غداری کی مدد سے انگریزوں نے سرنگاپٹنم فتح کیاانگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟ایسٹ انڈیا کمپنی جس نے ایک خطے پر راج کیاٹیپو سلطان، متعصب جہادی یا روادار حکمران؟BBCکتبومن کو 16 اکتوبر 1799 کو کیاتھر میں پھانسی دی گئیکٹابومن کی پھانسی کے بعد کیا ہوا؟
کٹابومن کو برطانوی حکومت نے گرفتار کیا اور 16 اکتوبر 1799 کوانھیں پھانسی دے دی گئی۔
ان پر الزامات میں ’ٹیکس صحیح طریقے سے ادا نہ کرنا، کلکٹر کے بلائے جانے پر ملنے سے انکار کرنا، شیواگیریا کے بیٹے کی حمایت کے لیے فوج بھیجنا، میجر بینرمین کے اختیار کے خلاف مزاحمت کرنا اور ہتھیار نہ ڈالنا‘ شامل ہیں۔
اس وقت، پنجلانکوریچی کے اہم افراد بشمول ان کے چھوٹے بھائی اومیتھورائی اور سیواتھیا، پالیانگوٹائی جیل میں قید تھے۔
جارج اے ہیوز جنھوں نے اس علاقے میں برطانوی افواج کے لیے مترجم کے طور پر کام کیا، انھوں نے ’دی مدراس جرنل آف لٹریچر اینڈ سائنس‘ (1844 میں شائع کردہ) میں کہا ہے کہ ’1800 کی دہائی کے اوائل میں میجر بینرمین جنھوں نے کٹابومن کو پھانسی دی تھی وہ یورپ واپس آئے۔ پھر میجر رابرٹ ٹیورنگ کی پوسٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد میجر کولن میکالے آئے۔‘
یہ میجر میکالے ہی تھے جنھوں نے امیتھورائی اور ان کی افواج کے خلاف ’پنچلانکوریچی کی دوسری جنگ‘ کے پہلے مرحلے میں برطانوی افواج کی قیادت کی۔
جنرل جیمز ویلش نے اپنی کتاب میں اومیتھورائی اور ان کے ساتھیوں کے جیل سے فرار ہونے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے ’2 فروری 1801 کو ہماری فورس نے پالیانگوٹائی سے تقریباً 30 میل دور سنکرانینار مندر میں ڈیرے ڈالے تھے۔ میجر میکالے کے گھر کی پارٹی میں تقریباً بیس انگریز عورتیں اور مرد موجود تھے۔‘
’اس وقت چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور ہم نے لوہے کی سنگلاہوں والے جانوروں کو اس جگہسے ہٹوا دیا تھا جہاں خطرناک قیدی موجود تھے۔اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدیوں نے کیمپوں سے اپنے سپاہیوں کو بلایا اور محافظوں پر حملہ کر کے فرار ہو گئے۔ وہ فجر سے پہلے پنچلانکوریچی پہنچ گئے۔‘
BBCبالیان کوٹہ جیل
اس منصوبے کو ایک دلچسپ فرار دینے والے مصنف مانیکم نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے ’جہاں جیل ہوا کرتی تھی، میتھورائی کے کچھ آدمی اس علاقے کی جاسوسی کرتے اور فوج کو اطلاع دیتے تھے۔ پھر تقریباً 200 لوگ کاوڑی کو لے کر پالیم کوٹ بارڈر پر آتے ہیں اور اپنے ہتھیاروں کو لکڑی کے 100 بنڈلوں میں چھپاتے ہیں اور فی آدمی دو بنڈل کے حساب سے لکڑی بیچنے والوں کی طرح شہر میں داخل ہوتے ہیں۔‘
’وہ آگ کی لکڑی کے بنڈل کی قیمت پانچ روپے بتاتے ہیں تاکہ لوگ یہ سوچ کر لکڑیاں خریدنے کے لیے ان سے رجوع نہ کریں کہ وہ حقیقی تاجر ہیں۔ جیسے ہی وہ جیل کے قریب پہنچتے ہیں، وہ دوڑ کر حملہ کرتے ہیں اور قوتِ گویائی سے محروم شخص کو بچاتے ہیں۔‘
اس حملے کے دوران اگرچہ گارڈ ڈیوٹی پر چند انگریز موجود تھے لیکن وہ میتھورائی کی فوج کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئے۔ مانیکم نےلکھا ’پنچلانکورچی کے راستے میں بھی وہ برطانوی فوجیوں کو آسانی سے مار سکتے تھے لیکن امیتھورائی نے سوچا کہ جنگ منصفانہ ہونی چاہیے۔‘
اس بارے میں جنرل جیمز ویلش نے اپنی کتاب ’ملٹری ریمینیسینسز‘ میں لکھا ہے کہ ’فرار ہونے کی جلد بازی میں انھوں نے ہمیں مارنے کا موقع گنوا دیا۔ ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور راستے میں چھوٹی چھوٹی انگریز فوجیں ان کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھیں۔‘
’اگر وہ ہمیں مارنے کا فیصلہ کرتے تو نقصان بہت زیادہ ہوتا۔ لیکن وہ صرف اپنے ہتھیار لے گئے۔ اگر اس دن پالیان کوٹ میں موجود تمام برطانوی فوجی بھی وہاں موجود ہوتے تو تب بھی انھیں روکا نہیں جا سکتا تھا۔‘
گاؤں والوں کے 42 قلعے منہدم کر دیے گئے
کٹابومن کی پھانسی کے بعد پنچلانکوریچی کا قلعہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانوی حکومت نے تمام آباد کاروں کو اپنے قلعے گرانے کا حکم دیا اور گاؤں والوں کے 42 قلعے منہدم کر دیے گئے۔ اسے میجر بینرمین کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔
ضلع ترونیلویلی کی سیاسی اور عمومی تاریخ میں لکھا ہے کہ دیہاتیوں کی طرف سے اسلحہ رکھنے پر بھی سخت پابندیاں لگائی گئیں۔ ان اقدامات سے ضلع ترونیل ویلی میں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی تمام آوازیں دبا دی گئیں۔ میجر بینرمین اس فتح کے ساتھ یورپ واپس آگئے۔ دو سال سے زائد عرصے تک قائم رہنے والا امن اس وقت ختم ہوا جب گاؤں والوں نے آخری لڑائی لڑی۔
مانیکم کہتے ہیں ’اس آخری جنگ میں سب سے اہم کردار متیتھورائی نے ادا کیا تھا۔ بالیان کوٹ سے فرار ہونے کے بعد ان کی فورس نے الور، تھروناگری، سری وائی کنڈم، کدل گوڈی، ناگالپورم، کولار پٹی، اور تھوتھکوڈی کے برطانوی زیر قبضہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں ان کی قیادت میں پنجلانکورچی قلعہ صرف چھدنوں میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔‘
جارج اے ہیوز نے ’دی مدراس جرنل آف لٹریچر اینڈ سائنس‘ میں لکھا ہے ’حکومت کے بہت سے چھوٹے قلعے آباد کاروں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ جنھوں نے تقریباً ایک ہزار بندوقیں اور ان کا گولہ بارود ضبط کیا۔‘
جنرل جیمز ویلش اپنی کتاب ’ملٹری ریمنیسینسز‘ میں لکھا ہے کہ ’ہماے لیے یہ ایک معجزہ تھا کہ چھ دنوں میں پنچلانکوریچی میں اتنا مضبوط قلعہ بن گیا۔‘
وی مانیکم کا کہنا ہے کہ ’چونکہ یہ چھ دنوں میں بنا اس لیے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ قلعہ کمزور بنایا گیا تھا۔ اسے اس طرح بنایا گیا ہے کہ توپ خانے سے آسانی سے اڑا نہیں دیا جا سکتا تھا۔ میجر میکالے کی فورس جس نے سب سے پہلے قلعے پر حملہ کیا انھیں بھاری جانی نقصان ہوا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہر برطانوی فوجی جو قلعے کے قریب آتا تھا اس کے نیزے مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے تھے۔‘
جنرل جیمز ویلش نے اپنی کتاب میں اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ ’حملہ آور پارٹی کے صرف 46 یورپی سپاہی ہی محفوظ رہے۔ افسروں اور توپ خانوں سمیت ایک سو چھ افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘
Military Reminiscencesکٹابومن کے زمانے میں پنجلانکورچی کی ایک برطانوی پینٹنگمیجر میکالے کی شکست سے برطانوی حکومت جاگ اٹھی، جنگ کی قیادت کے لیے ایک نیا افسر لایا گیا
جیمز ویلش نوٹ کرتے ہیں کہ پنچالنگوریچی کے قدیم دشمن ایٹا پورم پالیام تقریباً 1000 آدمیوں کی فوج کے ساتھ آئے تھے لیکن وہ بھی جیتنے میں ناکام رہے اور ان کی طرف ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔
’میجر میکالے کی اس شکست کے بعد برطانوی حکومت جاگ اٹھی۔ کرناٹک، مالابار کے ساحل جیسے مختلف خطوں سے فوجیں لائی گئیں۔ ایک گھڑسوار دستہ وہاں بھیجا گیا۔ تروچیراپلی سے توپ خانہ شروع ہوا۔ جنگ کی قیادت کے لیے ایک نیا افسر لایا گیا۔‘
’یہ افسر کرنل پیٹر ایگنیو تھے۔ ایک عظیم فوجی تجربہ کار، کئی سالوں سے انگریزی فوج میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے طور پر جانے جاتے تھے۔‘
جارج اے ہیوز نے ’دی مدراس جرنل آف لٹریچر اینڈ سائنس‘ میں اس کے بعد ہونے والے واقعات کو اس طرح بیان کیا ہے:
تمام متوقع رجمنٹیں مئی (1801) کے وسط میں پنجلانکورچی پہنچ گئیں۔ کرنل اگنیو نے 21 مئی کو کمان سنبھالی۔ ان کی آمد کے تین دن سے بھی کم وقت بعد 24 مئی کو قلعہ پر قبضہ کر لیا گیا۔
ان تین دنوں کے دوران توپ خانے، دستی بموں کا مسلسل شدید حملہ دن رات جاری رہا۔ اس سے دشمن (امیتھرائی اور ان کی فوجوں) کو نقصان کا اندازہ لگانے یا اپنے اگلے اقدام کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملا۔ انھیں بھاری نقصان پہنچا اور قلعہ خالی کرنا پڑا۔
جارج اے ہیوز کے مطابق تقریبا دو ہزار لوگ قلعے سے فرار ہوئے اور جب برطانوی افواج قلعے میں داخل ہوئیں تو 450 لاشیں ملی تھیں۔
مصنف وے کہتے ہیں ’قوتِ گویائی سے محروم شخص اس جنگ میں بری طرح زخمی ہوا اور قلعہ سے چند میل کے فاصلے پر بے ہوش پڑا تھا۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ وہ بچ گیا۔۔۔ خاص طور پر اس لیے کہ لوگوں نے اسے دیوتا کے طور پر مانا۔‘
Tamilnadutourismجیمز ویلش نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ پنچلانکوریچی میں ایک نیا قلعہ چھ دنوں میں بنایا گیا تھا (تصویر میں قلعے کا موجودہ ماڈل ہے)’فوجیں گاؤں میں داخل ہوئیں تو عورتوں نے قوتِ گویائی سے محروم شخص کے جسم پر سفید کپڑا ڈال دیا‘
جنرل جیمز ویلش اپنی کتاب ’ملٹری ریمینیسینسز‘ میں بتاتے ہیں کہ قلعے سے فرار ہونے والوں میں سے کچھ افراد تین میل دور ایک گاؤں میں بری طرح زخمی پائے گئے۔ اس میں ایک ماں اور رشتہ دار جو اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلے تھے، اسے پہچان کر اٹھا کر لے گئے۔
بیٹے نے کہا ’ماں مجھے بچانے کی کوشش نہ کریں۔ سوامی میرے قریب پڑے ہیں، پہلے انھیں بچاؤ۔۔۔ اور وہ قوتِ گویائی سے محروم شخص کو وہاں زندہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور اسے گھر لے گئے۔‘
قوتِ گویائی سے محروم شخص کو سوامی بلانے کے متعلق جنرل جیمز ویلش نے لکھا کہ ’لوگوں نے قوتِ گویائی سے محروم شخص کو دیوتا کے طور پر دیکھا اور یہ اس بیٹے کے عمل سے بھی ثابت ہوتا ہے جو موت کے دہانے پر بھی انھیں بچانا چاہتا تھا۔‘
’اس کے بعد اس ماں نے انھیں گھر رکھ کر ان کا علاج کیا۔ لیکن انگریز اور ایٹا پور کی فوجیں ان کی اور باقی سپاہیوں کی تلاش میں تھیں۔‘
جنرل جیمز ویلش نے اپنی کتاب میں لکھا ’جیسے ہی ایٹا پورہ فورسز گاؤں میں داخل ہوئیں وہاں کی عورتوں نے قوتِ گویائی سے محروم شخص کے جسم پر سفید کپڑا لپیٹ دیا اور کہا ’یہ ایک نوجوان کی لاش ہے جو چیچک سے مر گیا تھا‘ جیسے ہی یہ کہا گیا کہ یہ چیچک ہے ایٹا پورہ کی فوجیں وہاں سے چلی گئیں۔ اس نے نہ صرف قوتِ گویائی سے محروم شخص کی زندگی بچائی بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی جانیں بھی بچ گئیں۔‘
BBCپنچلانکورچی کی جنگ میں مرنے والے برطانوی فوجیوں کی قبریںمروڈو بھائیوں نے قوتِ گویائی سے محروم شخص کو کرنل پیٹر کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا
مصنف وی مانیکم بیان کرتے ہیں کہ آگے کیا ہوا ’کچھ دنوں کے بعد وہ قوتِ گویائی سے محروم شخص جو اپنی چوٹوں سے صحت یاب ہو کر کاموتی چلا گیا تھا، مروڈو بھائیوں سے ملا۔ وہ خاص طور پر چنا مروتھو، امیتھوری کا بہت احترام کرتے تھے۔ امیتھورائی کچھ دن ان کے ساتھ سروویل اڑی میں رہے۔‘
یہ سن کر کرنل پیٹر اگنیو نے مروڈو بھائیوں کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر قوتِ گویائی سے محروم شخص کو ان کے حوالے کر دیں۔ انھوں نے انکار کر دیا۔ ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی اور اس بار مرڈو بھائی بھی اس میں شامل ہو گئے۔ لیکن وہ جیت نہیں سکے۔
جنگ کے اختتام پرمروڈو بھائیوں کو تروپتر قلعے کی اونچی دیوار پر لٹکا دیا گیا۔ اومیتھورائی اور اس کے بھائی (سبپا نائک) کو پنچلانکوریچی لایا گیا اور قلعہ کے قریب ایک چھوٹی پہاڑی پر لٹکا دیا گیا۔
اور کیمپ کی بغاوت کو ختم کر دیا گیا۔ پنجلانکورچی کا قلعہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا تاکہ اس کا کوئی نشان نہ رہے۔
مصنف وی مانیکم کا کہنا ہے کہ ’یہاں اب صرف برطانوی فوجیوں اور افسروں کی قبریں ہیں جو 10 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کی گواہی ہیں۔‘
ٹیپو سلطان، متعصب جہادی یا روادار حکمران؟ٹیپو سلطان: جب میر صادق اور فوج کی غداری کی مدد سے انگریزوں نے سرنگاپٹنم فتح کیاانگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟برطانوی راج: ’افیون کی تجارت نے انڈینز کو نقصان پہنچایا‘فورٹ ولیم کالج: انگریزوں کا قائم کیا گیا وہ تعلیمی ادارہ جس نے برصغیر کی تقدیر بدل دیایسٹ انڈیا کمپنی جس نے ایک خطے پر راج کیا