جشنِ ریختہ: اردو کا یہ ادبی میلہ کیا اب محض کمائی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 16, 2024

ملے جُلے تاثرات لیے اردو ادب سے گہری محبت اور لگاؤ رکھنے والوں کا میلہ ’جشنِ ریختہ‘ تین دن کے بعد دلی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس مرتبہ جشنِ ریختہ سے متعلق لوگوں کو ایک جانب تو اس میں بطور مہمان اور اردو ادب پر بات کرنے والوں کی شمولیت پر اعتراض تھا تو کُچھ اس بات پر نالاں تھے کہ انھیں اس ادبی میلے کا ٹکٹ نہیں ملا اور وہ اس میں شامل نہیں ہو سکے۔

انڈیا کے شہر دلی میں جشنِ ریختہ اردو ادب کا ایک ایسا میلہ ہے کہ جو اب وقت کے ساتھ ساتھ ادبی کلینڈر کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔

جشنِ ریختہ کا ذکر ہو تو اکثر یہی خیال آتا ہے کہ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیبات ہو گی۔ سالہا سال سے مشاعرے، قوالی اور اردو ادب کے بڑے ناموں سے سجا یہ میلہ کتابوں سے شوق رکھنے والوں اور پڑھنے پڑھانے والوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔

اس کے منتظمین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اردو ادب سے عشق کرنے والے لوگوں کو ہر سال نا صرف جمع کیا جائے بلکہ اس زبان کے گُلدستے کو تر و تازہ رکھا جائے۔

دلی میں رہنے والے اس ادبی میلے میں شامل ہونے کے لیے اس کے انعقاد کا طویل انتظار کرتے ہیں مگر اب وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں روز افزوں اضافے کے بعد معاملہ جشنِ ریختہ میں آنے والوں کے لیے قدر مُشکل سا ہو گیا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ اب اردو ادب کے اس میلے میں جانے اور اس کا حصہ بننے کے لیے ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں اور بسا اوقات تو اس کا حصول نامُمکن ہو جاتا ہے۔

انتظار حسین: ہندوستانی تہذیب کا نوحہ خواں جو یادوں کی بوریاں اٹھائے پاکستان آیا تھا’جتنے برس ابا زندہ رہے وہ صرف میری والدہ کی وجہ سے رہے‘محمد حنیف کا کالم: منٹو سالگرہ مبارک، موت مبارکاردو زبان کے سفیر ممتاز دانشور گوپی چند نارنگ چل بسے

دلی سے تعلق رکھنے والی مریم بھی انہی میں سے ایک ہیں جو اب جشنِ ریختہ کی ویڈیوز اب اپنے موبائل پر دیکھنے پر مجبور ہیں۔

مریم اپنے موبائل پر جشنِ ریختہ کے موقع پرانڈین اداکار علی فضل کی گفتگو سُن رہی تھیں۔ اور علی فضل اُردو سے اپنی محبت کا قصہ سُنا رہے تھے۔

جشنِ ریختہ کی ساری کی ساری ٹکٹیں ایونٹ کے شروع ہونے سے ایک ہفتے قبل ہی فروخت ہو چُکی تھیں جس کی وجہ سے وہ اس میلے میں اردو سے بے انتہا محبت اور لگاؤ کے باوجود نہیں جا پائیں۔

ایک جانب تو اس میلے کے لیے ٹکٹوں کا دستیاب نا ہونا ہے اور دوسری جانب مریم کے مطابق جشنِ ریختہ کی ٹکٹ اس قدر مہنگی ہو گئی ہیں کہ اب ہر کوئی انھیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔

جشنِ ریختہ کا ٹکٹ ملنے پر اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنے والوں میں سے ایک روح بخشی بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے آبائی گھر کشمیر جانے کا منصوبہ اس ایونٹ کے لیے موخر کیا مگر کسی وجہ سے وہ جشنِ ریختہ کا حصہ نہ بن سکے۔

تاہم روح بخشی کہتے ہیں کہ ’اچھا ہی ہوا کہ میں نہیں گیا کیونکہ سوشل میڈیا کی مدد سے یہ پتا چلا کہ ٹکٹوں کی قیمت میں اضافہ بڑی جگہ کی وجہ سے کیا گیا مگر اس کے باوجود لوگوں کو بیٹھنے تک کی جگہ نہیں ملی۔‘

روح اردو زبان سے لگاؤ رکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’اس ادبی میلے کو کمرشلائیز کرنا اردو زبان کی توہین ہے۔‘

روح کی طرح ایمن آسمانی جن کا تعلق انڈیا کی ریاست اُترپردیش کے معروف علاقے بریلی سے ہے، نے بھی جشنِ ریختہ کی انتظامیہ سے شکوہ کیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’کیا آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اردو ادب اور شاعری سے متعلق بات کرنے کے لیے ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بجائے بالی وڈ کے اداکاروں کو مدعو کیا گیا ہو، تو کیا آپ ایسا کر کے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں؟‘

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے اعتراضات اور عوامی ردِ عمل سے متعلق جب بی بی سی نے جشنِ ریختہ کی پی آر ٹیم سے بات کی تو ہیڈ آف پروگرام ریختہ فائنڈیشن ستیش گپتا کا کہنا تھا کہ ٹکٹ کی قیمت سے متعلق طویل بحث کے بعد اس میں اضافہ کیا گیا کیونکہ اس بار نئی جگہ بہت بڑی تھی جس کا کرایہ بھی بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے گذشتہ سالوں کی نسبت اس مرتبہ ٹکٹ کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا۔‘

تاہم اس میں شامل ہونے والے لوگوں سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’جشنِ ریختہ میں جن بھی لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں اردو ادب سے مُنسلک ہوتے ہیں۔ جیسے کہ اگر بالی وڈ ایکٹر علی فضل کی بات کی جائے تو اُن کی اردو زبان سے محبت ہی انھیں اس میں بلانے کی ایک وجہ ہے نہ کہ یہ وجہ کہ وہ ایک ایکٹر ہیں۔‘

تاہم اس سب تنقید کے باوجود جشنِ ریختہ کا حصہ بننے والے ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے جو اس سب کے باوجود اس کے انعقاد کو انتظامیہ کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔

گورو جوشی ایک فلم ساز اور دلی کے باسی ہیں۔ وہ ہر سال جشنِ ریختہ میں شامل ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اردو سے انھیں عشق ہے۔ ’میں نے نہ کبھی اردو پڑھی ہے اور نہ ہی کبھی لکھی ہے، مگر اس سب کے باوجود مُجھے اس زبان میں ایک عجیب سے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔‘

گورو جوشی کہتے ہیں کہ ’اردو زبان کا ہونا ہی ایک جشن کی بات ہے تو جشنِ ریختہ پورا سال بھی چلے تو کوئی اعتراز نہیں۔‘

جشنِ ریختہ میں شامل ہونے والے چند لوگوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ جیسے پہلے پاکستان سے اردو ادب کے بڑے نام اس میلے میں شامل ہوتے تھے اس مرتبہ پھر ایسا ہونا چاہیے تھا۔

’جو لوگ بھی اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں وہ ہمارے محسن ہیں‘

پاکستان میں اردو شاعری اور ادب کے ایک بڑے نام رانا سعید دوشی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شکوہ اپنوں سے ہی ہوتا ہے۔ اردو سے محبت کرنے والے کہیں بھی بیٹھ جائیں پاکستان ہو یا انڈیا خدمت تو وہ اردو کی ہی کر رہے ہیں۔‘

پاکستان سے اب اس میلے میں لوگوں کو شمولیت کی لیے کیوں نہیں بلایا جاتا کے سوال کے جواب میں رانا سعید دوشی کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے ہی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ انھوں نے کسے اس میلے میں مدعو کرنا ہے اور کسے نہیں، تو ایسے میں جو بھی لوگ وہاں اس میلے میں شامل ہوئے ہیں وہ اردو ادب کی کسی نا کسی رنگ میں خدمت ہی کر رہے ہیں اور وہ پاکستان سے اس میلے میں شامل نہ ہونے والوں کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں، اس میں شکوے کی کوئی بات نہیں، بس اس طرح کے پروگرامز کا ہوتے رہنا ضروری ہے۔‘

شاعر رانا سعید دوشی کا کہنا ہے ’میں اب تک جشنِ ریختہ میں تو شامل نہیں ہوسکا مگر انڈیا میں دیگر بہت سی کانفرنسز اور ادبی میلوں میں جا چُکا ہوں۔ ایسے میں وہاں (انڈیا) میں اردو ادب کے لیے جتنا بھی کام ہو رہا ہے وہ بہت اچھا ہو رہا ہے اور میں اُس پر وہاں کی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘

رانا سعید دوشی سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستان میں اور انڈیا میں ہونے والے ایسے پروگرامز میں کیا فرق ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’جس طرح سے انڈیا میں اردو ادب سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور جو عزت وہاں اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کو بخشی جاتی ہے اُس کا فقدان ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔‘

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’اردو شاعری اور غزل میں ہمارے پاکستان کے لکھاری انڈیا سے کچھ قدم آگے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے شاعروں کے پاس عربی اور فارسی دو ایسی زبانیں ہیں کہ جو ہماری شاعری کو امتیاز بخشتی ہیں۔‘

رانا سعید دوشی کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ بھی اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں وہ ہمارے محسن ہیں۔‘

جشنِ ریختہ کیا ہے؟

جشنِ ریختہ ایک ایسا میلہ ہے کہ جس میں تین روز تک اردو ادب کے مختلف اسلوب سے متعلق بات ہوتی ہے۔ اس میلے میں غزل، قوالی، نثر اور دیگر اصناف سخن سے متعلق شرکا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جشنِ ریختہ نے پیوش مشرا، کیلاش کھیر، پاپون، ریکھا اور وشال بھردواج، استاد شجاعت خان، صابری برادران، جاوید علی، اور سوانند کرکرے جیسے فنکاروں اور وسیم بریلوی، راحت اندوری، اشوک چکردھر جیسے شاعروں کو نمایاں طور پر مدعو کیا ہے۔ تاہم جاوید اختر، فرحت احساس اور کمار وشواس جیسے بڑے ناموں نے بھی اس میں آکر رونق بخشی۔

ولیم ڈیلرمپل، محمود فاروقی، نوتیج سرنا، نجیب جنگ، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمان فاروقی، رانا صفوی، خالد جاوید کے علاوہ نصیر الدین شاہ، رتنا پاٹھک شاہ، شبانہ اعظمی جیسی مشہور شخصیات بھی اس میلے میں شریک ہو چکی ہیں۔

اس مرتبہ اس ایونٹ کا انعقاد جواہر لعل نہرو سٹیڈیم میں ہوا۔

ریختہ کیا ہے؟

ریختہ ایک انڈین ویب پورٹل ہے جو ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو ادب کے تحفظ اور فروغ کے لیے شروع کیا ہے۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ ریختہ لائبریری پروجیکٹ، اس کی کتابوں کے تحفظ کے اقدام نے دس سالوں کے دوران تقریباً 200,000 کتابوں کو کامیابی سے ڈیجیٹائز کیا ہے۔

یہ کتابیں بنیادی طور پر اردو، ہندی اور فارسی ادب پر مشتمل ہیں۔ ان میں بشمول شاعروں کی سوانح عمری، اردو شاعری، افسانہ، اور نان فکشن شامل ہیں۔ یہ مجموعہ برصغیر ہند کی عوامی اور تحقیقی لائبریریوں سے نکلتا ہے۔ یہ متعدد سکرپٹ جیسے دیوناگری، رومن اور بنیادی طور پر نستعلیق میں پیش کرتا ہے۔

اس ویب پورٹل پر صدیوں پہلے کی کتابیں بھی موجود ہیں اور اردو ادب کے تحفظ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ کے طور پر اسے پہچانا جاتا ہے۔ اس سائٹ نے 32 ملین صفحات پر مشتمل 200,000 سے زیادہ ای کتابوں کو ڈیجیٹائز کیا ہے، جن کو واضح طور پر مختلف حصوں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔

وہ کتابیں جنھیں پڑھنا ’نہایت خطرناک‘ ہو سکتا ہےمولانا رومی: ’مستقبل کے شاعر‘ جن کا موازنہ دیوتاؤں اور مقدس شخصیات سے کیا گیابالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی ’جادو‘ سے جاوید اختر بننے کی کہانیانتظار حسین: ہندوستانی تہذیب کا نوحہ خواں جو یادوں کی بوریاں اٹھائے پاکستان آیا تھا’جتنے برس ابا زندہ رہے وہ صرف میری والدہ کی وجہ سے رہے‘محمد حنیف کا کالم: منٹو سالگرہ مبارک، موت مبارک
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More