Reutersپاکستان کے خلاف اپنے آخری ون ڈے میں جنوبی افریقہ نے انڈیا کے کھیلے گئے ورلڈ کپ کے دوران ایک وکٹ سے فتح حاصل کی تھی
ون ڈے کرکٹ میں ایسے فاتحانہ خمار کم کم ہی پاکستان کے حصے آتے ہیں جو محمد رضوان کی موجودہ ٹیم کو نصیب ہوا ہے۔ اس ٹیم نے ون ڈے کرکٹ کے چھ بار ورلڈ چیمپیئن ٹھہرنے والے آسٹریلیا کو اس کے گھر میں ہرایا ہے۔
گو، ایسے دشوار گزار دوروں پر پاکستان سے بہترین امید یہی رہتی ہے کہ وہ کیسے بھی، کوئی ایک میچ ہی جیت کر مکمل خفت سے تو بچ جائیں مگر ان کنڈیشنز میں پوری قوت سے اترے آسٹریلیا کو ڈھیر کر دینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں جو رضوان کی اس ٹیم نے کر دکھایا ہے۔
لیکن یہ تاریخی فتح بھی، پی سی بی کی بوالعجبیوں کے طفیل، آف فیلڈ ناخوشگواری سے محفوظ نہیں رہی کہ اس سیریز کے عین پہلے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کے استعفے نے غیر یقینی کی فضا پیدا کی اور پھر جیسن گلیسپی کے عبوری کردار پر بھی افواہوں اور قیاس آرائیوں کی چادر تنی رہی۔
آج سے پارل میں، جنوبی افریقہ کے خلاف شروع ہونے والی تین ون ڈے میچز کی دو طرفہ سیریز کا سیاق و سباق بھی بدمزگی سے خالی نہیں کہ اب تو جیسن گلیسپی کے استعفیٰ کے بعد، ڈریسنگ روم سے بے یقینی کی فضا چَھٹنے کی کوئی امید بھی چَھٹ چکی ہو گی۔
پچھلے دو برس میں جو انتظامی اتار چڑھاؤ اس ڈریسنگ روم نے بھگتا ہے، اس کے بعد تو شاید اب مزید حیرت کی سکت بھی باقی نہ رہی ہو گی اور ’بدلاؤ ہی واحد مستقل‘ تسلیم کر لیا گیا ہو گا۔
EPAاس ٹیم نے ون ڈے کرکٹ کے چھ بار ورلڈ چیمپیئن ٹھہرنے والے آسٹریلیا کو اس کے گھر میں ہرایا ہے
بطور کپتان محمد رضوان کے لیے ہر سیریز ایک نیا چیلنج ہے کہ وہ چیمپیئنز ٹرافی تک متعین اپنے عہدے کی توسیع کے لیے جدوجہد کرتے جائیں۔ ان کی طرح کوچ عاقب جاوید کا مستقبل بھی صرف نتائج سے جڑا ہے کہ ان کا عبوری عہدہ بھی فقط چیمپیئنز ٹرافی تک ہی بتلایا گیا ہے۔
جس بدقسمت چیمپیئنز ٹرافی کی تقدیر ابھی لٹکی ہوئی ہے، اس سے پہلے یہ دونوں ٹیموں کی آخری دو طرفہ ون ڈے سیریز ہے۔ اگرچہ چیمپیئنز ٹرافی سے عین پہلے جنوبی افریقہ پاکستان کی میزبانی میں نیوزی لینڈ کے ہمراہ ٹرائی سیریز کا حصہ ہو گا مگر تب اسے بھی اپنے فرنچائز ٹورنامنٹ ’ایس اے 20‘ کے سبب اپنی بہترین الیون دستیاب نہ ہو گی۔
چنانچہ دونوں ٹیموں کو یہ حتمی موقع ہے کہ وہ اگلے برس کے آئی سی سی ٹورنامنٹ کے لیے اپنی بہترین الیون کا جوڑ آزما سکیں۔
کانپتے ہاتھ اور لڑکھڑاتی آواز والے ونود کامبلی اور ان کے بچپن کے دوست سچن تندولکر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیوں؟سفیان مقیم کی 16 گیندیں اور ’نئے پاکستان‘ کی پہلی جیتکروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟وہ تین کرکٹرز جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے کھیلے
فاسٹ بولنگ ذخائر میں ہمیشہ جنوبی افریقہ ایک زرخیز کلچر کا حامل رہا ہے مگر حالیہ مہینوں میں اس کی مشکلات بڑھی ہیں کہ لنگی نگدی، جیرلڈ کوئٹزیہ، وائن ملڈر اور نیندرے برگر کے بعد اب اینرک ںورکیہ بھی انجری کے باعث دستیاب نہیں۔ مگر کگیسو ربادا اور مارکس یئنسن کے ساتھ اوٹنیل بارٹمین اور کوینا مپھاکا جیسے دستیاب وسائل بھی پاکستانی بلے بازوں کو سخت چیلنج ہوں گے۔
عالمی کرکٹ کیلنڈر کی یہ سہ ماہی ہمیشہ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے وقف رہتی ہے اور ابھی بھی اصل معرکہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل تک رسائی کا ہے جہاں جنوبی افریقہ اس دوڑ میں اپنی ٹاپ پوزیشن برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ جبھی پہلے میچ میں ٹیمبا باوومہ قیادت کو دستیاب نہ ہوں گے۔
Getty Imagesضروری ہو گا کہ اب محمد رضوان اپنی پلاننگ میں کوئی سرپرائز فیکٹر لائیں
ان کے نائب ایڈن مارکرم جنوبی افریقہ کی قیادت کریں گے۔ باوومہ کے مطابق، یہ فیصلہ ورک لوڈ مینیجمنٹ اور باکسنگ ڈے سے شروع ہوتی پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی مکمل توجہ چیمپئینز ٹرافی کے دفاع کے لیے فقط ون ڈے کرکٹ پر مرکوز ہے اور اسے دستیاب سکواڈ میں وہ تمام وسائل موجود ہیں جو جنوبی افریقہ کی مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
لیکن یہ امکان بجا لانے کو ضروری ہو گا کہ اب محمد رضوان اپنی پلاننگ میں کوئی سرپرائز فیکٹر لائیں۔
10 وکٹیں حاصل کرنے کو جو گہرا کرکٹنگ فہم ایک کپتان سے درکار ہوتا ہے، وہ رضوان میں بخوبی موجود ہے۔ مگر بسا اوقات ان کے پلان اس قدر واضح، متواتر اور مسلسل ہو جاتے ہیں کہ حریف کے لیے کوئی بھی چال حیرت کا باعث نہیں رہتی۔
جیسے آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز میں شارٹ پچ کا پلان بے اثر ہوا، جیسے زمبابوے کے خلاف پہلے ون ڈے میں پیس کی تاثیر زائل ہوئی، جیسے تین راتیں پہلے سینچورین میں سلو ڈیلیوری غیر موثر ٹھہری، وہ اسباق یقیناً اس تھنک ٹینک کو یاد ہو چکے ہوں گے۔
پارل میں پاکستان کے پلان ایسے سادہ اور سیدھے نہیں ہونا چاہییں کہ اپنا اثر ہی کھو بیٹھیں۔ چار پیسرز کے ہمراہ 40 اوورز میں 10 وکٹیں اڑانے کی آزمودہ حکمتِ عملی تو شاید پاکستان ترک نہیں کرنا چاہے گا مگر اہم یہ فیصلہ ہو گا کہ اس پچ پر پانچویں بولر کی جگہ کسی باقاعدہ سپنر کو ملتی ہے یا سلمان آغا پر ہی اعتماد برقرار رکھا جاتا ہے۔
پارل کی یہ پچ پاکستانی ٹیم سلیکشن کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو سکتی ہے کہ یہاں سپیشلسٹ سپنر کے بغیر کھیلنا دلیری سے آگے کی ہی کوئی شے کہلائے گی۔
کانپتے ہاتھ اور لڑکھڑاتی آواز والے ونود کامبلی اور ان کے بچپن کے دوست سچن تندولکر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیوں؟کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟سفیان مقیم کی 16 گیندیں اور ’نئے پاکستان‘ کی پہلی جیتجب انڈیا کی پہلی خاتون پہلوان حمیدہ بانو نے کہا ’مجھے دنگل میں ہرانے والا مجھ سے شادی کر سکتا ہے‘دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایا