عروسہ اعظم کا تعلیمی سفر محنت اور عزم و حوصلے کی ایک منفرد داستان ہے۔ یہ وہ لڑکی ہے جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی، اور بالآخر سپیشل سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہو کر اپنی منزل کے قریب پہنچ گئی۔عروسہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی رہائشی ہیں۔ وہ ایک مسیحی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے والد رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے کے علاوہ علم و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ عروسہ کا تعلیمی سفر سینٹ پیٹرز اینڈ پال سکول سے شروع ہوا تھا، جہاں سے انہوں نے پری پرائمری کرنے کے بعد سینٹ پیٹرک سکول کراچی میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے سینٹ جوزف کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد این ای ڈی یونیورسٹی سے الیکٹرانکس میں انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی، لیکن ان کا خواب کچھ اور تھا۔ اور وہ ہمیشہ سے دفتر خارجہ میں خدمات انجام دینے کی خواہش رکھتی تھیں۔
عروسہ کی کامیابی کی وجہ اُن کی مستقل مزاجی، محبت اور عزم و حوصلہ ہے۔ یہ ان کی چوتھی کوشش تھی، جب انہوں نے سی ایس ایس کا تحریری امتحان کامیابی سے پاس کیا۔ اس سے قبل تین کوششوں میں وہ ناکام ہو چکی تھیں، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ تیسری کوشش کے دوران وہ صرف ایک پرچے میں فیل ہوئی تھیں، اور ان کی امیدیں بظاہر ٹوٹ چکی تھیں، مگر ان کے دل میں ایک عزم تھا کہ وہ دوبارہ کوشش کریں گی۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں جب تیسری بار سی ایس ایس کے امتحانات میں ناکام ہوئی تو مجھے مایوسی کی بجائے بھروسہ، ہمت، طاقت اور یقین حاصل ہوا۔‘حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے لیے سپیشل سی ایس ایس امتحان منعقد کرنے کے فیصلے نے انہیں ایک نئی امید دی کہ شاید یہ موقع ان کے لیے ہی ہو۔ چوتھی کوشش میں عروسہ نے وہ کامیابی حاصل کر لی، جس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کے سات سال وقف کیے تھے۔عروسہ کا یہ سفر صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں ہے بلکہ ان کے خاندان کی حمایت اور ان کے نانا کی کہانیوں کا بھی اثر تھا۔وہ اپنی والدہ سمیہ معراج کے ساتھ بچپن میں اکثر اپنے نانا کے گاؤں مارٹن پور جایا کرتی تھیں، جہاں ان کے نانا نے مارٹن سیمویئل برق کا ذکر کیا، جو پاکستان کے مشہور سفارت کار اور خارجہ پالیسی کے معمار تھے۔ ان کی زندگی نے عروسہ کو ایک سفیر بننے کی تحریک دی اور انہیں خارجہ امور کے شعبے میں اپنی خدمات پیش کرنے کا عزم دیا۔عروسہ اعظم کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہر ناکامی کے بعد ایک نئی کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)عروسہ آج کل این ای ڈی یونیورسٹی میں سائبر سکیورٹی لیب میں ایسوسی ایٹ انجینیئر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ان کی اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ اگر پرعزم ہوں اور محنت اور لگن سے کام کریں تو آپ کسی بھی چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ سپیشل سی ایس ایس امتحان میں کامیاب ہونے والے 11 اقلیتی امیدواروں میں عروسہ واحد مسیحی ہیں جو کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ امتحان 104 آسامیوں کے لیے لیا گیا تھا۔عروسہ اعظم کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہر ناکامی کے بعد ایک نئی کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ ان کی جدوجہد اور کامیابی نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کی کمیونٹی اور پورے ملک کے لیے ایک مثال بن گئی ہے۔