Getty Images
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست رفتار، وی پی این رجسٹریشن اور سوشل میڈیا تک رسائی میں وقتاً فوقتاً دشواری کی شکایات کے پیش منظر میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ کی طرف سے ’ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2024‘ نامی بِل پیش کیا گیا ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ اس قانون کے ذریعے پاکستان کو ایک ’ڈیجیٹل قوم‘ بنایا جائے گا اور اس سے گورننس کو ’ڈیجیٹلائز‘ کرنے میں مدد ملے گی۔
اگرچہ اس بِل پر غور و فکر کے لیے اسے متعلقہ کمیٹی بھیجا گیا ہے تاہم حکومت اس کے ذریعے دو نئے ادارے نیشنل ڈیجیٹل کمیشن اور پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی قائم کرنا چاہتی ہے۔
ادھر قومی اسمبلی میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف عمر ایوب اس بِل سے بالکل مطمئن نظر نہیں آئے اور انھوں نے کہا کہ ’ہم ڈیجیٹل بننے کی بجائے اپنے آپ کو شمالی کوریا کی طرز پر ڈھالنا چاہ رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں گذشتہ مہینوں کے دوران کئی صارفین نے انٹرنیٹ کی رفتار میں سست روی اور قومی سلامتی کی بنیاد پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پابندی پر ناراضی ظاہر کی ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت نے فری لانسرز اور کاروباری افراد کو وی پی این رجسٹریشن کی ہدایت کر رکھی ہے۔
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے سربراہ سجاد مصطفیٰ سید نے کہا تھا کہ حکام ملک میں وی پی این پر پابندی اس لیے عائد نہیں کر سکتے کیونکہ اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش پورے سیکٹر کے لیے لاکھوں ڈالر نقصان اور آئی ٹی سیکٹر میں اعتماد کے فقدان کا باعث بنتی ہے۔
’ڈیجیٹل نیشن‘ بل میں کیا ہے اور ملک میں انٹرنیٹ سست کیوں؟
وفاقی حکومت کے مطابق ’ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024‘ کے تحت دو نئے ادارے قائم ہوں گے جن کی مدد سے ملک کے مختلف شعبوں کو آپس میں جوڑ کر سرکاری امور کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا۔
بل کے مسودے کے مطابق وفاقی سطح پر نیشنل ڈیجیٹل کمیشن (این ڈی سی) کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کی سربراہی وزیر اعظم پاکستان کریں گے اور تمام صوبائی وزرا اعلیٰ اور نادرا اور پی ٹی اے جیسے بڑے سرکاری اداروں سے نمائندگان شامل ہوں گے۔
ڈیجیٹل کمیشن کے ذمہ قومی ڈیجیٹل ماسٹر پلان اور اس پر عمل درآمد کی منظوری ہو گی۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے ’معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے‘ اور ’ای گورننس کو فروغ دینے‘ کے لیے جون میں اس بل کی منظوری دی تھی۔
بل کے مطابق پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی (پی ڈی اے) کے نام سے ایک دوسرا ادارہ بھی تشکیل دیا جائے گا اور چھ رکنی اتھارٹی کے چیئرمین کی نامزدگی وزیر اعظم کریں گے۔
دونوں اداروں کی مالی ضروریات کو ڈیجیٹل نیشن فنڈ کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
شزہ فاطمہ خواجہ نے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے سے قبل پیر کو اسلام آباد میں نیشنل براڈ بینڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آنے والے سالوں میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار بہتر ہوگی اور ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری آئے گی۔‘
دوسری طرف قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اعتراض اٹھایا کہ ’پاکستان میں وی پی این نہیں چل رہا، ٹیلی کمیونیکیشن کی بیک بون متاثر ہو رہی ہے۔‘
’لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ لوگ ری لوکیٹ کر رہے ہیں لیکن ہم ڈیجیٹل بننے کی بجائے اپنے آپ کو شمالی کوریا کی طرز پر ڈھالنا چاہ رہے ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انٹرنیٹ کی رفتار اس لیے سست کی گئی ہے کیونکہ ’سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اور عمران خان کا بول بالا ہے۔‘
تاہم وزیر مملکت شزہ فاطمہ نے اسلام آباد میں نیشنل براڈ بینڈ نیٹ ورک فورم کی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ ’پاکستان کو سائبر سکیورٹی کے چیلنجز درپیش ہیں، روزانہ کی بنیاد پر سائبر حملے ہوتے ہیں۔ سائبر سکیورٹی اور ڈیٹا پروٹیکشن کی ذمہ داری بھی ہماری ہے، اس پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔‘
Getty Images’ڈیجیٹل قوم‘ بننے پر اعتراضات اور ’انٹرنیٹ کی رفتار مزید کم ہونے‘ کا خدشہ
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن‘ کی ایگزيکٹِو ڈائریکٹر نگہت داد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کو ڈیجیٹل قوم میں تبدیل کرنے کی کوشش کی بنیاد شفافیت، جوابدہی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر ہونی چاہیے۔
ان کے مطابق ڈیٹا پروٹیکشن کے جامع قانون اور مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کے بغیر ایک یونیفائیڈ ڈیجیٹل شناخت اور مرکزی ڈیٹا سسٹمز کا قیام انتہائی تشویشناک ہے۔
نگہت داد نے اعتراض اٹھایا کہ اس قانون سازی کے لیے مشاورت نہیں کی گئی اور اس سے ’قانون کے غلط استعمال، کچھ شہریوں یا برادریوں کے ہدف بننے اور معاشرے میں عدم مساوات کے بڑھنے جیسے خطرات ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین کا مقصد ’شہریوں کو بااختیار بنانا ہونا چاہیے، نہ کہ ان پر مزید کنٹرول حاصل کرنا۔‘
واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ بل میں یہ یقین دہانی اس حد کرائی گئی ہے کہ شہری آزادیوں کو اس قانون پر ترجیح حاصل ہو گی اور شہریوں کے ڈیٹا کا تحفظ ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم تنازع کی صورت میں بھی اس قانون کے تحت بننے والے ادارے ہی حتمی فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں گے اس میں کسی اور فورم کو ثالث کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
قومی سلامتی کو خطرہ یا پی ٹی آئی کا بیانیہ، پاکستانی حکومت نے ایکس پر پابندی کیوں لگائی؟’پاکستان شمالی کوریائی ماڈل اپنا لے تو مسئلہ ہی نپٹ جائے‘پاکستان میں ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی متاثر: ’اب تو وی پی این تبدیل کر کے بھی کچھ نہیں ہو رہا‘’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کیا ہے اور پاکستان فوج کی جانب سے یہ اصطلاح کیوں استعمال کی جاتی ہے؟
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ سے منسلک فریحہ عزیز نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس وقت ملک میں صارفین ’انٹرنیٹ کی متواتر اور غیر اعلانیہ رکاوٹوں، سست روی، پابندی، فلٹرنگ اور مانیٹرنگ سسٹم کی تنصیب، وی پی این بلاکس اور رجسٹریشن نظام جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
وہ سوال کرتی ہیں کہ ’ڈیجیٹل سرگرمیوں پر فوجداری مقدمات قائم کرنے سے ہم کون سی ڈیجیٹل قوم بننے جا رہے ہیں؟‘
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ بظاہر اس ’ڈیجیٹل ماسٹر پلان‘ سے انٹرنیٹ کی رفتار مزید کم ہو گی، وی پی این رجسٹریشن کے لیے مزید سختی کی جائے گی اور مانیٹرنگ بڑھے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کا قیام ’قومی خزانے پر بوجھہو گا۔‘
’ابھی تک شہریوں کے حساس ڈیٹا کے تحفظ کے لیے کوئی قانون نہیں‘
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے محقق اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی قانون نہیں ہے۔ اس لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ڈیٹا کو کیسے شیئر کیا جائے اور اسے کیسے محفوظ بنایا جائے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ سائبر حملوں سے ’نادرا کا ڈیٹا بیس بھی کئی بار ہیک ہو چکا ہے۔۔۔ (پاکستان میں) ڈیٹا لیک ہو جانا انتہائی آسان ہے۔ لہٰذا شہریوں کے پاس اپنے ذاتی اور حساس ڈیٹا کے غلط استعمال یا غفلت کی صورت میں ازالے کے لیے قانونی چارہ جوئی سمیت دیگر راستے ہونے چاہییں۔‘
’جب انٹرنیٹ سست، اکثر بند، اور خراب معیار کا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شہری اپنی ڈیجیٹل آئی ڈی تک کئی بار رسائی نہیں کر پائیں گے اور ریاست کسی بھی وقت انٹرنیٹ کو بند کر کے اسے معطل کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ لہٰذا پالیسی کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ جامع بنانے کی ضرورت ہے۔‘
Getty Images
انھیں یہ خدشہ ہے کہ شہریوں کی ڈیجیٹل شناخت کے ذریعے ان پر نگرانی بڑھ سکتی ہے، اس لیے رازداری کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے اسد بیگ کا کہنا ہے کہ ’جس طرح یہ قانون سازی رازداری سے کی جا رہی ہے، اس سے زیادہ تحفظات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اس بل پر پہلے بحث نہیں ہوئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کو جلدی میں اب مظور نہیں کروایا جائے گا اور پارلیمنٹ میں اس پر سیر حاصل بحث ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’اگر یہ بحث نہ ہوئی تو پھر اس قانون کی وجہ سے مسائل سر اٹھائیں گے۔‘
پاکستان میں ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی متاثر: ’اب تو وی پی این تبدیل کر کے بھی کچھ نہیں ہو رہا‘’وی پی این ختم تو فحاشی اور دہشت گردی ختم‘واٹس ایپ: اربوں صارفین کے لیے مفت سروس کی اربوں ڈالر آمدن کا رازپاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل سے فری لانسرز پریشان: ’ہمارا تو نقصان ہے ہی لیکن اصل نقصان حکومت کا ہے‘’ابھی تو مسئلہ شروع ہوا ہے، آگے دیکھو کیا ہوتا ہے‘: پاکستان میں صارفین کو سست انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش سے کاروبار زندگی متاثر: ’سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں ڈال سکے تو آرڈر بھی نہیں ملے‘