سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام سے قبل ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان) سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات پر ہی حکومت پاکستان کا سخت کنٹرول تھا اور تمام اخبارات کڑی سینسرشپ کے زیر اثر شائع ہوتے تھے۔
اس زمانے میں ’میڈیا کی آزادی‘ کوئی ایسی عام اصطلاح نہیں تھی۔ چنانچہ اُس وقت کی حکومت کے جاری کردہ بیانات کے علاوہ زیادہ تر وہی خبریں اخباروں میں دکھائی دیتی تھیں کہ جنھیں حکومتِ وقت کی جانب سے اشاعت کیمنظوری ملتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ڈھاکہ سے شائع ہونے والی اخباروں میں بنگلہ دیش میں علیحدگی کی تحریک کے حامیوں یعنی مکتی باہنی کی پاکستانی فوج کے ساتھ لڑائی کے بارے میں کوئی خاص خبر شائع نہیں ہوئی۔ اگر اس دور کے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپریل سے دسمبر 1971 کے دوران سابقہ مشرقی پاکستان میں اس لڑائی اور کشیدگی سے متعلق خبروں کو ڈھاکہ کے اخبارات میں کوئی کوریج نہیں مل رہی تھی۔
لیکن 16 دسمبر کو پاکستانی فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بعد ڈھاکہ کے پابندیوں کے شکار وہی اخبارات ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔
یہاں تک کہ کئی اخبارات نے اپنے نام ہی بدلے ڈالے۔ خاص طور پر وہ اخبارات جن کے نام میں لفظ ’پاکستان‘ تھا انھیں تبدیل کیا گیا اور اس کی جگہ ’بنگلہ دیش‘ لکھ دیا گیا۔
راتوں رات ’دینک پاکستان‘ نامی اخبار کا نام ’دینک بنگلہ‘ ہو گیا اور ’پاکستان آبزرور‘ کا نام بدل کر ’بنگلہ دیش آبزرور‘ رکھ دیا گیا۔
بنگلہ دیش کے ’آزاد‘ ہونے کی خبر ڈھاکہ کے اخبارات میں سرِفہرست دکھائی دی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے اور بنگالیوں کی کامیابی اور آزادی کی خبریں تفصیل سے شائع کی گئیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نو ماہ کی طویل ’جنگِ آزادی‘ کے دوران ماضی میں ہونے والے قتل و غارت کی خبریں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔
بنگلہ دیش کی آزادی کی خبریں کیسے شائع ہوئیں؟
16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد اگلے ہی دن یعنی 17 دسمبر کو ڈھاکہ سے شائع ہونے والے اخبارات میں سب سے بڑی خبر پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے اور بنگلہ دیش کی آزادی کی تھی۔
17 دسمبر کو روزنامہ ’اتحاد‘ کے صفحہ اول پر بڑے اور جلی حروف میں یہ خبر کچھ اس طرح شائع ہوئی ’قابض پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، سونار بنگلہ آزاد ہو گیا۔‘ (یعنی سونے جیسا بنگلہ دیش آزاد ہو گیا)
اس خبر کے آغاز میں مکتی باہنی کی تعریف میں لکھا گیا کہ ’شاباش مکتی کے جنگجوؤں، 25 مارچ کی انتہائی خوفناک اور اندھیری رات کا خاتمہ ہو گیا۔‘ (25 مارچ 1971 میں پاکستانی فوج کے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کی ابتدا ہوئی تھی۔)
اس کے بعد پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تفصیلات دیتے ہوئے اخبار میں لکھا گیا کہ ’پاکستانی فوج نے کل جمعرات کو بنگلہ دیشی وقت کے مطابق شام پانچ بج کر ایک منٹ پر غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی آزاد اور خودمختار ریاست ’عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔‘
پاکستانی فوج کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ ’اس ملک کے دور افتادہ علاقوں کی سڑکیں، کھیت اور قصبے لاتعداد بے سہارا بچوں، مردوں اور عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔‘
’اتفاق‘ اخبار کی خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ اس عرصے میں پڑوسی ملک انڈیا نے بنگلہ دیش کے تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو اپنے ملک میں پناہ دی ہے۔
اتفاق نے لکھا تھا کہ ’مکتی باہنی کے جنگجوؤں اور مترا باہنی کے ساتھ صرف 12 دن کی لڑائی کے بعد، کل (یعنی 16 دسمبر) پاکستان کی مسلح افواج کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیا۔‘
ملک کی آزادی کی خبر اور اس کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو بھی یاد کیا گیا۔ اس لڑائی کے دوران مجیب الرحمان پاکستان کی ایک جیل میں قید تھے۔
خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد اس مُلک کے 7.5 کروڑ لوگ بے صبری سے شیخ مجیب الرحمان کی پاکستان کی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے مُتظر ہیں۔
تقریباً اسی طرح کی خبریں کئی دوسرے قومی اور مقامی اخبارات میں بھی شائع ہوئیں۔ چٹاگانگ سے شائع ہونے والے اس وقت کے روزنامہ ’دینک پاکستان‘ کی سُرخی تھی کہ ’جیے بنگلہ، بنگلہ دیش کی جئے۔‘
بنگلہ دیش کے آزاد ہونے کے بعد اس اخبار نے اپنے نام سے لفظ ’پاکستان‘ ہٹا کر اس کی جگہ ’بنگلہ دیش‘ رکھ لیا۔
اس دن اخبار کی شہ سرخی تھی ’جئے سنگرمی جنتر جئے، جئے بنگلر جئے‘ (کامیابی اور آزادی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کی ہے۔)
1971 کی جنگ کے دوران یحییٰ خان کی نور جہاں سے فون پر گانے کی فرمائش اور نجومی کی وہ پیشگوئی جو غلط ثابت ہوئیسنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے اہم واقعات مغربی پاکستان میں کیسے رپورٹ ہوئے؟’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیاآرمی چیف کے دفتر سے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوں
ڈھاکہ سے شائع ہونے والے ایک اور اخبار روزنامہ ’دینک آزاد‘ کی سرخی تھی: ’بنگالی جنگجوؤں کا خون اور ماؤں کے آنسو رائیگاں نہیں گئے، بنگلہ دیش بن چُکا ہے اور پابندیوں سے آزاد ہے۔‘
ان کی خبر تھی کہ ’جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ جس نے بہت سے ہیروز کو جنم دیا سب کی محنت رنگ لائی۔ یہ جنگِ آزادی لڑنے والے ساڑھے سات کروڑ جنگجوؤں کی بدولت مُلک کی فضاؤں پر چھائے سیاہ بادل چھٹ گئے ہیں اور بنگلہ دیش ایک نئی اور روشن صبح کی ماند دُنیا کے نقشے پر ابھرا ہے۔‘
’یہ ایک تاریخی لمحہ تھا‘AFP
کئی معاصر اخبارات میں مختلف خبریں شائع ہوئیں۔
ان میں سے روزنامہ اتحاد میں ایک شہ سُرخی تھی ’یہ ایک تاریخی لمحہ ہے،‘ اور اس میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’بنگلہ دیش اور انڈیا کی افواج کی مشترکہ کارروائی کی وجہ سے پاکستانی فوج کو 16 دسمبر سے پہلے بھی ایک کے بعد ایک محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔‘
’ہر محاذ پر محصور ہونے کے بعد مشرقی پاکستان میں فوج کے اس وقت کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے 15 دسمبر کی شام کو دہلی میں امریکی سفارتخانے کے ذریعے انڈین آرمی چیف جنرل سیم مانیک شا کو جنگ بندی کی تجویز بھیجی۔‘
’اس کے بعد مانیک شا نے 15 دسمبر کی شام سے 16 دسمبر کی صبح نو بجے تک فضائی حملے روکے اور اس دوران پاکستانی فوج کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا۔‘
اخبار میں تحریر تھا کہ ’جنرل نیازی کو دو ریڈیو فریکوئنسی دی گئی تھی تاکہ وہ کلکتہ سے رابطہ کر کے ہتھیار ڈالنے کی اطلاع دے سکیں۔ نیازی نے اسی ریڈیو فریکوئنسی کے ذریعے 16 دسمبر کو ہتھیار ڈالنے پر رضامندی ظاہر کی۔‘
’اس کے بعد انڈین فوج کے افسر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر بات چیت کے لیے 16 دسمبر کو سہ پہر تین بج کر 30 منٹ پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈھاکہ پہنچے۔‘ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مکتی باہنی کے گروپ کیپٹن اے کے کھونڈکر بھی ان کے ساتھ تھے۔
بعد ازاں شام پانچ بج کر ایک منٹ پر ڈھاکہ کے اس وقت کے ریس کورس گراؤنڈ (اب سہروردی گراؤنڈ) میں لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے غیر مشروط طور پر انڈیا اور بنگلہ دیش کی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اتحادی افواج اور مکتی باہنی نے ان کے ہتھیار اور گولہ بارود بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔
لوگوں میں آزادی کا جشنGetty Images16 دسمبر 1971 کو جب انڈین فوجی ڈھاکہ میں داخل ہوئے تو عام لوگوں نے ان کا استقبال کیا
17 دسمبر کے اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ 16 دسمبر کی شام بنگلہ دیش کے عوام نے ڈھاکہ اور ملک کے دیگر حصوں میں آزادی کا جشن منایا تھا۔
’روزنامہ اتفاق‘ نے اگلے ہی روز کے شمارے میں آزادی کے بعد ڈھاکہ کے ماحول کے بارے میں خبر کو درج ذیل سرخی دی ’ڈھاکہ کی سڑکوں پر خوشی سے بے حال ناچتے لوگ فتح کا جشن مناتے ہوئے: مکتی باہنی اور دوستا باہنی کو دلی مبارکباد۔‘
اس خبر میں کہا گیا کہ ’16 دسمبر 1971 کی شام کو لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی خبر ملتے ہی ہزاروں لوگ ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جس کے بعد پورا شہر آزادی کی خوشی میں شہر کی سڑکوں پر تھا۔‘
اتفاق نیوز میں لکھا گیا کہ ’نو ماہ کی طویل جنگ اور لڑائی کے بعد آزادی کی خبر ملتے ہی لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ڈھاکہ کا راج پتھ جھنڈوں، جلوسوں اور آزاد بنگلہ دیش کے نعروں سے گُونج اُٹھا۔‘
اس دن کے مناظر کے بارے میں ’روزنامہ اتفاق‘ نے اپنی خبر میں لکھا تھا کہ ’دارالحکومت کی سڑکوں پر ہجوم میں پائے جانے والے جوش و خروش کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر سمجھا یا محسوس نہیں کیا جا سکتا۔‘
آرمی چیف کے دفتر سے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوں’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیاسنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے اہم واقعات مغربی پاکستان میں کیسے رپورٹ ہوئے؟1971 کی جنگ کے دوران یحییٰ خان کی نور جہاں سے فون پر گانے کی فرمائش اور نجومی کی وہ پیشگوئی جو غلط ثابت ہوئی’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا‘ کس نے اور کیوں کہا تھا؟پاکستان اور بنگلہ دیش میں معافی پر سیاست، آگے کیسے بڑھا جائے؟