ڈومینیکا: وہ ملک جس کی آمدن کا بڑا ذریعہ اپنی شہریت کی فروخت ہے

بی بی سی اردو  |  Feb 11, 2025

Getty Images

سات سال قبل ایک سمندری طوفان ’ڈومینیکا‘ نامی چھوٹے سے ملک کے ساحل سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں یہاں موسلا دھار بارشیں ہوئیں اور صرف چند گھنٹوں میں اس چھوٹے سے کیریبین جزیرے پر تقریباً تمام گھر تباہ ہو گئے۔

یہ ملک اپنے ساحلوں کے بجائے اپنے سرسبز پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سمندری طوفان کے بعد یہ ملک عملی طور پر بجلی سے محروم ہو گیا، یہاں پینے کے پانی کی فراہمی مہینوں تک متاثر رہی اور مواصلات کا نظام مکمل طور پر بحال ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

یہ ایک ایسی ایمرجنسی صورتحال تھی جس کے بعد اس ملک کی حکومت کو فوری طور پر آمدنی کے ایک ذریعے کی تلاش تھی جو اسے کم وقت میں اس ملک کی تعمیرِ نو کے قابلِ بناتی۔ اور آمدن کا یہی ذریعہ حاصل کرنے کے لیے اس ملک کی حکومت نے ’شہریت کی فروخت‘ کا سہارا لیا۔

یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد ’ڈومینیکا‘ کے وزیر اعظم روز ویلٹ سکیریٹ نے سرکاری ویب سائٹ پر پیغام جاری کیا کہ ’ہم دنیا بھر سے افراد اور اُن کے خاندانوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور بدلے میں ہم انھیں ڈومینیکا کی شہریت فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔۔۔‘

’سٹیزن شپ بائی انویسٹمنٹ‘ پروگرام غیر ملکیوں کو ایک خاص رقم کی سرمایہ کاری کے بدلے اس ملک کی شہریت کے حصول کے قابل بناتا ہے۔

’دی گولڈن پاسپورٹ: گلوبل موبلٹی فار ملینیئرز‘ نامی کتاب کی مصنف کرسٹین سوراک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دولت کمانے کا یہ طریقہ کار چھوٹی جزیرہ نما ریاستوں کے لیے پُرکشش ہے۔ یہ ان ممالک کے غیر ملکی کرنسی کمانے کا ایک ذریعہ ہے جو عام طور پر اپنے ملک میں استعمال ہونے والی ہر چیز دیگر ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔‘

ایک بین الاقوامی غیر منافع بخش تحقیقاتی صحافتی تنظیم ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈومینیکا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق شہریت کی فروخت کے پروگرام کے ذریعے اس ملک نے سنہ 2017 سے سنہ 2020 کے درمیان 1.2 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی آمدنی حاصل کی۔ تاہم ڈومینیکا کے سرکاری اعداد و شمار اس مد میں حاصل ہونے والی آمدن کو کم ظاہر کرتے ہیں۔

اگرچہ شہریت کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن قانونی ہے تاہم اس کو لے کر بین الاقوامی سلامتی کے حوالے سے دیگر ریاستوں کے حکام کی جانب سے سخت تنقید بھی کی جاتی ہے۔ دوسری جانب ڈومینیکا کے حکام کی دلیل ہے کہ شہریت دینے کا ان کا سرکاری پروگرام محفوظ ہے اور اُن کی جانب سے درخواست گزاروں کی سکریننگ اور اہلیت کے معیار میں بتدریج اضافہ کیا گیا ہے۔

تین دہائیوں کی تاریخGetty Images

شہریت کی فروخت کوئی نئی بات نہیں ہے، نہ تو ڈومینیکا میں اور ہی دنیا کے دیگر ممالک میں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کم از کم 20 ممالک ایسے ہیں جہاں قانون کے تحت شہریت کی فروخت کی اجازت ہے لیکن اُن میں سے صرف نصف ممالک کے پاس اس ضمن میں فعال پروگرام ہیں۔ ان میں سے پانچ کیریبین ممالک ہیں اور ڈومینیکا ان میں سے ایک ہے۔

یہاں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت کے حصول کا قانون سنہ 1993 سے موجود ہے جو اسے دنیا کے پرانے ترین شہریت کے پروگراموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر سراک کہتے ہیں کہ ’شروع میں بہت سارے مسائل تھے۔ سرمایہ کاروں نے شہریت کے حصول کے عوض ادائیگیاں تو کیں لیکن اس کی بدولت ملک میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی، جس کی وجہ سے کئی مقدمات دائر کیے گئے۔‘

لیکن سات سال قبل آنے والے سمندری طوفان کے بعد جب ملک نے دنیا کی ’ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے والی پہلی قوم‘ بننے کا وعدہ کیا تو شہریت کی فروخت اس ملک کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن گئی تھی۔

سرکاری معلومات کے مطابق حالیہ برسوں میں اس پروگرام کو وسعت حاصل ہوئی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن اس ملک کے کل جی ڈی پی کے 30 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس ضمن میں ہونے والی آمدن میں اضافہ ہوا ہے اور یہ دگنا سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’آہستہ آہستہ ڈومینیکا نے اس پروگرام پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شہریت کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن واقعی اس ملک کی ترقی کے لیے وقف کی گئی ہے۔‘

ڈومینیکا بہت سے دیگر چھوٹے جزیروں کی طرح پیرس معاہدے کے تحت ماحولیات کی پالیسیوں کو فروغ دینے میں بین الاقوامی سطح پر ایک اہم کھلاڑی بن گیا ہے اس سے قطع نظر کہ یہاں کے حکام جانتے ہیں کہ وہ ان پالیسیوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کافی کمزور ہیں۔

ڈومینیکا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انھوں نے سنہ 2009 سے اب تک سرمایہ کاری کے عوض اپنے ملک کی شہریت کی فروخت سے ایک ارب امریکی ڈالر سے زیادہ جمع کیے ہیں۔

سرمایہ کاروں کے لیے قانونی طور پر ڈومینیکا کی شہریت حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقتصادی تنوع فنڈ کے ذریعے حکومت کے ساتھ ایک لاکھ امریکی ڈالر کی براہ راست شراکت کی جائے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ رئیل سٹیٹ منصوبوں میں کم از کم دو لاکھ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے۔

حکومت کے مطابق سرمایہ کار ڈومینیکن شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں کام کر سکتے ہیں اور کاروبار بھی کر سکتے ہیں۔

پروفیسر سراک ڈومینیکا میں شہریت کے اس پروگرام کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت کا حصول بیرون ملک سفر کی بہتر سہولیات کے لیے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ بغیر ویزا صرف قریب 40 ملکوں میں جا سکتے ہیں۔‘

’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ کی سنہ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ممالک میں شہریت حاصل کرنے کے روایتی طریقے کے برعکس، جن میں کئی برس تک کسی ایک ملک میں مقیم رہنا پڑتا ہے،ڈومینیکا کی شہریت اس ملک میں قدم رکھے بغیر حاصل کی جا سکتی ہے۔

پروگرام پر تنقید

بظاہر تو یہ اقدام اس چھوٹے سے ملک کو وسیع پیمانے پر فوائد پہنچا رہا ہے لیکن اتنی جلدی کسی ملک کی شہریت حاصل کرنے جیسے معاملے پر حال ہی میں تنقید ہونا بھی شروع ہو گئی ہے۔

یورپی یونین کمیشن نے 2023 کی ایک رپورٹ میں تجارت کے بارے میں سکیورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے اور شہریت فروخت کرنے والے ممالک کے لیے ویزا فری نظام کو معطل کرنے کی تجویز دی ہے۔

آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ سے منسلک صحافیوں نے ’سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت‘ پروگرام خریدنے والے 7،700 افراد کے بارے میں تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ یہ شہریت حاصل کرنے والے بہت سے لوگوں سے ان کے ممالک میں کسی نہ کسی الزام میں پوچھ گچھ کی گئی، ان میں سے کچھ کو دوسرے ممالک میں جرائم کا مجرم قرار دیا گیا۔

ڈومینیکا کا کہنا ہے کہ ان درخواست دہندگان کے لیے شہریت ممنوع ہے جن کا دیگر ممالک میں مجرمانہ ریکارڈ ہے، جن کے خلاف مجرمانہ تفتیش جاری ہو یا جنھیں کسی دوسرے ملک کی شہریت یا امریکہ کے ویزے سے انکار کر دیا گیا ہو۔

حکام کا یہ بھی کہنا ہے ایسے درخواست گزاروں کو بھی شہریت نہیں دی جاتی جنھوں نے درخواست میں اپنے سے متعلق غلط معلومات جمع کرائی ہیں یا جنھوں نے ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے جن سے ڈومینیکا کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Getty Images

جبکہ بیلاروس، ایران، شمالی عراق، شمالی کوریا، روس، یمن اور سوڈان کے شہریوں کی درخواستوں کو ’اضافی سکریننگ‘ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ شہریت حاصل کرنے کے بعد اس قانون میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جیسا کہ انھوں نے آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن پر رپورٹنگ پراجیکٹ کی رپورٹ میں تصدیق کی ہے۔

ڈومینیکا کے وزیر اعظم روزویلٹ سکیریٹ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ’اگر کسی شخص کو آج ہمارے ملک کی شہریت ملتی ہے اور وہ کل کچھ ایسا کر دےجس کی وجہ سے وہ قانون کی گرفت میں آ جائے تو آپ اس کے لیے پروگرام کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔‘

اگرچہ ڈومینیکا نے اس پروگرام کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں، جیسا کہ شہریت کی منسوخی کے اختیارات اور اہلیت کے معیار کو بڑھانا، تاہم ڈومینیکا اب 1990 کی دہائی کے وسط کے مقابلے میں شہریت کی فروخت کے ذریعے آمدن پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

پروفیسر سورک کہتے ہیں کہ ’یہ عدم مساوات ہے کہ کون اسے خرید سکتا ہے اور کون نہیں۔‘

’یہ ان چھوٹے ممالک اور امیر ممالک کے درمیان عدم مساوات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ آخر آپ کیا کریں جب آپ کو سب کچھ درآمد کرنا پڑے اور آپ کے پاس زیادہ قدرتی وسائل بھی نہ ہوں؟‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More