فلپائن میں طلاق کو قانونی حیثیت کیوں حاصل نہیں ہے؟

اردو نیوز  |  Feb 11, 2025

فلپائن دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں طلاق کو قانونی حیثت حاصل نہیں ہے، تاہم شہریوں کے حقوق کے لیے کوشاں کارکن اس کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں منیلا میں پھل فروخت کرنے والی ایک شادی شدہ خاتون انورون کا حوالہ دیا گیا ہے۔

طلاق کو قانونی شکل دینے اور اس کے لیے قانون سازوں کو قائل کرنے کے لیے کوشش کرنے والی ایویلیا انورون کا کہنا ہے کہ کیسے ان کو اکثر شوہر کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا رہتا ہے جسے برداشت کرنا پڑتا ہے۔

 وہ اپنے ہمراہ میڈیکل سرٹیفکیٹس بھی رکھتی ہیں جو ان زخموں کے بارے میں ہیں جن کا الزام وہ اپنے شوہر پر لگاتی ہیں۔

وہ یہ امید بھی رکھتی ہیں کہ ایک روز یہ عدالت میں ثبوت کے طور کام کریں گے۔

تاہم اس کے باوجود بھی دو بچوں کی ماں جو بعد میں ایکٹیوسٹ بنیں، کی شادی اب خاتمے سے کافی دور ہے۔

پچھلے ہفتے طلاق کا قانون متعارف کرانے کی کوشش اس وقت دم توڑ گئی جب ایوان بالا کا اجلاس سماعت کے بغیر ہی ختم ہو گیا۔

پچھلے ہفتے طلاق کے حوالے سے بل سینیٹ میں لانے کی کوشش ناکام ہو گی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

ایویلینا انورن اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’وہ بس اس معاملے کے اردگرد سے ہی گزرتے رہتے ہیں۔‘

آخری بار ایسی ہی ایک کوشش 2019 میں ہوئی اور سینیٹ تک پہنچی تھی، اس موقع پر انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو بڑی شدومد سے اٹھایا تھا، تاہم اس بل کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

خاتون کا کہنا ہے کہ ’شریک حیات کو آزاد ہونے کا حق‘ حاصل ہونا چاہیے اور اس کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

’امید ہے کہ بل اگلے سال پاس ہو جائے گا کیونکہ نئے سینیٹرز بھی آ رہے ہیں۔‘ 

117 ملین پر مشتمل کیتھولک معاشرے میں شادی کا خاتمہ صرف منسوخی کے ذریعے ہی ممکن ہے تاہم فلپائن میں ایسے لوگ کافی کم ہیں جو 10 ہزار ڈالر کی فیس ادا کر سکیں جبکہ اس کے بعد بھی گھریلو تشدد یا بے وفائی کو طلاق کے لیے اہلیت کے طور پر نہیں مانا جاتا۔

ایویلینا کا کہنا ہے کہ ’میں اس شادی سے آزاد ہونا چاہتی ہوں۔‘

ان سے لاتعلق رہنے کے باوجود ایویلینا کی لائف انشورنس پالیسی کے بینیفشری ان کا شوہر ہی ہے جبکہ وہ اس کی رضامندی کے بغیر اس کو تبدیل بھی نہیں کر سکتیں۔

طلاق کے حق کے لیے مہم چلانے والوں کا ماننا ہے کہ اس کے حوالے سے اب عوام کی رائے تبدیل ہو گئی ہے اور سرویز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فلپائنیوں کی آدھی آبادی اب تبدیلی چاہتی ہے۔

2022 میں عہدہ سنبھالنے سے قبل در فرڈیننڈ مارکوس نے کہا تھا کہ وہ طلاق کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔

فلپائن میں انسانی حقوق کے کارکن طلاق کے حق میں مہم چلا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم اس کے باوجود بھی حالیہ کوشش اور اس سے قبل آنے والے بلز کو سینیٹ میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

اس مجوزہ بل میں کہا گیا تھا کہ عدالتیں کم آمدنی والے پٹیشنرز کو مفت قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کریں، وکلا کی فیس کو 50 ہزار پیسو تک محدود کیا جائے اور زیرالتوا پٹیشنز کو سال کے اندر حل کیا جائے۔

اس بل کے شریک مصنف قانون ساز الرینے بروساس کا کہنا ہے کہ ’یہ امر ناقابل قبول ہے کہ سینیٹ عوامی مطالبے کے مطابق اقدامات کرنے سے انکار کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اگلے اجلاس کے لیے بل کو ایک بار پھر تیار کرے گی۔

اسی طرح کئی خواتین وکیل اور حقوق کے کارکن بھی عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ طلاق کو قانونی حیثیت دلانے کے لیے کوشش جاری رکھیں گے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More