ایک ٹرانس جینڈر کی خودکشی اور امریکہ میں ’سعودی سفارت خانے سے تعلق رکھنے والے‘ وکیل کی تلاش

بی بی سی اردو  |  Feb 11, 2025

جب ایک معروف سعودی ٹرانس خاتون ایڈن نائٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر خودکشی سے پہلے نوٹ لکھا تو ان کے دوست اور مداحوں کو بہت بڑا دھچکہ لگا۔

اس نوٹ میں، جسے لاکھوں افراد نے پڑھا، کہا گیا کہ وہ جب امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تو انھیں ایک وکیل نے ایک ایسے ملک اور خاندان کے پاس واپس لوٹنے پر راضی کر لیا، جہاں ان کی شناخت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

بی بی سی ورلڈ سروس نے اس شخص کی شناخت بدر العمیر کے نام سے کی ہے جن کے بارے میں شواہد کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ واشنگٹن ڈی سی میں سعودی سفارت خانے کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ متعدد سعودی طلبا کی امریکہ سے متنازع واپسی کی وجہ بھی بن چکے ہیں جن میں سے دو پر یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران قتل کرنے کے الزامات تھے۔

العمیر کی جانب سے ہماری تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے الزامات کا جواب نہیں دیا گیا۔ ایڈن نائٹ کا تعلق سعودی عرب کے ایک معروف خاندان سے تھا۔

سنہ 2019 میں وہ سعودی حکومت کی سکالرشپ پر جارج میسن یونیورسٹی ورجینیا چلی گئی تھیں جہاں انھوں نے 2022 میں اپنی شناخت مرد سے عورت میں تبدیل کر لی اور خواتین کے کپڑے پہننے کے ساتھ ’فیمیل سیکس ہارمونز‘ کا استعمال کرنے لگیں۔

ایڈن کو ایکس اور ڈسکارڈ نامی آن لائن پلیٹ فارم پر ایک کمیونٹی ملی جہاں ان کی شناخت کو تسلیم کرنے والے افراد موجود تھے اور یہاں سے ان کی انٹرنیٹ پر مقبولیت بڑھنے لگی۔

ایک پوسٹ میں انھوں نے سعودی شناختی کارڈ پر اپنی پرانی اور ساتھ ہی اپنے نئے روپ میں بھی تصویر شیئر کی اور یہ پوسٹ وائرل ہو گئی۔

یاد رہے کہ سعودی عرب میں ٹرانس جینڈرز کو نہ تو معاشرے میں اور نہ ہی حکومت کی جانب سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم نے سعودی عرب کی متعدد ایسی ٹرانس جینڈرز سے بات کی، جو اب ملک سے باہر رہتی ہیں، انھوں نے ہمیں ملک میں ان کے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات اور تشدد کے بارے میں بات کی۔

اسی لیے ایڈن کے لیے سعودی عرب واپس جانا مشکلات کا سبب بن سکتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کے سٹوڈنٹ ویزے کی میعاد اس وقت ختم ہو چکی تھی جب ان کی یہ ٹویٹ وائرل ہوئی اس لیے انھوں نے امریکہ میں ہی پناہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ مستقل رہائش حاصل کر سکیں۔

ایڈن کا کہنا تھا کہ انھیں ایک پرانے دوست کی جانب سے میسیج بھیجا گیا جنھوں نے ان کی ایک امریکی نجی انویسٹیگیٹر مائیکل پوکالیکو سے بات کروائی۔

ایڈن کے دوست ہیڈن، جن کے ساتھ وہ جارجیا میں مقیم تھیں، کے مطابق پوکالیکو نے ایڈن کے پناہ کے دعوے اور ان کے خاندان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں معاونت کرنے کی پیشکش کی۔

ایڈن کے دیگر دوستوں نے ہمیں ان کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات دکھائے ہیں جن کے مطابق پوکالیکو نے انھیں بتایا کہ انھیں پناہ کا دعویٰ دائر کرنے کے لیے جارجیا سے واشنٹگن ڈی سی منتقل ہونا پڑے گا۔

ایمان خلیف: روٹی اور کچرا بیچنے والی باکسر جن کا اولمپکس میں متنازع سفر طلائی تمغے پر ختم ہوا’میں غیر روایتی جنسی کردار اپنانے میں اپنی والدہ پر گئی، عورت کا لیبل مجھ پر فٹ نہیں بیٹھتا تھا‘جنس تبدیل کروا کر مرد بننے والی دوست جس نے یکطرفہ محبت میں بچپن کی سہیلی کو ہی قتل کر دیادو بہنیں جو جنس تبدیلی کے آپریشن کے بعد دو بھائی بننے پر خوش ہیں

انھوں نے اکتوبر 2022 میں ایکس پر جو آخری پیغام پوسٹ کیا اس میں لکھا تھا کہ نجی انویسٹیگٹر ایڈن سے ان کی ملاقات ایک ٹرین پر ہوئی اور ان کے ساتھ ایک سعودی وکیل بدر بھی موجود تھے۔

ایڈن کا کہنا تھا کہ ’میں واقعتاً پر امید تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔‘

تاہم وقت کے ساتھ انھوں نے وکیل اور انویسٹیگیٹر کے محرکات پر سوال اٹھانا شروع کیے۔ بی بی سی نے ایڈن کے ایسے پیغامات دیکھے ہیں جن میں انھوں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ بدر ان کے ’خیالات تبدیل‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بدر نے ان کے تمام کپڑے پھینکنے کی کوشش کی اور انھیں ہارمون تھیراپی بھی روکنے کا کہا۔

ایڈن نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ بدر نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ امریکہ میں پناہ کا دعویٰ دائر نہیں کر سکتیں اور اس کے لیے انھیں سعودی عرب واپس جانا پڑے گا۔

جب ہم نے ایک امریکی امیگریشن ماہر سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ایسا کوئی بھی مشورہ غلط ہے۔

دسمبر 2022 میں ایڈن نے اپنے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ ’میں (سعودی عرب واپس) ایک وکیل کے ساتھ جا رہی ہوں اور اچھے کی امید رکھتی ہوں۔‘

ایکس پر ان کے خودکشی کے نوٹ کے مطابق اس وکیل کا نام بدر تھا۔

تاہم واپس جانے کے کچھ ہی عرصے بعد ایڈن نے اپنے دوستوں کو بتانا شروع کر دیا کہ واپس جانا غلطی تھی۔

ایڈن نے اپنے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ ان کے والدین نے ان کا پاسپورٹ لے لیا ہے اور حکومت نے انھیں ایکس اکاؤنٹ بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

BBCبدر العمیر کی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر موجود کوڈ سے ہمیں ان کے بارے میں اور معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا

ایڈن نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان کے والدین نے لوگوں کو بھرتی کیا تاکہ انھیں سعودی عرب واپس لے جا سکیں تاہم انھوں نے اس حوالے سے شواہد فراہم نہیں کیے۔

انھوں نے ان میں سے ایک دوست کو بتایا کہ ’جو وکیل مجھے پناہ کا دعویٰ دائر کرنے میں مدد دے رہا تھا وہ میرے والدین کے ساتھ میری پیٹھ پیچھے رابطے میں تھا۔‘

تاہم آئندہ چند ماہ میں ایڈن کے دوستوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے سعودی عرب چھوڑنے کی امید کھو دی تھی۔

انھوں نے ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں جونیئر پوزیشن پر کام شروع کیا اور عوامی طور پر مرد کی شناخت اپنا لی۔

ایڈن نے اپنے ایک دوست کو میسیج کیا کہ وہ مزید فیمیل ہارمونز لینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ان کے والدین نے بار بار یہ ان سے چھین لیتے ہیں۔

ایڈن نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ انھیں گالیاں اور اپنے بارے میں لغو باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنے دوستوں کو ایک ویڈیو بھیجی جو بی بی سی نے بھی دیکھی جس میں انھوں نے خفیہ طور پر ایک فیملی کے رکن کو اپنے اوپر چیختے ہوئے ریکارڈ کیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں مغربی خیالات نے برین واش کر دیا۔

ایڈن نے مارچ 2023 میں خودکشی کر لی۔

ہم ’بدر‘ کو ڈھونڈنا چاہتے تھے، وہ وکیل جن پر ایڈن کو شناخت دوبارہ تبدیل کرنے اور گھر واپس جانے پر آمادہ کرنے کا الزام ہے۔ ہم جاننا چاہتے تھے کہ ایڈن کی موت سے قبل کیا کچھ ہوتا رہے۔

ہم نے واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں بدر کے نام کے وکلا کی تلاش کی اور ہمارے سامنے بدر العمیر کا نام آیا۔

ان کے بارے میں آن لائن محدود معلومات تھیں لیکن ایک پرانی ڈائریکٹری میں ان کا پورا نام ملا اور یہ ہمیں ان کے غیر فعال فیس بک اکاؤنٹ پر لے گیا جس میں ہارورڈ لا سکول میں ان کی تصویر دیکھی جا سکتی تھی۔

اپنے دوستوں کو ایڈن نے بتایا تھا کہ ان کے وکیل ہارورڈ سے پڑھے ہیں۔ ان کے ایک دوست نے ہمیں ایک فوٹو فراہم کی جو ایڈن کے اس اپارٹمنٹ کی تھی جہاں العمیر نے انھیں ٹھہرایا ہوا تھا۔

ہم اسے واشنگٹن ڈی سی کے نواحی علاقے میں جیو لوکیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ایک شخص نے بتایا کہ وہ ایڈن کو جانتے تھے اور انھوں نے اسے العمیر کے ساتھ دیکھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایڈن کے پاس خواتین کا لباس، زیورات اور میک اپ تھا لیکن جب بھی العمیر آتے تو وہ یہ سب چھپا دیتیں۔ انھوں نے ایڈن کو بال کٹوانے پر مجبور کیا اور اسے شیو نہ کرنے کا کہا۔

ہم نے بارہا العمیر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب ہم نے ان کی واشنگٹن ڈی سی بار رجسٹریشن پر درج پتے کا دورہ کیا تو ہم نے ان کی تصویر سے مماثلت رکھنے والے شخص کو کار میں سوار ہو کر جاتے دیکھا۔

ہم نے ان کی گاڑی کی غیر معمولی نمبر پلیٹ کو نوٹ کرتے ہوئے اس کا پیچھا کیا۔ اس کے کوڈ کے مطابق یہ واشنگٹن ڈی سی میں سعودی عرب کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کی گئی تھی اور گاڑی کا مالک سفارت خانے کے عملے میں سے تھا۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک وکیل نے بتایا کہ العمیر کا واشنگٹن میں سفارت خانے میں کردار امریکہ میں سعودی طلبا کو سپورٹ کرنا تھا۔

ہمیں ان کے بارے میں ایسی خبریں بھی ملیں جن میں وہ فلوریڈا میں سمندری طوفان سے بے گھر ہونے والوں کی مدد کر رہے ہیں اور کچھ ایسی تفصیلات بھی ملیں، جو مزید متنازع حالات میں ان کے کردار پر توجہ دلواتی ہیں۔

13 اکتوبر 2018 کو دو سعودی طلبا سے امریکی پولیس نے شمالی کیرولائنا میں ایک ایسے ریپر کی ہلاکت کے بعد پوچھ گچھ کی تھی جسے ان دو طلبا کے ساتھ بحث کے بعد چاقو حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

دو ماہ بعد عبداللہ حریری اور سلطان الصہیمی پر قتل کی فردِ جرم عائد کی گئی تھی لیکن تب تک وہ امریکہ چھوڑ چکے تھے۔

ہمارے ساتھ شیئر کی گئی ایک ای میل کے مطابق اس حملے کے صرف چار دن بعد حریری سعودی عرب واپسی کی پرواز پر تھے۔ اس میں ان پروازوں کی تفصیلات شامل ہیں جو ہمیں ایک ذرائع کی جانب سے دی گئی ہیں جو ان کے مطابق العمیر کی جانب سے ارینج کروائی گئی تھیں۔

دونوں طلبا نے تاحال عوامی طور پر اس بارے میں بات نہیں کی۔

ایک اور ای میل کے مطابق العمیر کو ان فلائٹس کی رسیدیں بھیجی گئی تھیں اور ہمارے ذرائع کے مطابق یہ سعودی سفارت خانے سے پیسے واپس لینے کے لیے بھیجی گئیں۔

ایک اور ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے تیز رفتار ڈرائیونگ سے لے کر شراب پی کر گاڑی چلانے تک کے الزامات کے خلاف امریکہ میں درجنوں دیگر سعودی طلبا کی نمائندگی کے لیے العمیر کے ساتھ کام کیا۔

’بدر سعودی سفارت خانے کے ایک عربی فارم کے ساتھ میٹنگز میں آتے اور اس پر طالب علموں کے دستخط لیے جاتے کہ وہ وطن واپس پہنچنے کے بعد سعودی حکومت کو فیس ادا کریں گے۔‘

ذرائع نے ہمیں بتایا کہ طلبا اپنی پہلی سماعت پر تو پیش ہوتے لیکن بعد میں ہونے والی کسی بھی سماعت سے پہلے ہی غائب ہو جاتے، اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ اس میں العمیر کا کوئی کردار تھا یا نہیں۔

سنہ 2019 میں ایف بی آئی نے خبردار کیا تھا کہ سعودی حکام نے ممکنہ طور پر امریکی قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سعودی شہریوں کے فرار میں مدد کی۔

’ایف بی آئی کا اندازہ ہے کہ سعودی عرب کے حکام تقریباً یقینی طور پر امریکہ میں مقیم سعودی شہریوں کی قانونی مسائل سے بچنے کے لیے مدد کرتے ہیں، جس سے امریکی عدالتی عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ اندازہ بڑے اعتماد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘

ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ العمیر ابھی بھی امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں کام کر رہے ہیں۔ وہ واشنگٹن ڈی سی کے آس پاس متعدد کمرشل جائیدادوں کے مالک ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اگست 2024 میں انھوں نے ورجینیا میں ایک نئی قانونی فرم کی بنیاد رکھی ہے، جس میں وہ ایک نامزد پارٹنر ہے۔

مائیکل پوکالیکو، بدر العمیر اور واشنگٹن ڈی سی میں سعودی سفارتحانے نے ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دیے۔

ہم نے ایڈن نائٹ کے اہلخانہ سے بھی رابطہ کیا تاہم انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ایمان خلیف: روٹی اور کچرا بیچنے والی باکسر جن کا اولمپکس میں متنازع سفر طلائی تمغے پر ختم ہوا’میں غیر روایتی جنسی کردار اپنانے میں اپنی والدہ پر گئی، عورت کا لیبل مجھ پر فٹ نہیں بیٹھتا تھا‘جنس تبدیل کروا کر مرد بننے والی دوست جس نے یکطرفہ محبت میں بچپن کی سہیلی کو ہی قتل کر دیادو بہنیں جو جنس تبدیلی کے آپریشن کے بعد دو بھائی بننے پر خوش ہیں'میں عورت کے جسم میں بے چین تھا'، جنس تبدیلی سےمرد بن جانے والے سکول ٹیچر کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More