’اتنی جگہ اپلائی لیکن نوکری نہیں ملی‘، آن لائن ویب سائٹس سے ملازمتوں کا حصول مشکل کیوں؟

اردو نیوز  |  Feb 13, 2025

’2022 میں یونیورسٹی سےگریجوئیشن کی چار سالہ ڈگری مکمل ہوتے ہی ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ پانچ سے چھ ویب سائٹس پر کئی آسامیوں کے لیے اپلائی کیا لیکن کامیابی نہ مل سکی اور پھر مایوس ہو کر ایک نجی کال سینٹر میں جاب کر لی۔‘

یہ کہنا ہے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان حذیفہ ہارون (فرضی نام) کا جو ملازمت کی تلاش میں آن لائن ویب سائٹس کا سہارا لے رہے تھے لیکن ناکام رہے۔

انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے گریجوئیشن کے بعد ملازمت کے مواقع سے آگاہ رکھنے والی قومی اور بین الاقوامی ویب سائٹس پر مختلف آسامیوں کے لیے اپلائی کرنا شروع کر دیا تھا۔‘

حذیفہ ہارون نے کہا کہ گزشتہ دو سال میں پانچ سے چھ ویب سائٹس پر درخواستیں جمع کروائیں۔ یہاں تک کہ جب کسی دوسری ویب سائٹ پر پہلی کی نسبت اچھی پیشکش نظر آئی تو اُسی ایک آسامی کے لیے دو مرتبہ بھی اپلائی کیا۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اتنی ویب سائٹس پر اپلائی کرنے کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی اور پھر ویب سائٹس کے ذریعے نوکری کی تلاش ترک کرتے ہوئے ایک نجی کال سینٹر میں ملازمت اختیار کر لی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آن لائن ویب سائٹس کے ذریعے جمع کروائی گئی درخواستوں کا جواب نہیں ملتا۔

یہ شکوہ صرف حذیفہ کا ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان میں آن لائن ویب سائٹس کے ذریعے مختلف سرکاری و نجی اداروں میں خالی آسامیوں کے لیے اپلائی کرنے والے ہر دوسرے نوجوان کا ہے۔

اس حوالے سے آن لائن ویب سائٹس گرین ہاؤس، انڈیڈ اور لنکڈاِن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں اکثر کمپنیاں درخواست گزاروں کو جواب نہیں دیتیں۔

گزشتہ سال کے دوران مختلف سرکاری و نجی کمپنیوں نے ایسی لاکھوں درخواستوں پر کوئی جواب نہیں دیا جو اُمیدواروں کی طرف سے بھیجی گئی تھیں۔

ویب سائٹس کے اقدامات کی روشنی میں توقع کی جا رہی ہے کہ کمپنیاں آن لائن درخواستوں کا وقت پر جواب دیں گی (فوٹو: اے ایف پی)اس مسئلے کے حل کے لیے لنکڈاِن، انڈیڈ اور گرین ہاؤس وغیرہ نے ملازمت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو جواب دینے کا پابند کرنے کے لیے کچھ نئے فیچرز متعارف کروائے ہیں۔

لنکڈان نے اپنی ’جاب میچ‘ کی خصوصیت کو بہتر بنایا ہے جو کسی امیدوار کی اہلیت کو جانچتا ہے۔

اس اقدام کا مقصد درخواست دہندگان کو ان کی مہارتوں کے مطابق کردار پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دے کر درخواستوں کے سیلاب کو کم کرنا اور ریسپانس کی شرح کو بہتر بنانا ہے۔

اسی طرح آن لائن جاب سائٹ انڈیڈ نے مخصوص کمپنیوں کو ’ریسپانسیو ایمپلائر‘ بیجز جاری کیے ہیں جو تمام پیغامات میں سے کم از کم نصف کا جواب دیتی ہیں۔

جاب سائٹ نے ’گرین ہاؤس‘ اپنے صارفین کو کمپنیوں کی جانب سے درخواست کو دیکھنے اور اُس کے فیڈبیک کے حوالے سے وقتاً فوقتاً آگاہ رکھنے کا فیچر استعمال کرنے کا آغاز کیا ہے۔

جاب ویب سائٹس کی جانب سے ان اقدامات کی روشنی میں توقع کی جا رہی ہے کہ روزگار فراہم کرنے والی کمپنیاں اُمیدواروں کی بھیجی گئی آن لائن درخواستوں کا وقت پر جواب دیں گی۔

اُردو نیوز نے ماہرین سے گفتگو کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے نوجوانوں کے لیے ویب سائٹس کے ذریعے ملازمت کے حصول میں کون سی رکاوٹیں موجود ہیں؟

نوجوان انٹرپرینیو ارزش اعجاز کا کہنا ہے کہ اگر درخواست گزار کی اہلیت اور تجربہ متعلقہ نہ ہو تو کمپنیاں جواب نہیں دیں گی‘ (فوٹو: شٹرسٹاک)ماہر تعلیم اور موٹیویشنل سپیکر ڈاکٹر شہیب احمد کا خیال ہے کہ نوجوان نوکری کے حصول کے ضرورت سے زیادہ درخواستیں جمع کروا دیتے ہیں یعنی وہ ایک ملازمت کے لیے کئی مختلف ویب سائٹس پر اپلائی کر دیتے ہیں اور یہ عمل کمپنیوں کے جواب دینے میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

اُنہوں نے زور دیا کہ نوجوان کسی بھی خالی آسامی کے لیے اپلائی/درخواست جمع کروانے سے قبل مکمل ہوم ورک کریں تاکہ اُنہیں پتہ ہو کہ کس آسامی کے لیے اور کیوں اپلائی کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ہر آسامی کے لیے کسی ویب سائٹ سے صرف ایک مرتبہ ہی اپلائی کریں۔

نوجوان انٹرپرینیو ارزش اعجاز کے خیال میں آن لائن جاب ویب سائٹس اکثر و بیشتر نوجوانوں کو اچھی نوکری فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ آپ اپنی قابلیت کی بنیاد پر کسی خاص آسامی کے لیے درخواست دیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’بڑی کمپنیاں اُمیدوار کی اہلیت اور تجربہ دیکھ کر فیصلہ کر لیتی ہیں کہ یہ ہمارے لیے موزوں/مناسب ہے یا نہیں۔ اگر درخواست گزار کی اہلیت اور تجربہ ملازمت سے متعلقہ نہ ہو تو یقینی طور وہ اس کا جواب نہیں دیں گی۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More