پاکستانی ٹیم کا ایک خاص سٹائل رہا ہے کہ آئی سی سی ٹورنامنٹس میں اکثر یہ برا سٹارٹ کرتے ہیں، ابتدائی میچز میں ایسی بدترین ناکامی کہ شائقین ان سے مایوس ہو جائیں اور پھر جب یہ ٹورنامنٹ سے باہر ہونے لگتے ہیں، تو یکایک پرفارم کرنا شروع کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات فائنل رائونڈز میں جا کر ٹرافی بھی جیت لیتے ہیں۔ بانوے ورلڈ کپ اور پچھلی بار کی چیمپینز ٹرافی کی طرح۔
تاہم کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ابتدائی میچز کی بری کارکردگی کی تلافی بعد کے میچز کا اچھا کھیل نہیں کر پاتا اور سیمی فائنل تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں ایسا ہوا، رن ریٹ پر باہر ہوئے تھے۔
چیمپینز ٹرافی 2025 میں نجانے پاکستانی ٹیم آگے جا کر کیا کرتی ہے کہ اس کے پاس ابھی چانس موجود ہے۔ دو میچز کھیلنے ہیں، دونوں جیت لیے تو سیمی فائنل کھیل سکتے ہیں، مگر سٹارٹ بہت ہی برا اور خاصا مایوس کن رہا ہے۔
پاکستانی ٹیم ابھی چند دن قبل سہہ ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں نیوزی لینڈ سے ہار گئی تھی، مگر یہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ چیمپینز ٹرافی میں اسی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے مقابلے میں ایسا ہلکا اور اوسط سے بھی کمتر درجے کا کھیل پیش کیا جائے گا۔
پاکستانی ٹیم سکواڈ پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے، سابق کرکٹرز اور ماہرین کو خوشدل شاہ اور فہیم اشرف کی شمولیت کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو ایک اور سپیشلسٹ سپنر کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ تاہم پہلے میچ میں جن کھلاڑیوں نے مایوس کیا، وہ ہمارے اچھا خاصا تجربہ رکھنے والے سٹر فاسٹ بولرز ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور خاص کر حارث رؤف، تینوں بولرز کی پٹائی ہوئی۔ خاص کر ڈیتھ اوورز میں یہ کیوی ہٹرز کو روکنے میں بالکل ناکام رہے۔
شاہین شاہ آفریدی نے اپنے آخری دو اوورز میں 30 رنز اور دس اوورز کے کوٹے میں 68 رنز دیے. نسیم شاہ نے دس اوورز میں 66 جبکہ حارث رئوف کے آخری تین اوورز میں 41 رنز اور ان کے دس اوورز کے کوٹے میں 83 رنز بنے۔جب ٹیم کے مین بولرز مجموعی طور پر اپنے 30 اوورز میں دو 218 رنز دیں یعنی سات رنز فی اوور سے بھی زیادہ تو پھر مخالف ٹیم ساڑھے تین سو رنز بھی بنا دے گی۔ حارث روف جو ڈیتھ اوورز میں موثر سمجھے جاتے تھے، اب وہ بھی سٹرگل کر رہے ہیں جبکہ شاہین شاہ آفریدی تو یوں آسانی سے آخری اوورز میں چھکے کھا رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
پاکستانی سپنرز برے نہیں رہے۔ ابرار کے آخری اوور میں سولہ رنز بنے، وہ بھی اس لIے کہ اس سے ڈیتھ اوورز میں باولنگ کرائی گئی، پھر بھی مجموعی طو رپر اس نے دس اوورز میں 47 رنز دیے جبکہ دونوں پارٹ ٹائم سپنرز خوشدل اور سلمان آغا کے مجموعی دس اوورز میں 55 رنز بنے یعنی سپنرز نے 20 اوورز میں صرف 102 رنز دیے ، پانچ رنز فی اوور کی اچھی ایوریج سے۔
یہ زیادہ اچھی بیٹنگ پچ نہیں تھی، کہیں کہیں بولرز کو بھی مدد مل رہی تھی، یہ 260، ستر رنز والی پچ تھی یعنی پونے تین سو رنز سے زیادہ ہدف نہ ہو۔
نیوزی لینڈ کی 40 اوورز میں کارکردگی درمیانی تھی، پانچ کی ایوریج سے کھیلے، لگ رہا تھا کہ 270 یا اسی رنز بنیں گے، مگر آخری دس اوورز میں فلپس کی دھواں دھار ہٹنگ اور ٹام لیتھم کی شاندار اننگ سے 113 رنز بن گئے۔ پاکستانی بولرز نے کم از کم تیس سے چالیس رنز زیادہ دیے۔ اگر سمجھداری سے گیندیں کراتے، یارکر کو استعمال کرتے تو ہدف نسبتا کم رہتا۔پاکستانی بیٹنگ کی ایک بدقسمتی کہ فخر زمان میچ شروع ہوتے ہی پہلے اوور میں انجرڈ ہو کر باہر چلے گئے، خاصی دیر گرائونڈ سے باہر رہنا پڑا اور پھر اسی پاداش میں قوانین کے مطابق وہ اوپننگ نہ کر پائے۔
یہ بدقسمتی تھی کیونکہ آج فخرزمان کی جارحانہ اور بن داس ہٹنگ کی بہت ضرورت تھی۔ سعود شکیل نے اوپننگ کی مگررنگ نہ جما پائے۔ ان کا قصور نہیں کیونکہ وہ اوپنر ہیں ہی نہیں۔ رضوان کو بھی ون ڈاؤن کھیلنا پڑا۔
فخر زمان مکمل فٹ نہ تھے مگر اُن کو بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے پہلا پاور پلے جس طرح کھیلا، اس کے بعد میچ میں کچھ بچا نہیں تھا۔ درست کہ ہنری اور دوسرے فاسٹ بولر اوروکی نے اچھی نپی تلی بولنگ کی، مگر ہمارے بلے بازوں نے رنز بنانے کی کوئی کوشش کی ہی نہیں، یوں لگ رہا تھا جیسے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن ہے اور یہ وکٹ بچانا چاہ رہے ہیں۔ تین سو بیس رنز کا ہدف ہو اور دوسری ٹیم پہلے دس اوورز میں بائیس رنز بنائے، یہ ناقابل یقین بات لگتی ہے، ایسا مگر ہوا۔بابراعظم خاص طور سے آف کلر لگے، ان سے گیپ نہیں نکالے جا رہے تھے، انہوں نے جارحانہ کھیلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہی رویہ رضوان کا رہا۔ کیوی فیلڈنگ کا بھی بڑا اہم کردار ہے، خاص کر فلپ جنہوں نے آج جارحانہ بیٹنگ کی اور پھر فیلڈنگ میں کمال کر دیا۔ محمد رضوان کا فلپ نے شاندار کیچ پکڑا۔ اور پھر فیلڈنگ میں بھی رنز روکے جبکہ پہلے پانچ اوورز بھی اچھے کیے، بعد میں کچھ مہنگے رہے۔فخر زمان کو ٹو ڈاؤن بھیجا گیا، حالانکہ یہ واضح طور پر غلطی اور زیادتی تھی۔ اس لیے کہ فخر زماں انجرڈ تھے، وہ واضح طور پر شدید درد اور تکلیف میں لگ رہے تھے،ان سے آگے بڑھ کر کھیلا نہیں جا رہا تھا جو کہ ان کا مخصوص سٹائل ہے۔ فخرسے سنگلز اور ڈبل بھی نہیں لیے جا رہے تھے۔ وہ اگر پوری طرح فٹ نہیں تھے تو انہیں اس میچ میں جھونکنے کی کوئی تک ہی نہیں تھی۔ فخر زمان کی جگہ وہاں پر سلمان آغا کو بھیجنا چاہیے جو کہ ویسے بھی ان فارم بلے باز ہیں۔پاکستانی بیٹنگ کی واحد خاص بات سلمان آغا کی بیٹنگ تھی۔ جب ٹیم شدید دباؤ میں تھی، کیوی سپنرز پاکستانی بلے بازوں کے لیے عفریت کی طرح خطرناک اور مہیب نظر آ رہے تھے، وہاں پر سلمان آغا نے نکل کر جارحانہ بیٹنگ کی اور کچھ دیر کے لیے سہی میچ کا رنگ بدل دیا۔ انہوں نے پہلے فلپس کو دو چوکے لگائے، پھر سینٹنر کو دوچوکے اور فلپس کے اگلے اوور میں سولہ رنز بنائے۔
بابر اعظم نے 90 گیندوں پر 64 رنز بنائے۔ فوٹو: اے ایف پی
سلمان آغا کی بیٹنگ نے ثابت کیا کہ مسئلہ صرف پچ کا نہیں بلکہ بیٹرز کے مائنڈ سیٹ کا بھی تھا۔ جب وہ شاٹس کھیلنے کی جرات ہی نہیں کریں گے تو رنز کیسے بنیں گے؟ سلمان آغا کے لیے مشکل یہ تھی کہ رن ریٹ بہت زیادہ ہو چکا تھا اور مسلسل، اندھا دھند ہٹنگ ضروری تھی، خاص کر اس لیے کہ دوسرے اینڈ سے رنز نہ بن رہے ہوں۔ سلمان آغا 150 کے سٹرائیک ریٹ سے 28 گیندوں پر 42 رنز بنا کر رخصت ہوئے۔پاکستانی بیٹنگ کی دوسری ہائی لائٹ بابراعظم کی نصف سنچری تھی۔ وہ خاصے عرصے سے رنز نہیں کر پا رہے، آسٹریلیا کے خلاف اور ابھی سہہ ملکی ٹورنامنٹ میں بھی رنز نہیں ہوئے۔ آج بابر اعظم نے جیسے تیسے اپنی نصف سنچری بنا لی، اگرچہ وہ زیادہ اچھی فارم میں نہیں تھے، انہوں نے بہت گیندیں ضائع کیں۔ اکیاسی گیندوں پر ففٹی بنی جس میں 49 ڈاٹ بالز تھیں یعنی ان پر رنز نہیں بنا سکے۔ یہ خاصے مایوس کن اعداد وشمار ہیں۔ بابر اعظم نے صرف 71 کے سٹرائیک ریٹ سے 90 گیندوں پر 64 رنز بنائے۔ اس میں اچھی بات صرف یہ ہے کہ بابر کو 34 اوورز وکٹ پر ٹھیرنے کا موقع ملا جس سے ان میں کسی حد تک اعتماد آیا ہوگا۔ ممکن ہے اس کا فائدہ اگلے دومیچز میں ملے۔طیب طاہر نے مایوس کیا۔ پچھلے دو تین میچز میں وہ ایک جیسا پل شاٹ کھیل کر مڈ وکٹ پر آوٹ ہو رہے، آج بھی نیوزی لینڈ نے ان کے لیے ٹریپ تیار کیا اور طیب طاہر بچوں کی طرح شکار ہو گئے۔خوشدل شاہ نے اچھی بیٹنگ کی۔ ان پر بہت تنقید ہو رہی تھی۔ آج انہوں نے سات اوورز میں 40 رنز دیے جو بری کارکردگی نہیں، خاص کر جب انہیں ڈیتھ اوورز میں 43واں اور 46واں اوور بھی کرانا پڑا ہو۔ خوشدل شاہ نے بیٹنگ میں کئی بڑے عمدہ شاٹس کھیلے اور سینٹنر کو چوکے لگانے کے ساتھ فلپ کو زوردار چھکا لگایا، فاسٹ بولرز کو بھی شاٹس لگائے، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ رن ریٹ اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ پاکستان کے پاس صرف ایک ہی آپشن بچی تھی، بدترین شکست یا کسی حد تک باعزت شکست۔خوشدل شاہ نے آج اپنے ناقدین کو جواب دینے کی کوشش ضرور کی۔ ان کی نصف سنچری قابل ذکر ہے، میچ سے قبل محمد حفیظ پی ٹی وی سپورٹس پر یہ طنزیہ انداز میں یہ پوچھتے پائے گئے کہ خوشدل شاہ نے ون ڈے میں کوئی ففٹی بنائی ہے۔ لگتا ہے خوشدل نے یہ بات سن لی اور سابق کرکٹر کو ففٹی بنا کر دکھا دیا۔انچاس گیندوں پر انہتر رنز بنائے جبکہ سٹرائیک ریٹ 140 تھا جو ون ڈے کے حساب سے متاثر کن ہے۔خوشدل شاہ رنز نہ کرتے تو پاکستان 200 رنز بھی نہ پاتا اور شکست زیادہ بڑی ہوتی۔ خوشدل نے کیوی مین بولرز کی پٹائی کی۔ اوروکی کو دو چوکے لگائے اور پھر میٹ ہنری کو بھی دو چوکے جڑ دیے، دونوں شاندار شاٹس تھے۔کراچی کے مایوس اور فرسٹریٹڈ کراوڈ کے لیے صرف سلمان آغا اور خوشدل شاہ نے تفریح طبع کا ساماں فراہم کیا، ورنہ ہمارے کئی بڑے سٹارز مایوسی کے سوا کچھ نہ دے پائے۔آخر میں ہمارے بولرز نے بھی کراوڈ کو کچھ تفریح دینے کی کوشش کی۔ حارث رئوف نے تین بلند وبالا چھکے لگائے، دس گیندوں پر 19 رنز بنائےجبکہ نسیم شاہ نے بھی ایک چھکا جڑ دیا۔ نیوزی لینڈ کے کپتان سینٹنر جو اچھی بھلی باولنگ کرا چکے تھے، اس پٹائی کے نتیجے میں ان کا سکور 10 اوورز میں 66 رنز ہوا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی پہلے 40 اوورز میں پرفارمنس نیوزی لینڈ کی پہلے 40 اوورز کی بیٹنگ کے لگ بھگ برابر رہی۔ فرق صرف یہ رہا کہ نیوزی لینڈ کے اوپنر کے ساتھ مڈل آرڈرز نے بھی پرفارم کیا اور آخری دس اوورز میں ہارڈ ہٹنگ کر کے رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔پاکستان اپنا پہلا میچ ساٹھ رنز سے ہار گیا البتہ لوئرآرڈر کی بیٹنگ کے نتیجے میں ڈھائی سو سے زیادہ رنز بنا گیا۔ اس کا اثر رن ریٹ پر بھی پڑے گا۔ اگلا میچ بھارت کے ساتھ تیئس اکتوبر کو ہے۔ یہ میچ دوبئی میں ہے جہاں پاکستان کی کئی بہت اچھی پرفارمنسز موجود ہیں۔ ممکن ہے گراونڈ بدلنے سے پاکستانی ٹیم کلک کر جائے ۔پاکستان نے اگر بھارت کو ہرا دیا تو پھر شاید ٹورنامنٹ میں اس ٹیم کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔ اتوار کا میچ اہم ہے اور یاد رکھیں کہ پاک بھارت میچ میں بھارت پر بھی بہت دباؤ ہوتا ہے۔