ذہنی ناپختگی اور تابڑ توڑ غلطیاں پاکستانی ٹیم کو لے ڈوبیں، عامر خاکوانی کا تجزیہ

اردو نیوز  |  Feb 24, 2025

دوسری جنگ عظیم میں جنگ جیتنے والے عظیم برطانوی کمانڈر فیلڈ مارشل منٹمگری کا ایک مشہور قول ہے ’جنگ دو کنفیوز فریقوں کے درمیان مقابلے کا نام ہے جسے کم کنفیوز جیت لیتا ہے۔‘

کھیلوں کے مقابلے خاص کر پاک انڈیا کرکٹ میچ جیسے معرکے بھی اسی انداز میں دیکھنے چاہییں۔ دونوں ٹیموں پر دباؤ ہوتا ہے، دونوں کے کھلاڑی کچھ کنفیوز اور اچھی خاصی سٹریس میں ہوتے ہیں۔ جو ٹیم یا کھلاڑی ذہنی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، پریشر ہینڈل کرتے ہیں، وہ جیت جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چیمپئنز ٹرافی کے اس میچ میں انڈین کھلاڑیوں نے زیادہ پختگی اور سمجھ داری کا مظاہرہ کیا، پریشر اچھے سے ہینڈل کیا، پاکستانی کھلاڑیوں کی غلطیوں سے فائدہ اٹھایا اور وہ میچ جیت گئے۔

اس میچ میں انڈین ٹیم اچھا کھیلی، اسے کریڈٹ دینا چاہیے، ان کے بولرز اور بلے بازوں نے پلان کے مطابق عقل مندی سے کھیل کھیلا، فیلڈنگ میں کیچ ڈراپ ہوئے مگر بہت اچھے کیچ پکڑے گئے ، رن آؤٹ بھی کیا جبکہ انڈین کپتانی بھی بڑی عمدہ تھی۔

اس کے باوجود اس شکست میں پاکستانی کھلاڑیوں کی غلطیوں، خامیوں اور ذہنی ناپختگی کا بڑا کردار ہے۔

ہم نے غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈر کیے اور میچ ہاتھوں میں اٹھا کر انڈیا کو پیش کر دیا۔ اس نے شکریے سے یہ تحفہ قبول کرتے ہوئے فتح کا ہار گلے  میں پہن لیا۔

میچ میں پاکستان کو ایک ابتدائی کامیابی ملی جب ٹاس جیت لیا۔ اس میچ میں ٹاس اہم تھا کہ پاکستان کو جیت کر پہلے کھیلنا سوٹ کرتا تھا۔ پاکستان نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اور ایک بڑی پارٹنرشپ کے باوجود وکٹیں باقاعدہ کوشش کر کے تھرو کیں اور تیس 35 رنز کم بنائے۔ یعنی ایسا ہدف جسے حاصل کرتے ہوئے انڈیا دباؤ محسوس نہ کرے۔ ہمیں 270 سے اسی تک بنانے چاہیے تھے، ہم نے بمشکل 241 رنز بنائے۔

ہمیں سٹارٹ اچھا مل گیا تھا، بابراعظم اچھے ٹچ میں تھا، خوبصورت شاٹس کھیلے، پانچ چوکے لگائے، انڈین بولرز پریشان ہونا شروع ہوئے، روہت شرما نے ہاردک پانڈیا کو لگایا۔ بابر نے ایک چوکا لگایا، ہاردک نے مایوسی میں اپنے ہاتھ فضا میں لہرائے۔

آج کے میچ میں انڈین بولرز اور بلے بازوں نے پلان کے مطابق عقل مندی سے کھیل کھیلا (فوٹو: اے ایف پی)میچ دیکھتے ہوئے فوری خیال آیا کہ ہاردک پانڈیا اگلی گیند تھوڑی سی مختلف کرا کر وکٹ لینے کی کوشش کرے گا۔ یہ اس کا سٹائل ہے۔ اس نے وہی کیا، بابر کو ویسی گیند کرائی مگر تھوڑا باہر اور کم رفتار کے ساتھ ، ہمارا کنگ بابر اعظم خیر سے وکٹ کیپر کو کیچ دے کر چلتا بنا۔

بابر کی وکٹ اہم دھچکا تھی، اوپر سے امام الحق غیرضروری سنگل لینے کوشش میں رن آؤٹ ہوگیا۔ 47 پر دو وکٹیں گر گئیں، مگر رن ریٹ برا نہیں تھا، 10 اوورز میں 52 رنز بن چکے تھے۔

رضوان اور سعود شکیل نے 100 رنز کی اچھی پارتنر شپ بنائی، 33ویں اوور میں پاکستان کے ڈیڑھ سو رنز تھے ، یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان اگلے 17 اوورز میں آرام سے 270 کے لگ بھگ رنز بنا لے گا۔

پھر اچانک پہلے رضوان ایک نہایت غیرذمہ دارانہ شاٹ کھیلتے ہوئے بولڈ ہو گیا۔ وکٹ تھرو کرنا اسے کہتے ہیں۔ اگلے ہی اوور میں سعود شکیل جس نے ہاردک پانڈیا کو ایک چوکا لگایا اور پھر اسی اوور میں اچانک ہی نجانے کیا ہو گیا کہ ایک بہت ہی فضول اور نہایت غیرضروری اونچا شاٹ کھیل کر آؤٹ ہو گیا۔ اس شاٹ کی قطعی ضرورت نہیں تھی، خاص کر جب پچھلے اوور میں رضوان آؤٹ ہو چکا ہے ۔ یوں ایک اچھا ٹوٹل پاکستان کے ہاتھ سے پھسل گیا۔

طیب طاہر انڈین سپنر جدیجا کی ایک سیدھی تیز گیند کو کٹ کرنے کے چکر میں بولڈ ہوا۔ پھر خوشدل اور سلمان آغا نے سنگلز کر کے 35 رنز کی پارٹنر شپ بنائی، مگر پھر سلمان آغا بھی غیرضروری طور پر کلدیپ کو نکل کر شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہو گیا۔ یہ وکٹ بھی خود گنوائی گئی، ضرورت نہیں تھی۔

شاہین شاہ نے روہت شرما کو ایک اچھی گیند پر آؤٹ کیا، مگر ان کے پہلے چار اوورز میں 41 رنز بنے (فوٹو: اے ایف پی)اگلی گیندپر شاہین شاہ آفریدی ایل بی ڈبلیو ہو گیا۔ گیند مڈل سٹمپ پر تھی، مگر شاہین نے نجانے کیوں فوری ریویو لے لیا۔ ہم سمجھے کہ شاید بلا چھو گیا ہے۔ ری پلے نے بتایا کہ گیند بلے سے کئی انچ دور تھی، سیدھا مڈل سٹمپ پر گیند کھانے اور ایل بی ڈبلیو ہونے کے بعد ریویو کون لیتا ہے؟ ٹیم مینیجمنٹ کو چاہیے کہ ایسا ریویو لینے پر ہی شاہین شاہ پر کوئی جرمانہ لگائیں۔ یہ لڑکے پانچ سات سال کھیلنے کے بعد بھی ابھی تک ریویو لینا نہیں سیکھ سکے۔

سلمان آغآ اور شاہین کے آؤٹ ہونے کے بعد میچ میں کیا بچا تھا؟ خوشدل شاہ نے کوشش کی اور نسیم شاہ نے بھی فائٹ کی، جیسے تیسے پاکستان 240 پر پہنچ گیا۔ خوشدل نہ ہوتا تو پاکستان 200 پر شاید آؤٹ ہو جاتا۔

پاکستانی بلے بازوں کی اس ’مہربانی‘  کے بعد میچ خاص آسان ہو گیا تھا۔ اب صرف یہی تھا کہ انڈین بلے باز سمجھ داری سے کھیلیں اور وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو پاکستانی بیٹرز کرتے رہے۔ انڈین بیٹنگ مضبوط، تگڑی اور خاصی لمبی ہے۔ اس میں کئی تجربہ کار بلے باز شامل ہیں اور شمبھن جیسے ٹیلنٹیڈ نوجوان کھلاڑی بھی۔

میچ جیتنے کا اب ایک ہی طریقہ رہ گیا تھا کہ پاکستانی فاسٹ بولرز کوئی کرشمہ دکھائیں اور پہلے 10 اوورز میں انڈین ٹاپ آرڈر اڑائیں۔ ہمارے بولرز نے کوشش تو کی مگر وہ کافی نہیں تھی۔ ان کی بولنگ میں ردھم اور تسلسل کی کمی تھی۔ خاص کر شاہین شاہ آفریدی وکٹ لینے کی کوشش میں فل لینتھ پر بولنگ کراتے رہے، اس میں انہیں چوکے پر چوکا لگا۔ شاہین شاہ نے روہت شرما کو ایک اچھی گیند پر آؤٹ کیا، مگر ان کے پہلے چار اوورز میں 41 رنز بنے، 10 رنز فی اوور ایوریج سے۔ جب ہدف اتنا کم ہو تو بولرز یہ عیاشی افورڈ نہیں کر سکتے۔

نسیم شاہ قدرے بہتر رہا، مگر وکٹ نہ ملنا پاکستان کے لیے سب سے برا اور پریشان کن تھا۔ پاکستانی بولرز کے پاس شمبھن گل اور کوہلی کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ سکون سے کرکٹنگ شاٹس کھیلتے رہے۔ رنز بڑھتا رہا اور پاکستان پر دباؤ بھی۔

میچ میں انڈین پلان یہی تھا کہ روہت شرما اٹیک کرے گا جبکہ شمبھن گل وکٹ پر ٹھیرے گا، کوہلی کا بھی یہی کردار تھا۔ روہت نے کئی اچھے شاٹس کھیلے، نسیم شاہ کو چھکا اور چوکا لگایا، شاہین کو چوکے لگائے اور 15 گیندوں پر 20 رنز بنا کر آؤٹ ہو گیا۔ اس کے بعد شمبھن گل اور کوہلی نے اچھی بیٹنگ کی۔

پاکستان کے پاس ابرار جیسا کوئی اور سپنر نہیں تھا جو مخالف بلے باز کو پریشان کر سکے (فوٹو: اے ایف پی)میچ کا ایک اہم موڑ تب تھا جب 11ویں اوور میں حارث رؤف کی گیند پر پہلے کوہلی کا ٹاپ ایچ نکلا، نسیم شاہ اگر ڈائیو کرتا تو شاید کیچ ہو جاتا ، مشتعل حارث نے اگلا گیند زیادہ تیز کرایا اور شمبھن گل نے مڈل وکٹ پر کھڑے خوشدل شاہ کی طرف شاٹ کھیلا، تیز شاٹ تھا، مگر خوشدل شاہ کے ہاتھ میں گیا، اس سے پکڑا نہیں گیا۔ اگر تب شمبھن گل آؤٹ ہو جاتا تو انڈیا پریشر میں آتا اور حارث رؤف بھی اگلے اوورز زیادہ جوش و خروش سے کراتا۔

شمبھن گل چند اوورز کے بعد ابرار احمد کی ایک غیرمعمولی ٹرن گیند پر بولڈ آؤٹ ہو گیا۔ یہ ورلڈ کلاس گیند تھا، کیرم گیند سے ملتی جلتی۔ شمبھن گل اسے بالکل ہی نہیں سمجھ سکا اور بے بسی سے ہکابکا کھڑا رہا۔ شمبھن گل نصف سنچری سے پہلے 46 پر بولڈ ہوا، مگر وہ اپنا کام کر گیا تھا اور اب دباؤ پاکستان پر تھا۔

وراٹ کوہلی اور شریاس آئر نے ابرار کو احتیاط اور ذمہ داری سے کھیلا۔ کوئی چانس ہی نہیں دیا۔ کوہلی کی شاندار سینچری کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی، پاکستان کے خلاف میچز میں کوہلی ایکسٹراآرڈینری پرفارم کرتے ہیں، آج بھی ان کی اننگز بے داغ، سالڈ اور بہترین تھی۔  کپتان رضوان کبھی خوشدل، کبھی حارث اور کبھی نسیم شاہ کو لے آیا مگر دیر ہو چکی تھی۔

پاکستان کے پاس ابرار جیسا کوئی اور سپنر نہیں تھا جو مخالف بلے باز کو پریشان کر سکے۔ یہ کمی آج شدت سے  محسوس ہوئی۔ انڈیا کے پاس تین سپنر تھے ، تینوں وکٹ ٹیکر۔ ہمارے پاس صرف ابرار تھا اور خوشدل وغیرہ صرف گزارا کرنے والے اوسط درجے کے پارٹ ٹائم بولرز۔ ایسے سپنرز جو آؤٹ نہیں کر سکتے تھے۔

یہ ثابت ہو گیا کہ پانچ کوالٹی بولرز کے بغیر بڑی ٹیموں سے ہم ون ڈے میچز نہیں جیت سکتے (فوٹو: اے ایف پی)یہ ثابت ہو گیا کہ پانچ کوالٹی بولرز کے بغیر بڑی ٹیموں سے ہم ون ڈے میچز نہیں جیت سکتے۔ اگر بڑا ٹوٹل ہوتا پھر بھی کوئی چانس تھا۔ جب ہدف بھی چھوٹا ہو، فیلڈنگ میں کیچ چھوڑے جائیں، فاسٹ بولرز بھی کرشمہ نہ دکھا پائیں ، پھر شائقین صرف یہ دیکھیں کہ میچ کب ختم ہوتا ہے، نتیجہ تو شروع ہی سے واضح ہو جاتا ہے۔

پاکستان میچ ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔ انڈیا سے ہارنا پاکستانی شائقین کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان کی یہ ٹیم جیتنے اور آگے سیمی فائنل میں جانے کی مستحق نہیں۔

ہماری ٹیم بیلنس نہیں تھی، سٹار کھلاڑی فارم میں واپس نہیں آ سکے، مڈل آرڈر میں ذہنی پختگی کی کمی رہی، سیٹ ہو کر وکٹیں گنواتے رہے۔ ہمارے پاس کوالٹی آل راؤنڈر نہیں۔ پاور ہٹرز نہیں۔ ٹیل لمبی ہے اور دس 20 رنز سے زیادہ کی ان میں سکت نہیں۔

 پاکستان کو اس میچ میں پرفارمنس پر تین سے چار نمبر مل سکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)ہمارے فاسٹ بولرز میں تسلسل کی کمی ہے۔ چند گیندیں اچھی کرائیں، مگر پھر پٹری سے اتر جاتے، لوز گیند کرا دیتے یا پھر غیرضروری ایڈونچر۔ تسلسل کے ساتھ اچھی لائن اور لینتھ پر بولنگ نہ کرانے کی وجہ سے وکٹیں بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے فیلڈنگ ناقص۔ ہاتھ میں گیند پر مخالف سنگل لے لیتے، ان کی تھرو کبھی وکٹوں پر نہیں لگتی۔ ہاتھ میں کیچ نہیں پکڑے جاتے۔ یہ سب اوسط سے کم درجے کی ٹیم کی نشانیاں ہیں۔

 پاکستان کو اس میچ میں پرفارمنس پر تین سے چار نمبر مل سکتے ہیں۔ جب مخالف آٹھ نو نمبر لے رہے ہوں تو تین چار والے فیل یا پھر تھرڈ ڈویژن لینے والے ہی ہوں گے۔ ناکام، پیچھے رہنے والے، مایوس اور شکست خوردہ۔ یہی آج کے پاک انڈیا میچ میں ہمارا رزلٹ ہے!

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More