تن من نیل و نیل، ایک کرشماتی اختتام
محض چندماہ قبل کی بات ہے ‘ سلطانہ آپا کے بالمقابل ایک پریس ریلیز پر بات ہورہی تھی۔ پورا صفحہ پڑھنے کے بعد آپا نے کہا “دیکھو پہلے ڈرامے من جوگی کا موضوع حلالہ کا احاطہ ضرور کررہا ہے لیکن مقصد حلالہ پر بات کرنا نہیں ہے جب کہ نادان بھی منشیات کے گرد گھومتا ضرور ہے لیکن مقصد اس کا بھی موب منٹیالٹی ہے یعنی ہجوم کو ورغلاکر اپنی مقصدیت کا حصول جبکہ تیسرا ڈرامہ ہلکے پھلکے موضوع پر ہے اور ٹک ٹاکرکے گرد گھومتا ہے لیکن اس میں بھی ہم لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کسی کے ورغلانے میں نہ آئیں‘ لوگوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں ورنہ معاشرے میں ظالموں کے ہاتھوں مظلوم قتل ہوتے رہیں گے‘ گھر اجڑتے رہیں گے ۔”
پوری بات سننے کے بعد پریس ریلیز تیار ہوگئی‘ اس ضمن میں سلطانہ آپا نے بھی ہر اس شخص سے بات کی‘ ہر اس سوال کا جواب دیا جو کوئی جاننا چاہتا کیونکہ اس منی سیریز کو بنانے کا مقصد صرف ڈرامہ بنانا نہیں بلکہ عوام کو ایک پیغام دینا تھا اور بالاخر تن من نیل و نیل کے ذریعے وہ اپنا پیغام پوری دنیا میں جہاں جہاں ٹی وی دیکھا جاتا ہے پہنچانے میں کامیاب ہوگئیں ۔
اس رمضان، ملئے 2025 کی سینڈریلا سے
ڈرامے کے اختتام سے محض دس منٹ قبل جب ہنستے کھیلتے‘ محبت کی راہوں پر دھیرے دھیرے چلتے ڈرامے نے اچانک اپنا رخ بدلااور آنا فانا سونو‘رابی اور مون آنکھوں میں خوف لئے اپنی جان بچاتے تنگ گلیوں میں بھاگتے نظر آئے ‘ ایسے میں اگر ا سکرین پر مردان کے مشال خان، سیالکوٹ کے منیب اور مغیث، سری لنکن شہری پرینتھا کمارا اور دیگر کی تصاویر نہ بھی دکھائی جاتیں تو بھی ہمیں یہی واقعات یاد آتے۔
یہ سین جس‘ جس نے دیکھا اس ‘ اس کی آنکھیں آنسو برساتی نظر آئیں‘ بے بسی کی یہ داستان سنانا ‘ اسے پیش کرنا اور کچھ اس اندا ز میں کہ بات دلوں پر اثر کرجائے کچھ ایسا سہل نہ تھا۔ ہر ہر قدم پر دشواریا ں پیدا ہوئیں لیکن وہ سلطانہ صدیقی ہی کیا جو مسائل سے گھبرا جائیں۔
ہلکے پھلکے انداز میں چلتے ہوئے ڈرامے کی آخری قسط سے پہلے کہا گیا ایک ڈائیلاگ ” سکھوں کا پرانا گھر مقدس مقام کیسے ثابت ہوگا؟ بعد میں سب کو پتا چل ہی جانا ہے۔ جب تک پتا چلے گا تب تک ہجوم ہمارا کام کر چکا ہوگا۔“ اختتام کی جانب اشارہ کررہا تھا لیکن ڈرامہ کیونکہ ہلکے پھلکے اندا ز میں چل رہا تھا اس لئے کسی کی توجہ اس جانب نہیں گئی ۔
ڈرامے کے آخری سین میں کچھ ایسی منظر کشی کی گئی ہے جو معاشرے کا ایک بدنما رخ ہے۔دراصل اس کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت رونما ہوتا ہے جب کچھ لوگ توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک ہجوم کو مشتعل کر دیتے ہیں۔اس سے پہلے کہ مرکزی کرداروں کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا یا وہ اپنی بے گناہی ثابت کرتے‘ مشتعل افراد ہاتھوں میں ڈنڈے اور کلہاڑیاں اٹھائے ان کے پیچھے دوڑتے ہیںمگر اس سب کے دوران سارا شہر تماشائی بنا دیکھتا رہا اور وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آخری قسط میں بھی اس اختتام کی کسی کو توقع نہیں تھی اس لئے اچانک اسکرین پر رونما ہونے والے مناظر نے لوگوں کے ذہنوں کو جامد کردیا۔ایک ایسا شور اٹھا جس کی گونج اگلے تین دن تک پورے سوشل میڈیا پر چھائی رہی، کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس نے اس موضوع پر بات نہ کی ہوئی اور انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر ایک نے وہ بات کی جو سلطانہ صدیقی کا وژن تھا یعنی اپنے دماغ سے کام لیں ‘ کسی کے مفادات کی بھیڑ نہ چڑھیں ۔ یہ آگ صرف دوسروں کا نہیں بلکہ آپ کا اپنا گھر بھی جلا سکتی ہے۔
ہانیہ عامر اور دلجیت کی ایک ساتھ فلم کی خبریں زیر بحث
تن من نیل و نیل میں مردوں کے ساتھ جنسی ہراسگی‘ مرد کی انا اور اس انا کی وجہ سے انکار برداشت نہ کرنا، ہجوم کے ہاتھوں قتل‘ گھر والوں کی پسند سے کی گئی کھوکھلی شادی اور اپنی سیاست چمکانے کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے جیسے موضوعات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔
مصطفی آفریدی کے قلم نے بڑی مہارت سے کہانی کو کچھ اس طرح سے بنا کہ اس ڈرامے کا ہر کردار ایک ایسی حقیقت کا آئینہ دار نظر آیاجس سے ہم اکثر نظریں چراتے نظر آتے ہیں۔ جیسے زیادتی پرخاموشی‘ کبھی وقت کسی کے خلاف بھی احتجاج کروا لینا اور جب یہی ہجوم بے قابو ہو کر احتجاج کو اجتماعی قتل میں تبدیل کر دے تو ملال اور ملامت کے سوا کچھ نہ کرنا۔
اس تمام حساسیت کو قرطاس پر بکھیرنا مصطفی آفریدی کا ہی کمال تھا اور اس پر جب سیف حسن نے اپنا جادو جگایا تو کہانی کا رنگ دو آتشہ ہوگیا۔ ان تینوں منی سیریز میں جو موضوعات پیش کئے گئے وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھا اور یہ سلطانہ صدیقی کا کمال ہے اور یقینا یہ صرف سلطانہ صدیقی ہی کرسکتی تھیں جو کچھ ہم نے پردے پر دیکھا۔ اللہ ایسے لوگوں کو سلامت رکھے جو صرف اپنا نہیں بلکہ سب کا سوچتے ہیں ۔