مدھو بالا جن کے حُسن کا شہرہ اُن کی اداکاری پر بھاری رہا: دلیپ کمار سے محبت مگر کشور کمار سے ’بےجوڑ‘ شادی کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Feb 24, 2025

اپنے زمانے کی معروف اداکارہ مدھوبالا انتہائی قابل اداکارہ تھیں لیکن اُن کی اداکاری سے زیادہ اُن کی بلا کی خوبصورتی کا شہرہ زیادہ رہا۔

فلم ’انڈیا‘ کے ایڈیٹر بابو راؤ پٹیل کہتے تھے کہ ’مدھوبالا انڈین فلم انڈسٹری کی سب سے باصلاحیت، ورسٹائل اور سب سے خوبصورت اداکارہ تھیں۔‘

انھیں انڈین فلم انڈسٹری کی ’وینس‘ یعنی حُسن کی دیوی کہا جاتا تھا۔ اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ بیگم پارا کہتی تھیں کہ ’کبھی کبھی میں مدھوبالا کی ایک جھلک اُس وقت دیکھ لیتی تھی جب وہ صبح چہل قدمی کے لیے جاتی تھیں، اُن کے چہرے پر پڑنے والی ایک نگاہ آپ کا دن خوبصورت بنا دیتی تھی۔‘

اداکارہ نروپا رائے کا خیال تھا کہ مدھوبالا کا جسم، سر سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک، مکمل طور پر پرفیکٹ تھا۔ اس میں کوئی کمی یا کسر نہیں تھی۔‘

مینو ممتاز کہتی تھیں کہ ’اُن کی جلد اتنی شفاف تھی کہ اگر وہ پان کھاتیں تو آپ دیکھ سکتے تھے کہ اُن کے گلے سے سُرخ رنگ کیسے نیچے اُترتا ہے۔‘

یہ مشہور ہے کہ فلم ’ریل کا ڈبہ‘ میں مدھوبالا کے ساتھ کام کرنے والے شمی کپور انھیں دیکھتے ہی اپنے ڈائیلاگ بھول جاتے تھے۔

مشہور صحافی بی کے کرنجیا نے اپنی سوانح عمری ’کاؤنٹنگ مائی بلیسنگز‘ میں لکھا ہے کہ ’اُن کی کسی بھی تصویر نے اُن کی غیر معمولی خوبصورتی کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔‘

دیوآنند مدھوبالا کی کھنکتی ہنسی کے گرویدہ تھے

لیکن ایسا نہیں تھا کہ مدھوبالا میں کوئی کمی نہیں تھی۔ خدیجہ اکبر نے مدھوبالا کی سوانح عمری ’دی سٹوری آف مدھوبالا‘ میں لکھا ہے کہ ’اپنے والد کے ساتھ اُن کی وفاداری، صحیح وقت پر درست فیصلہ نہ لینا اور حد سے زیادہ جذباتی طبیعت نے اُن کی زندگی کو پیچیدہ بنا دیا تھا، جس کی وجہ سے انھیں بہت سے بُرے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔‘

فلم میگزین ’سٹار اینڈ سٹائل‘ کے سابق ایڈیٹر گلشن ایونگ کہتے تھے کہ ’ان میں کوئی کجی بالکل نہیں تھی، وہ ایک بچے جیسا دل اور سادگی رکھتی تھیں۔‘

مشہور اداکار دیوآنند کو مدھوبالا کی کھلکھلاتی ہنسی سب سے زیادہ پسند تھی۔

انھوں نے اپنی سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ میں لکھا کہ ’اُن کا چہرہ ہمیشہ صبح کی اوس کی طرح تروتازہ رہتا تھا۔ ان کی شخصیت کی سب سے خاص بات اُن کی مشہور ہنسی تھی۔ جب بھی انھیں موقع ملتا وہ زور سے ہنستیں۔ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ کب، کس بات پر اور کتنی دیر تک ہنسیں گی۔ شاٹ کے دوران وہ اچانک ہنسنا شروع کر دیتیں، پھر ڈائریکٹر سیٹ کی لائٹ بجھا کر چائے کا آرڈر دیتے اور اِس بات کا انتظار کرتے کہ مدھوبالا اپنی ہنسی پر قابو پا لیں۔‘

’محل‘ فلم نے مدھوبالا کو قومی سطح پر پہچان دیا

مدھوبالا کا اصل نام ممتاز جہاں بیگم دہلوی تھا۔ وہ 14 فروری 1933 کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے نو سال کی عمر میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا اور ان کی پہلی فلم ’بسنت‘ تھی۔

اس فلم کی شوٹنگ کے بعد ممتاز جہاں واپس دہلی چلی گئیں۔ اس کے بعد دیویکا رانی نے ممتاز کو فلم ’جوار بھاٹا‘ میں کردار دینے کے لیے دہلی سے بُلایا۔ بعد میں ممتاز نے یہ کردار نہیں کیا لیکن اُن کے والد نے ممبئی (اس وقت بمبئی) میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

ان دنوں مشہور ہدایتکار کیدار شرما نے فلم ’بیچارہ بھگوان‘ شروع کی جس میں انھوں نے اپنی اہلیہ کملا چٹرجی کو ہیروئن کا کردار دیا لیکن اچانک کملا کی موت ہو گئی اور فلم بند کرنی پڑی۔

اہلیہ کی موت کے صدمے سے سنبھلنے کے بعد کیدار شرما نے یہ فلم دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا اور چائلڈ آرٹسٹ ممتاز(مدھوبالا) کو اپنے اسسٹنٹ راج کپور کے ساتھ بطور ہیروئن لے لیا۔ کیدار شرما ہی نے ممتاز جہاں کا نام بدل کر انھیں مدھوبالا کا نام دیا۔

فلم کا نام بھی بدل کر ’نیل کمل‘ رکھ دیا گیا۔ سنہ 1949 میں مدھوبالا کی فلم ’محل‘ نے انھیں انڈین نوجوانوں کے خوابوں کی ملکہ بنا دیا تھا۔

راجکمار کیسوانی اپنی کتاب ’داستانِ مغل اعظم‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جھولے پر جھولتی ایک خوبصورت شوخ حسینہ اور بار بار قریب آنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہونے والے اُس چاند سے چہرے نے نہ صرف اس فلم کی کامیابی کے باکس آفس پر جھنڈے گاڑ دیے بلکہ ساتھ ہی مدھوبالا کو کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت بھی سمجھا جانے لگا۔‘

ہالی وڈ میں بھی رول ملنے کا امکان

اس زمانے میں نیویارک کے ’تھیٹر آرٹس‘ میگزین نے مدھوبالا کی تصویر کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ’دنیا کی سب سے بڑی سٹار جو بیورلی ہلز میں نہیں رہتی۔‘

تین بار آسکر جیتنے والے فرینک کاپرا ایک فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے بمبئی آئے تھے۔ ’مووی ٹائمز‘ کے ایڈیٹر بی کے کرنجیا اپنے میگزین کے ایک شمارے کے ساتھ کاپرا کا انٹرویو کرنے گئے تھے۔

اس میگزین کے صفحہ اول پر مدھوبالا کی تصویر چھپی تھی۔ کرنجیا اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’کاپرا نے جیسے ہی میگزین کو دیکھا، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ کیا یہ واقعی اتنی خوبصورت ہے؟ کیا میں اس سے مل سکتا ہوں؟ کیا میں اس کے لیے ہالی وڈ میں کردار دلا سکتا ہوں؟‘

مدھوبالا سے تاج ہوٹل میں ملاقات طے ہوئی۔ کرنجیا نے بہت پُرجوش ہو کر یہ بات مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان کو بتائی۔

کرنجیا نے لکھا کہ ’اُن کے والد نے یہ کہہ کر پورے معاملے کو ختم کر دیا کہ مدھوبالا کو کانٹے اور چاقو سے کھانا نہیں آتا، اس لیے وہ اس میٹنگ میں نہیں جائیں گی۔ اگر وہ میری تجویز مان لیتے تو مدھوبالا کو پوری دنیا میں پہچان مل جاتی۔‘

دلیپ کمار کے ساتھ محبت

دلیپ کمار اور مدھوبالا ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے لیکن مدھوبالا کے والد کو دلیپ کمار کا سایہ بھی پسند نہیں تھا۔

بی آر چوپڑا کی فلم ’نیا دور‘ میں دلیپ کمار کے مقابل ہیروئن کے کردار کے لیے مدھوبالا کو پہلے منتخب کیا گیا تھا۔ اس فلم کی شوٹنگ بمبئی میں ہونی تھی لیکن بعد میں پروڈیوسر بی آر چوپڑا نے محسوس کیا کہ اسے بھوپال میں بھی شوٹ کرنا ضروری ہے۔

مدھو بالا کی دلیپ کمار سے لازوال محبت، مگر بات شادی تک کیوں نہ پہنچ سکی؟انڈین اداکارہ مدھوبالا جن کے کروڑوں چاہنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھےجب دلیپ کمار پر ’پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام‘ لگا اور نشانِ امتیاز ملنے پر ہنگامہ برپا ہوابالی وڈ کی ’بے پرواہ‘ لڑکی جس نے انڈین سنیما کا ’سکرپٹ‘ بدل کر رکھ دیا

خدیجہ اکبر لکھتی ہیں کہ ’مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان نے اپنی بیٹی کو بمبئی کے باہر شوٹنگ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، انھیں لگا کہ بمبئی سے باہر جانے سے مدھوبالا اور دلیپ کمار کے درمیان محبت مزید پروان چڑھے گی، اس لیے وہ اس پر راضی نہیں ہوئے۔ تب تک فلم کی دس دن کی شوٹنگ ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود بی آر چوپڑا نے فلم میں مدھوبالا کی جگہ وجنتی مالا کو لے لیا۔‘

وہاں سے دلیپ کمار اور مدھوبالا کی جوڑی الگ ہو گئی۔ بی آر چوپڑا یہ معاملہ عدالت میں لے گئے جس کی وجہ سے دلیپ کمار اور مدھوبالا کے درمیان اتنی تلخی بڑھی کہ اُن کے تعلقات خراب ہو گئے۔

اختلاف کی بہت سی وجوہات رہیں

بی کے کرنجیا نے اس بریک اپ کی ایک اور وجہ بتائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’عطا اللہ خان نے دلیپ کمار کو مدھوبالا سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی، یہ کہہ کر کہ وہ پہلے اپنی بہنوں کی شادی کریں۔ جب میں نے خان صاحب سے اس عجیب و غریب حالت کے بارے میں پوچھا تو اُن کا جواب تھا، ’میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی دلیپ کمار کی بہنوں کے کپڑے دھوئے۔‘

دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں اس علیحدگی کی تیسری وجہ بتائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’عام خیال کے برعکس عطا اللہ خان میری مدھوبالا سے شادی کے خلاف نہیں تھے، ان کی اپنی پروڈکشن کمپنی تھی۔ وہ دو بڑے ستاروں کو ایک چھت کے نیچے لانے کے خیال سے بہت خوش تھے۔ لیکن اگر میں اس پورے معاملے کو اپنی نظر سے نہ دیکھتا تو ایسا ہی ہوتا جیسا وہ چاہتے تھے۔‘

دلیپ کمار لکھتے ہیں کہ ’عطا اللہ خان مدھو کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ میں اس کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ وہ اپنے والد کے دلائل سے متفق نظر آئیں اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ میں ایک جال میں پھنس جاؤں گا اور میں نے اپنے کرئیر کی جو تشکیل کی تھی وہ خواہشات اور دوسروں کی چالوں کی وجہ سے تباہ ہو جائے گی۔‘

دلیپ کمار نے لکھا کہ مدھوبالا اس معاملے میں غیر جانبدار رہیں اور اِسی بنیاد پر دلیپ کمار نے اُن سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

دل میں سوراخ ہونے کے باوجود محنت

مدھوبالا کو بچپن سے ہی دل کی بیماری تھی۔ اُن کے دل میں سوراخ تھا اور اُس وقت تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں تھا۔ بیماری کے باوجود انھوں نے فلم ’مغل اعظم‘ کی شوٹنگ مکمل کی۔

وہ اپنا کام بے پناہ لگن سے کرتی تھیں۔ مغل اعظم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سلطان احمد کہتے ہیں کہ ’آپ کو فلم کا پہلا سین یاد ہو گا جس میں مدھوبالا کو مجسمے کی طرح کھڑا کیا گیا تھا۔ زری کے کام سے لدے بھاری کپڑوں کے وزن کے ساتھ مدھوبالا شوٹ کے مکمل ہونے تک گھنٹوں تک شدید گرمی میں بغیر کسی شکایت کے کھڑی رہیں۔ فلم کے آخری سین میں مدھوبالا زیادہ تر فولاد کی بھاری بھرکم زنجیروں میں جکڑی نظر آتی ہیں۔‘

راجکمار کیسوانی لکھتے ہیں کہ ’زنجیریں اتنی بھاری تھیں کہ جب بھی وہ انھیں پہن کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتیں تو گھٹنوں کے بل گِر جاتی تھیں، لیکن ہمت نہیں ہاری اور پوری طاقت سے اس کام کو انجام دیا۔ ان زنجیروں کا وزن مدھوبالا کے وزن سے زیادہ تھا اور انھیں پہن کر چلنا بڑی آزمائش اور مشکل کا کام تھا۔‘

اُن کا علاج کرنے والے بمبئی کے امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر جال وکیل نے انھیں خبردار کیا تھا کہ وہ بہت زیادہ سخت کام نہ کریں اور فلموں میں رقص کے مناظر نہ کریں۔

خدیجہ اکبر لکھتی ہیں کہ ’حیرت کی بات ہے کہ اُن کے والد عطا اللہ خان نے، جنھوں نے اپنی بیٹی پر ویسے تو بہت سی پابندیاں لگائیں، انھیں کم فلمیں لینے پر مجبور نہیں کیا۔ ان پر کام کا بوجھ کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ انھوں نے فلم ’گیٹ وے آف انڈیا‘ اور ’مغل اعظم‘ کے لیے راتوں کو بھی شوٹنگ کی۔‘

کسی پروڈیوسر نے مدھوبالا کے کام کا بوجھ کم نہیں کیا۔ رقص، پانی میں بھیگنا اور پاؤں میں زنجیروں کے ساتھ چلنا، مدھوبالا نے سب کچھ کیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ کام کرتے ہوئے بے ہوش ہو جاتیں لیکن جیسے ہی وہ صحتیاب ہوتین دوبارہ کام کرنے لگتیں۔

کشور کمار کے ساتھ ’بے میل شادی‘

مدھوبالا نے اداکار اور گلوکار کشور کمار سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا جو پہلے سے ہی شادی شدہ تھے۔ کشور انھیں علاج کے لیے لندن لے گئے۔ ڈاکٹروں نے انھیں بھاری اور دباؤ والے کام کرنے سے منع کیا اور انھیں بچہ پیدا نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔

تاہم ڈاکٹروں نے انھیں صحتیاب ہونے کی کوئی امید نہیں دلائی۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دس سال تک زندہ رہ سکتی ہیں جبکہ اگلے ایک سال کے دوران بھی مر سکتی ہیں۔ وہ اس احساس کے ساتھ لندن سے بمبئی واپس آ گئیں کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔

وہ اپنی زندگی کے آخری نو سالوں میں لمحے لمحے مرتی رہیں۔ مدھوبالا کی بہن مدھور نے خدیجہ اکبر کو بتایا کہ ’کشور کمار لندن سے واپس آتے ہی انھیں ہمارے گھر لے آئے، انھوں نے کہا کہ وہ بہت مصروف ہیں اور مدھوبالا کے لیے اُن کے پاس وقت نہیں ہے۔ مدھوبالا کو یہ بات بہت بُری لگی، وہ شدید بیمار تھیں، انھیں اُس وقت اپنے شوہر کی ضرورت تھی، کشور کمار نے اُن کے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کی مگر کیا صرف اتنا کرنا کافی تھا؟‘

کشور ان سے فون پر بات کرتے تھے مگر پھر رفتہ رفتہ کشور اُن سے ملنے کم آنے لگے۔ خدیجہ اکبر لکھتی ہیں کہ ’یہ ایک بے میل شادی تھی جو جلدبازی میں کی گئی تھی۔ اس شادی سے انھیں کبھی خوشی نہیں ملی۔ مدھوبالا کو کشور سے بے پناہ محبت کی ضرورت تھی جو انھیں نہیں ملی۔‘

خوبصورتی اور دلکشی آخر تک قائم رہی

کشور کمار کی تیسری بیوی لینا چندراورکر کا خیال تھا کہ جب مدھوبالا کو یہ احساس ہو گيا کہ اب ان کی دلیپ کمار سے شادی نہیں ہو سکتی تو انھوں نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ کسی سے بھی شادی کر سکتی ہیں، ایک ایسے شخص سے شادی کر لی جسے وہ اچھی طرح جانتی بھی نہیں تھیں۔

مدھوبالا کی کشور کمار سے شادی کی وجہ کچھ بھی ہو، مگر ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ محبت اس شادی کی وجہ نہیں تھی۔ دلیپ کمار ان کے آخری لمحات میں ان سے ملنے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیماری کی حالت میں بھی وہ اتنی ہی پُرکشش لگ رہی تھیں۔

بی کے کرنجیا ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے اُن سے ملاقات کی۔ انھوں نے لکھا کہ ’اُن کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ وہ یقیناً کمزور ہو گئی تھیں لیکن پھر بھی خوبصورت لگ رہی تھیں۔‘

23 فروری1969 کو اپنی 36ویں سالگرہ کے نو دن بعد مدھوبالا نے موت کے ساتھ جدوجہد ترک کر کے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

دلیپ کمار اس وقت مدراس میں فلم ’گوپی‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ جب تک وہ بمبئی پہنچتے اس وقت تک مدھو بالا کو سپردِ خاک کر دیا گیا تھا۔

دلیپ کمار انھیں الوداع کرنے قبرستان پہنچے اور اُس کے بعد وہاں سے تعزیت کے لیے وہ مدھوبالا کے گھر گئے۔

جب دلیپ کمار پر ’پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام‘ لگا اور نشانِ امتیاز ملنے پر ہنگامہ برپا ہوامدھو بالا کی دلیپ کمار سے لازوال محبت، مگر بات شادی تک کیوں نہ پہنچ سکی؟بالی وڈ کی ’بے پرواہ‘ لڑکی جس نے انڈین سنیما کا ’سکرپٹ‘ بدل کر رکھ دیاانڈین اداکارہ مدھوبالا جن کے کروڑوں چاہنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھےبالی وڈ پر راج کرنے والی ’بدروحوں اور چڑیلوں‘ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟بالی وڈ فلم ’مسز‘، سیکس لائف میں غیر حسّاس رویہ اور سوشل میڈیا بحث: ’مرد یہ فلم ضرور دیکھیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More